• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پیارے بلاول! ہزاروں لاکھوں دعائیں۔ امید ہے سب کچھ ٹھیک جارہا ہوگا۔ آج میں پہلی دفعہ تحریری طور پر آپ سے مخاطب ہو رہا ہوں حالانکہ عالم بالا کی جمہوری محفلوں میں پیپلزپارٹی اور آپ کی کارکردگی پر آئے روز گفتگو جاری رہتی ہے۔ ’’پنکی‘‘ تمہاری ذہانت اور برجستگی کی بہت تعریف کرتی ہے اوراکثر مجھے کہتی ہے ’’پاپا! بلاول از لائک می‘‘ چند دن پہلے پروفیسر وارث میر آئے تھے۔ کہنے لگے کہ میرا بیٹا فیصل میر لاہور سے این اے 120میںپیپلزپارٹی کاامیدوار تھا۔ بہت اچھی سیاسی مہم چلانے کےباوجود صرف 1414ووٹ ملے۔ ان کا کہنا تھا کہ پنجاب میں بالعموم اور لاہور میں بالخصوص پارٹی کا برا حال ہے۔ اگلے الیکشن میں بھی اس صورتحال میں تبدیلی نظر نہیں آتی ۔اس موضوع پر نصرت اور پنکی سے بھی بات ہوئی۔ جیالوں اور لیڈروں سے بھی گفتگو ہوئی، ابھی کل ہی پیپلزپارٹی کے کوڑ ےکھانے والوں کا ایک گروپ آیا ہوا تھا۔ بڑی گرمجوشی اورولولے سے یہاں نعرےلگتے رہے۔ ادریس طوطی اور اپنے آپ کو آگ لگانے والے ساتوں جانثار بھی آتے رہتے ہیں۔ ہم سب ہی اپنی پارٹی کے مستقبل کے لئے پریشان ہیں اسی لئے یہ کھلا خط لکھ رہا ہوں۔
ڈیئرسٹ! تمہاری ماں بینظیر یعنی میری پنکی میری اولاد میں سب سے زیادہ ذہین اور بہادر ہے۔ پنکی نے مجھے تفصیل سے بتایا ہے کہ اس نے تمہاری پرورش دبئی میں اس لئے کی کہ تم مغرب زدہ نہ ہوجائو اور تم میں بھرپور مشرقی اور اسلامی رنگ نظر آئے۔تمہاری ماں تمام تر مصروفیات کے باوجود تمہیں خود پڑھاتی تھی۔ ہر ہفتے قرآن کے درس کے لئے بھی تمہیں مسجد لے کر جاتی تھی۔ پنکی کا دعویٰ ہے کہ بلاول میں مشرقی اور مغربی اقدار دونوں ہیں بس اسے تھوڑا ’’پالش‘‘ ہونے کی ضرورت ہے۔
پیارے!
تم نہ صرف میرے بلکہ سارے خاندان کے سیاسی ورثے کے امین ہو اس لئے تمہیں بہت محنتی اور ذمہ دار ہونا پڑے گا۔ ممی ڈیڈی کرائوڈ چھوڑ کر نذیرے اور بشیرے کی بات سننا پڑے گی۔ تمہارے دوست ٹام ڈک اور ہیری جیسے بگڑ ےامیر زادے نہیں بلکہ پپو تیلی، بلا نائی اور مستری اللہ رکھا جیسے غریب لوگ ہونا چاہئیں۔ میں جس شہر میں جاتا تھااپنے غریب دوستوں کو ان کے نام سے پکارتا تھا۔ ابھی ایک دودن پہلے لاہور کامیرا جیالا ’’سائیں ہرا‘‘عالم بالا میں آیاہے تم فوراً اس کے گھرجائو اور اس کے خاندان سے تعزیت کرو۔ یہ وہ جیالاہے جو جنرل ضیاء کے دور ِ استبدادمیں کبھی اپنے ریڑھے پر جئے بھٹوکے ترانے بلند آواز میں بجاتا تھا۔ روشن رکشے والے کی طرح اس نے ہمیشہ پیپلزپارٹی کاجھنڈا اپنی ریڑھی پر لگائے رکھا۔ اس کی ریڑھی چلتی پھرتی پیپلزپارٹی تھی۔
بلاول بیٹے!
پیپلزپارٹی محروم، غریب طبقات کی آواز تھی۔ میں بار بار کہتا رہا ’’بھٹو غریب کی ہر اس کٹیا میں رہتا ہے جس کے گھر کی چھت بارش سے ٹپکتی ہے‘‘ میں جوکہتا تھا اس پر یقین بھی رکھتا تھا اورصدق دل سے اس فلسفے پر عمل بھی کرتا تھا۔ مجھے پتا ہے کہ آپ نے کتے اور آصف نے بلیاں، گھوڑے پال رکھےہیں۔ یہ جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کے چونچلے ہیں۔ میںتو کہا کرتا تھا کہ انگریزوں کے کتے نہلانے والوں کا احتساب ہونا چاہئے۔ میں محلات اور حویلیوں میں رہنے والوں کے خلاف نعرے لگواتا تھا۔ آپ نے ہر شہر میں محل بنارکھے ہیں، یہ فکر و عمل کا تضاد ہے۔ اس میں لوگ آپ کی بات پر یقین نہیں کر پاتے۔ وہ اسے دل کی آواز نہیں سیاسی گفتگو سمجھتے ہیں۔
نانا کی جان!
کل عالم بالا میں نواز شریف کے والد میاں شریف وضع دار، غلام مصطفی جتوئی کو ساتھ لے کر آئے تھے۔ کہنے لگے’’آصف اور بلاول کسی اور کو خوش کرنے کے لئے میر ےبیٹے نواز اور پوتی مریم کی مخالفت کر رہے ہیں۔ آپ انہیں سمجھائیں کہ اہل سیاست سے لڑائی نہ کریں۔ میں نے انہیں جواب دیا کہ میں نے اور پنکی نے ہمیشہ پاک فوج اور دفاع وطن سے محبت کی۔ فوج کے لئے ایٹم بم بناکر اسے ناقابل تسخیر بنا دیا۔ پنکی نے شمالی کوریا سے میزائل ٹیکنالوجی لا کر دی مگر ساتھ ہی ساتھ ہم نے ہمیشہ سویلین بالادستی اور عوامی حکمرانی پر بھی کبھی کمپرومائز نہیں کیا۔ جتوئی صاحب کہنے لگے میاں شریف کے کہنے پر وضع داری میں آگیا ہوں، آپ خود جو چاہیں بلاول کو پیغام دے دیں۔ یوں میں نے اس کے ساتھ کوئی وعدہ نہیں کیا کہ آج کل کے بچے مرضی کے مالک ہوتے ہیں لیکن میری خواہش یہی ہے کہ جمہوری اقدار کی مضبوطی کے لئے نواز شریف کی زیادتیوں کو نظرانداز کردو۔ مجھے علم ہے کہ میمو گیٹ میں نواز کالا کوٹ پہن کر سپریم کورٹ پہنچ گیاتھا۔ پنکی نے مجھے بتایا ہے کہ فوج کو خوش کرنے کے لئے نواز نےآصف سے ملاقات منسوخ کردی اور پھر خود جنرل راحیل شریف کو فون کرکے وضاحتیں دیں۔ ڈاکٹر عاصم کی گرفتاری اور رینجرز کے سندھ میں آپریشن کےبارے میں بھی کبھی کھل کر پیپلزپارٹی کی حمایت نہیں کی گئی۔ یہ سب درست ہے مگر ہمیں جمہوریت باقی سب جماعتوں سے زیادہ عزیزہے اس لئے جمہوریت کو اولیت دیں۔ ذاتی لڑائیاں پس پشت ڈال دیں۔ پنکی اس بات پر مجھ سے اختلاف کر رہی ہے مگر پھر بھی میری رائے یہی ہے۔
بلاول!!
سنو، میں نےاور پنکی نے پیپلزپارٹی کو پاکستان کی سب سے بڑی سیاسی جماعت بنا دیا تھا۔ پنجاب ہمارا مرکز تھا۔ برے سے برے حالات میں بھی ہم کسی کھمبے کو بھی کھڑا کرتے تھے تو وہ 20فیصد ووٹ لے لیا کرتا تھا۔ یہ ووٹ بنک 3بڑی وجوہات کی وجہ سے روٹھ گیا ہے۔ پہلی وجہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی غریبوں اور پسے ہوئے طبقات کی مزاحمتی جماعت تھی مگر 2008کے بعد غیرمحسوس علامتی انداز میں اسے مڈل کلاس اور اپرکلاس کی اقتدار پسند جماعت بنا دیا گیا۔ اس سے ہمارا اصول پسندووٹر بہت مایوس ہوا۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ ن لیگ جنرل ضیاء الحق کے سیاسی فکر کی وارث تھی۔ ہمارا کارکن اس سے لڑتا رہا تھا۔ ہمارا اس سے اتحادانہیںاپنے نظریے کی شکست لگا۔ تیسری اور اہم ترین وجہ یہ ہے کہ پیپلزپارٹی 1967سے لے کر 2007تک ملک کے سب سے مضبوط دھڑے کی نمائندگی کرتی تھی۔ 2013میں پی ٹی آئی کو جگہ دینے سے پیپلزپارٹی دو مخالف فریقوں کی دوڑ سے نکل کر تیسرا فریق بن گئی۔ پنجاب میں لوگ صرف دو ٹاپ امیدواروں کو ووٹ دیتے ہیں تیسرادھڑا ووٹ حاصل نہیں کرپاتا کیونکہ لوگ سمجھتے ہیں یہ تو جیت ہی نہیں سکتا اسےووٹ دینا ووٹ ضائع کرنے کے مترادف ہوگا۔
خط لمبا ہو گیا ہے مگر آخر میں بتانا چاہتا ہوںکہ اچھی خبر یہ ہے کہ میر مرتضیٰ اور شاہنواز کے ساتھ پنکی کی صلح ہو چکی ہے۔ چند دن پہلے تمہاری نانی نصرت نے ڈنر پر سب کو بلایا ہوا تھا۔ گلے شکوے ہوئے مگر بالآخر پتا چلا کہ یہ سب تو بے قصور تھے، لڑوانے والا گروہ کوئی اور تھا۔ آصف اور تمہاری بہنوں کو بہت پیار۔ میری اور پنکی کی فیورٹ آصفہ ہے۔
تمہارا نانا زیڈ اے بھٹو

تازہ ترین