• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب آپ کسی پر اندھا اعتبار کرتے ہیں تو رفتہ رفتہ وہ آپ کو ہی اندھا سمجھنا شروع کردیتے ہیں اور پھر ایک ایسی اندھیر نگری قائم ہوجاتی ہے کہ جہاں سب کچھ دکھائی دینے کے باوجود بھی کچھ دکھائی نہیں دے رہا ہوتا ہے جہاں آپ گلے کسی اور کو لگانا چاہتے ہیں مگر لگ کوئی اور جاتا ہے گریبان کسی اور کا پکڑنا چاہتے ہیں گرفت میں کوئی اور آجاتا ہے اسی اندھیرے کی وجہ سے سچ جھوٹ محسوس ہونے لگتا ہے اور جھوٹ سچ لگنے لگتا ہے اور جن پر یہ اندھا اعتماد کیا جاتا ہے وہ آپ کے اس اندھے پن کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہیں۔ بس اسی صورتحال سے آج کل میں دوچار ہوں شاید آج کل ہی نہیں بلکہ ہمیشہ سے اور نہ جانے کب تک رہوں شاید میری بستیوں میں بسنے والے باسی اس اندھے پن کے اس قدر عادی ہوگئے ہیں کہ وہ اب روشنی سے ڈرنے لگے ہیں جبھی تو اس اندھے اعتبار کی بستی سے باہر آنا ہی نہیں چاہتے۔ ایک دفعہ پھر مجھے بنیاد بناکر اپنی اپنی پارسائی کے دعویدار پھر نمودار ہوئے ہیں اپنی اپنی کمر کس کے ایک دوسرے کو نیچا دکھانے صرف الفاظ ہی سے اپنی اپنی کامیابیوں کی ٹرافی اُٹھانے کو تیار ہوگئےہیں یہ ٹرافیاں یہ ایوارڈز یہ تمغے پہلے بھی لوگ اٹھاتے رہے سجاتے رہے اور اپنے اپنے ترانے گاتے رہے مگر میں تو جہاں کھڑا تھا وہاں سے بھی کئی میل پیچھے چلا گیا قیادت کے دعوے دار جیتتے رہے اور میں ہارتا رہا اپنی مدد کے لئے ایک ایک کو پکارتا رہا مگر جو بھی مدد کو آیا اندھے اعتبار کے بدلے اندھیرا ہی دے گیا میں پھر بھی ان کے سارے وار سہہ گیا صرف اس امید اور اس آس میں کہ نہیں شاید اب سب اچھا ہوجائیگا میرا دشمن جلد ہی سوجائیگا اور جن پر میں نے اندھا اعتبار کیا اُن کے حصے کا سویرا کچھ میرا بھی ہوجائیگا مگر شاید یہ سفر ابھی اور باقی ہے جو ہر آنے والے دن مجھ سے مزید ہمت مزید جرات اور مزید غیرت مانگتا ہے میں سب ہی کچھ دے رہا ہوں اور اندھے اعتبار کے بدلے ملنے والے سارے ہی دکھ سہہ رہا ہوں کبھی انھوں نے مجھ پر امن کے نام پر چڑھائی کرادی تو کبھی دوستی کے نام پر میٹھی گولی کھلادی کبھی یہ آپس میں دست و گریبان ہوتے رہے کبھی ایک دوسرے کے گلے لگ کر روتے رہے میں تو سبھی دیکھ رہا ہوں اور جھیل رہا ہوں کبھی میری سڑکوں پر پڑا کچرا ان کے سر کا تاج بن جاتا ہے اور کبھی یہ ہی کچرا ان کے درمیان ظا لم سماج بن جاتا ہے میں تو ہمیشہ اِن کو پرچی سے عزت دلاتا آیا مگر یہ کبھی بھی خود کو پرچے سے نہ بچاسکے کبھی ہیر پھیر کا پرچہ تو کبھی آپس کی مڈ بھیر کا پرچہ لگتا ہے پرچے سے اور پرچی سے کھیلنا ان کا شوق بن چکا ہے ان کی کامیابی کا ذوق بن چکا ہے اور میرے باسیوں کا روگ بن چکا ہے ۔ ذرا ایک نظر میری طرف بھی تو دیکھو میں تو سب کے لئےبڑا دل رکھتا ہوں میری بانہیں تو سب کو خوش آمدید کہتی ہیں میں نے تو کبھی بھی کسی کے ساتھ زیادتی نہیں کی میری راہوں میں آنے والا ہر شخص میری بانہوں میں ہی آیا اور اُس کی آہوں کو میں نے اپنی ہی آہیں سمجھا ہمیشہ آگے بڑھ کے گلے لگایا جو کچھ بھی کرسکتا تھا کیا جو دے سکتا تھا دیا چاہے زلزلہ سے متاثر ہونے والے ہوں یا وزیرستان کی پہاڑیوں پر سونے والے چاہے سندھ کے سیلاب میں بہہ جانے والے یا ایک دفعہ میری گلیوں میں آکر ہمیشہ ہی ادھر رہ جانے والے میں سمندر کنارے سمندر سے بڑا دل لیکر جی رہا ہوں اور ہر روز آنسوئوں کا ایک سمندر پی رہا ہوں صرف اور صرف اپنے وطن کی خوشی کے لئے اور اس امید پر جی رہا ہوں کہ کبھی تو میرے باسیوں کو اس اندھے اعتبار کا صلہ ملے گا کہ جب ان کی آنکھ کھلے تو ان کو ہر طرف روشنی ہی روشنی نظر آئے۔ ایم کیو ایم اور پی پی پی کے ایک دوسرے پر لگائے جانے بدترین الزامات کی گند سے اُٹھنے والی بدبو سے متاثر ہونے والی میری گلیاں میری سڑکیں میرے محلے اور ان میں بسنے والے میرے بوڑھے میرے جوان اس کو آپس کے اتحاد اور خود پر یقین کی ایک ایسی خوشبو میں بدل دیں کہ پھر اندھا اعتبار بھی روشنی پھیلانے کے لئے میرے ساتھ تمہارے ساتھ کھڑا ہوجائےاور سوچ اور ذہنیت میں کچھ تو بڑا ہوجائے۔
جب میں لاہور اور اسلام آباد کی ترقی کی طرف دیکھتا ہوں تو سوچتا ہوں میرا کیا قصور ہے مگر پھر سوچتا ہوں کہ شاید سارا قصور ہی میرا ہے یا میری گلیوں میں بسنے والے باسیوں کا کیا کبھی انھوں نے یہ سوچا کہ وہ کیوں نہیں اسلام آباد کے باسیوں کی طرح سگنل کی ریڈ لائٹ پر انتظار کرسکتے کیا ضروری ہے کہ ایسی ہی جلدی ہو کہ ہر سگنل کو روند کر آگے بھڑ جاؤ جب تم خود نہ قانون کی حفاظت کرو گے تو قانون کیسے تمہاری حفاظت کرے گا تم چاہتے تو ہو کہ ہر طرف صفائی ہو مگر تم خود ہی ہر موڑ پر کچرے کے ڈھیر بھی لگاتے ہو تو سوچو پھر کیسے صفائی تمہارا ساتھ دے گی جب تم خود ہی اس کے دشمن ہو۔ تم آج لاہور کی ترقی کو بڑے رشک سے دیکھتے ہو اور اپنی بد حالی پر روتے ہو مگر اس کے بھی ذمہ دار تم خود ہو تم نے ہی یہ دیواریں یہ پُل یہ فٹ پاتھ اپنے نعروں اور جھنڈوں سے بھردئیے ہیں آج مجھے یہ ہی نہیں پتہ کہ میرا اصل رکھوالا ہے کون ہر طرف سے ایک نئی آواز آتی ہے جبھی تو میں ترقی نہیں کرپارہا جب تک تم متحد نہیں ہوگے میں ترقی نہیں کروں گا یہ یاد رکھنا اور مجھے نہیں لگتا کہ تم متحد ہونے کو تیار ہو کیوں کہ تم تو روز بروز ایک دوسرے سے دور ہوتے جارہے ہو بجائے قریب ہونے کے ۔ یا تو یہ فیصلہ کرلو کہ متحد ہوکر رہنا ہے یا پھر میرے حال پر جلنا کُڑنا اور لڑنا چھوڑ دو کیونکہ یہ سب کچھ تمہارا ہی دیا ہوا ہے۔ کہیں پیلا جھنڈا کہیں نیلا اور کہیں لال ہر وقت کرتا ہے تم سے سوال کہ کیوں آرہا ہے میری ترقی کو زوال ذرا سوچو اگر یہ پیلا اور نیلا مل جائےتو ہرا بن جائے گا اور ہرا ہی تو سب کچھ ہے زندگی بھی خوشی بھی اور خواہش بھی ذرا سوچو اگر آج بھی تم صرف میرے لئے ایک ہوجاؤ تو اس کا فائدہ مجھے نہیں تمہیں ہوگا صاف محلے ملیں گے آباد گلیاں ملیں گی مضبوط سڑکیں ملیں گی روشنی ملے گی دوستی ملے گی محبت ملے گی ترقی ملے گی غرض ہر وہ نعمت ملے گی جو اتحاد اور بھائی چارے میں پوشیدہ ہے ذرا اپنے اپنے نعرے سے نکل کر دیکھو مجھے تمہاری کتنی شدید ضرورت ہے اپنے لئے نہیں تمہارے لئے تاکہ میں تمہاری زندگیوں کو سہل کرسکوں ہر خوشی کو تم تک پہنچانے میں پہل کرسکوں اور تمہارے دلوں کو دوستی کے محل کرسکوں جہاں ہرآنے والا سکون راحت اور محبت پائے اور ایک دوسرے کا ہوجائے پھر دیکھنا اُس کے بعد تم لاہور جاؤ یا اسلام آباد تمہیں اپنے شہر کی ترقی اور دوستی پر فخر رہے گا اور نہ بھولو کہ لاہور یا اسلام آباد کی ترقی میں سب سے بڑا کردار وہاں کے باسیوں کے آپس میں اتحاد کا ہے باقی سب کچھ پھر خود وقت کے ساتھ ساتھ آتا آگیا۔ خدا پاکستان کے ہر شہر اور ہر شہری کو ترقی اور کامیابی عطا کرے اور ہم سب کو اپنے وطن کی کامیابی کے لئے متحد رکھے۔

تازہ ترین