• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آج کل میڈیا میں پاکستان کی اقتصادی صورت حال کے بارے میں ہر طرف سے تبصرے کئے جارہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ بیرونی ادائیگیاں، شرح نمو میں کمی، برآمدات میں کمی اور تجارتی خسارہ کے اعداد و شمار مختلف اینکروں کی انگلیوں پر لکھے ہوئے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس ابتری کا اندازہ انہیں حال ہی میں ہوا ہے۔ لیکن یہ اینکر حضرات یہ نہیں بتاتے کہ پچھلے پینتیس سال سے پاکستان کی اکانومی کا انحصار بیرون ملک موجود مزدوروں اور کاریگروں کی ترسیلات زر پر تھا۔ اس کے علاوہ پاکستان کی اکانومی پر ہر سال 30لاکھ نئے نوجوانوں کا بوجھ پڑرہا ہے۔ جن کے لیے روزگار کے مواقع کسی بھی صورت میسر نہیں کئے جاسکتے۔ پاکستان میں صرف پراپرٹی اور اسٹاک ایکسچینج کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں اور صاف ظاہر ہے یہ دونوں کچھ پیدا نہیں کرتے۔ پاکستان اکنامک فورم کی2011کی رپورٹ کے مطابق ہمیں اگلی چار دہائیوں میں اقتصادی ترقی کی شرح نمو10فی صد برقرار رکھنا ہوگی تاکہ ہر دس سال میں جی ڈی پی دگنا ہوسکے۔ ان حالات میں علاقائی تعاون کے ثمرات حاصل کرنے کے علاوہ ہمارے پاس کوئی چارہ کار نہیں ہے۔ یاد رکھئے کہ کسی بھی ملک کی قومی سلامتی کا انحصار اس کے عوام کی صحت، تعلیم، مجموعی خوشحالی اور سیاسی شعور سے وابستہ ہوتا ہے نہ کہ اسلحے کے انبار سے۔
پاکستان کی خوش قسمتی ہے کہ اس کا جغرافیائی محل وقوع اور لیبر فور س کا تقریبا 60فی صدحصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے جو پاکستان کی اقتصادی ترقی میں ریڑھ کی ہڈی بن سکتا ہے۔ سارک ممالک کی آبادی ڈیڑھ ارب سے زائد نفوس پر مشتمل ہے اور یہ خطہ اب تک اپنے غریب عوام کو اقتصادی ثمرات دینے میں ناکام رہا ہے۔ پاکستان اپنی بہت ساری اشیا مثلا جیولری، سرجیکل اوزار، ایتھائل الکوحل، فارماسوٹیکل، الیکٹرونک آئٹم اور کھیلوں کاسامان دوسرے ممالک کو برآمد کر رہا ہے حالانکہ انڈیا میں ان پروڈکٹس کی بہت مانگ ہے اور جغرافیائی قربت کی وجہ سے یہ پاکستان کے لئے بہت سودمند ہوسکتا ہے مثلا جیمس اسٹون اس وقت دبئی، ہانگ کانگ اور بنکاک کے راستے جارہا ہے۔ یہی اگر زمینی راستے سے جائے تو اس سے بہت زیادہ بچت ہو سکتی ہے۔ اس وقت انڈیا چائنہ سے آئرن ،اسٹیل پائپس ،الیکٹرک سامان، ٹیلی فون کے سیٹ، پرزے اور تعمیراتی سامان درآمد کررہا ہے جبکہ یہی مال پاکستان بھی انڈیا کو نہ صرف برآمد کرسکتا ہے بلکہ دونوں ممالک کے لئے یہ تجارت بہت کارآمد بھی ہوسکتی ہے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان 35سے 40فیصد راہداری کی قیمت بچا سکتا ہے اگر یہی مال وہ انڈیا کو زمینی راستے سے مہیا کرے۔پوری دنیا اس وقت انفارمیشن ٹیکنالوجی کی ساٹھ فی صد آئوٹ سورسنگ ہندوستان کوکررہی ہے اور انڈیا کی 2008تک کمپیوٹر اور بزنس سروسز کی برآمدات 52.3 بلین ڈالر تھیں۔یورپ نے تقریبا 10بلین ڈالر کی فارما انڈسٹری میں ریسرچ ،کلینکل ٹرائل اور بائیو ایکولنس کی مد میں سرمایہ کاری کی ہوئی ہے جبکہ پاکستان میں ایسی کوئی ٹیکنالوجی نہیں ہے۔ہندوستان سے ٹیکنالوجی کے ماہرین بھی یورپ سے آدھی قیمت پرمل سکتے ہیں۔اسی طرح ٹائر کی صنعت میں ٹرانسفر ٹیکنالوجی سے نہ صرف بے حد فوائد حاصل کئے جاسکتے ہیں بلکہ ہندوستان کو ٹائر برآمد بھی کیے جاسکتے ہیں۔سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کی ٹیکسٹائل کی صنعت کو ہو سکتاہے جو کہ اس وقت 55فی صد برآمدات کی حامل ہے۔پاکستان اور انڈیا اس وقت دنیا کے بالترتیب چوتھے اورتیسرے کاٹن پیدا کرنے والے ممالک ہیں۔اگر صرف اسی انڈسٹری میں دونوں ممالک آپس میں تعاون کر لیں تو اس خطے کی حالت بدل سکتی ہے۔
ہندوستان میں اس وقت جرمنی اور سوئٹزرلینڈ کی مدد سے ہائی ٹیک ٹیکسٹائل مشینری تیار کی جارہی ہے۔ ہندوستان کی 1.2بلین آبادی اقتصادی میدان میں تقریبا8فیصدسالانہ ترقی کررہی ہے پاکستان کی ٹیکسٹائل کے لیے یہ بہت بڑی منڈی ثابت ہوسکتی ہے۔ پاکستان اس وقت چاول کی فارم مشینری جاپان، یوکے، یو ایس اے اور روس سے منگوا رہا ہے جبکہ ہندوستان سے بہت آسانی اور کم قیمت پر یہ مشینری منگوا کر چاول کی کوالٹی اور پروڈکشن کو بہت حد تک بڑھایا جاسکتا ہے۔انڈیا اپنی انفارمیشن ٹیکنالوجی کی انڈسٹری کو وسطِ ایشیا تک پھیلانا چاہتا ہے اور پاکستان اس سلسلے میں خطے کا بہترین حب بن سکتا ہے۔ اس وقت پاکستان کے سیمنٹ کی مانگ انڈیا میں دو لاکھ ٹن سے زیادہ ہے جبکہ ہم اس کا چوتھائی بھی برآمد نہیں کر پارہے۔پاکستان نہ صرف سارک بلکہ دوسرے علاقائی خطوں کے درمیان ایک مڈل مین کا کردار ادا کرتے ہوئے بحیرہ عرب، خلیج فارس اور بحیرہ اسود کے درمیان زمینی تجارت کے فاصلوں کو کم کرسکتا ہے۔ اس سلسلے میں پاکستان وسط ایشیا ئی ممالک کے ساتھ سائنس اور ٹیکنالوجی، انشورنس، انفارمیشن ٹیکنالوجی، ادویہ سازی، سیاحت اور ذرائع ابلاغ میں تعاون کرسکتا ہے۔
روس کے خاتمے کے بعد ہی بہت سارے لاطینی امریکہ کے ممالک نے سینٹرل پلیننگ اور سوشلزم کو خیر باد کہہ دیا تھا۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ لاطینی امریکہ کے ممالک نے علاقائی تعاون کو ایک نئی جلا بخشی ۔1990ء میں یہ لاطینی امریکہ کے ممالک آپس میں 16.1بلین ڈالر کی تجارت کرتے تھے جو کہ 1995ء میں بڑھ کر 43بلین ڈالر ہوگئی یوں لاطینی امریکہ کے ممالک نے گلوبلائزیشن کا مقابلہ کیا اور امریکہ کی Monroe Doctrineکو بھی ہمیشہ کے لئے خیر باد کہہ دیا۔ روس کے خاتمے کا دنیا کے دوسرے ممالک کی نسبت سب سے زیادہ خطرناک اثرات کیوبا پر ہوئے جس کی ایکسپورٹ ایک دم نو بلین ڈالر سے کم ہو کر صرف دو بلین رہ گئی۔ دلچسپی کی بات یہ ہے کہ اسکے باوجود بھی کیوبا کی ریاست نے اپنے لوگوں کو بنیادی ضرورت کی چیزیں مہیا کرنے میں کوئی کمی نہیں ہونے دی۔ امریکہ کی اقتصادی پابندیوں کے باوجود وہاں موجود بنیادی ڈھانچہ، کلچر، کمیونیکیشن اور بنیادی صنعتی کلچر کے ہونے کے ساتھ ساتھ عوام میں تعلیمی و سیاسی شعور کی وجہ سے کیوبا کی بقا ممکن ہوسکی ہے۔ آج بھی نوزائیدہ بچوں کی اموات کی شرح کیوبا میں سب سے کم ہے اور اس کی پچانوے فیصد شرح خواندگی تیسری دنیا کے ممالک میں سب سے زیادہ ہے۔ آج لاطینی امریکہ کے زیادہ تر ممالک میں بائیں بازو یا انسان دوست حکومتیں ہیںاور ان ممالک نے کسی نہ کسی طرح علاقائی تعاون کے ثمرات سے فائدہ اٹھا کر اپنے عوام کو صحت، تعلیم، ٹرانسپورٹ اور مکان کی سہولتیں پہنچائی ہیں۔
کیا وجہ ہے کہ لاطینی امریکہ کے ممالک اور سائوتھ ایسٹ ایشیاکے ممالک کی طرح ہمارا خطہ علاقائی تعاون سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا! اس کے لئے ہمیں پاکستان کو قومی سلامتی کی ریاست کی بجائے، فلاحی ریاست کے شعور سے آشنا کرنا ہوگا۔ ایک ایسی ریاست کا تصور جو ماں کی طرح ہو،اور جو سب بچوں سے پیار کرتی ہو۔ ایسی ریاست جو صحت، تعلیم، مکان اور ٹرانسپورٹ کی ذمہ دار ہو۔ یاد رہے کہ آج تیسری دنیا کا کوئی ملک اپنے پڑوسیوں کے ساتھ امن اور بھائی چارے کی فضا پیدا کئے بغیر ترقی نہیں کرسکتا۔ یورپین قوم نے دوسری جنگِ عظیم میں ہولناک تباہیوں کے بعد امن و آشتی کی ایسی فضا پیدا کی کہ انہوں نے اپنی سرحدیں ہی ختم کر دیں۔ آج یورپین ریاستیں جدید فلاحی ریاستوں کا انمول نمونہ ہیں۔ یاد رہے کہ یہ دنیا ہمیں وراثت میں ملی ہے اور اس پر امن ،آشتی اور خوشحالی کے ساتھ زندہ رہنے کے اسباب ہمیں خود ڈھونڈنے ہوں گے۔ نفرت، جنگ اور دہشت گردی ہمیں کسی منزل پر نہیں پہنچا سکتی۔

تازہ ترین