• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کی موجودہ سیاسی بے یقینی کی صورت حال میں قیاس آرائیوں کا جو سلسلہ جاری ہے ، وہ فطری ہے ۔ کچھ حلقے یہ قیاس آرائی کر رہے ہیں کہ ان حالات میں 2008 ء سے جاری سیاسی عمل کا مزید آگے چلنا ممکن نہیں رہا ۔ ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں اور طاقتور روایتی سیاست دانوں کا مستقبل میں کوئی کردار نظر نہیں آ رہا ہے ۔ سیاست کا نیا رخ متعین کرنے اور نئی سیاسی قیادت پیدا کرنے کے لئے طویل مدتی ٹیکنو کریٹ یا قومی حکومت قائم ہو سکتی ہے ۔ آئین میں اس کی گنجائش نہ ہونے کے باوجود کسی آئینی درخواست پر عدالتوں کا فیصلہ لے کر یہ گنجائش پیدا کی جا سکتی ہے ۔
اس طرح کی قیاس آرائیوں کو غیر رسمی عوامی اور سیاسی مباحث کے منطقی دلائل سے تقویت دی جا رہی ہے ۔ اگرچہ پاک فوج کے ترجمان نے کسی ٹیکنوکریٹ یا قومی حکومت کے قیام کے امکان کو واضح طور پر مسترد کر دیا ہے لیکن لوگ پاک فوج کے ترجمان کی اس بات کو زیادہ وزن دے رہے ہیں کہ جمہوریت کو خطرہ فوج سے نہیں بلکہ عوامی امنگیں اور جمہوری تقاضے پورے نہ کرنے سے ہو سکتا ہے ۔ ویسے بھی اس وقت ملک میں پاکستان تحریک انصاف کے سوا کسی دوسری سیاسی ، مذہبی اور قوم پرست جماعت کی قیادت موجودہ سیاسی فضامیں خود کو آرام دہ ( comfortable) محسوس نہیں کر رہی ہے ۔ پاکستان مسلم لیگ (ن) کی قیادت خصوصاً سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کے بچے کرپشن کے مقدمات کا سامنا کر رہے ہیں اور جو کچھ ان کے ساتھ ہو رہا ہے ، وہ نہ صرف لوگوں کے لئے غیر متوقع ہے بلکہ لوگ اس کی وجہ سے بہت سے خدشات کا شکار ہیں ۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر مملکت آصف علی زرداری کے قریبی ساتھیوں اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے گرد بھی ’’ احتساب ‘‘ کا گھیرا بہت تنگ کر دیا گیا ہے ۔ وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ یہ شکایت کر رہے ہیں کہ قومی احتساب بیورو ( نیب ) نے پوری سندھ حکومت کو عدالتوں میں بٹھا رکھا ہے ۔ سابق وزیر اعظم چوہدری شجاعت کے خلاف بھی ریفرنسز دوبارہ کھول دیئے گئے ہیں ۔
عوامی نیشنل پارٹی ( اے این پی) کی قیادت بھی خود کو زیر عتاب محسوس کر رہی ہے ۔ بلوچستان میں سیاسی اثرو رسوخ رکھنے والی سیاسی و قوم پرست جماعتوں کی قیادت کو اگرچہ بلوچستان کی صورت حال کی وجہ سے کسی حد تک ’’ چھوٹ ‘‘ حاصل ہے لیکن اسے بھی یہ یقین نہیں ہے کہ مستقبل قریب کی سیاست میں ان کا کردار کیا ہو گا ۔ پاکستان کی مذہبی جماعتوں میں سب سے بڑی پارلیمانی مذہبی سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام ( ف) کی قیادت بھی پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ سے شاکی ہے اور موجودہ صورت حال میں مسلم لیگ (ن) کی اتحادی بنی ہوئی ہے ۔ پارلیمانی سیاست کرنے والی دوسری بڑی مذہبی سیاسی جماعت اگرچہ ’’ احتساب ‘‘ کے موجودہ عمل سے بہت خوش ہے لیکن اس کی قیادت کو بھی یہ احساس ہے کہ تبدیل ہوتے ہوئے علاقائی اور عالمی حالات میں پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کے لئے یہ آسان نہیں ہو گا کہ وہ جماعت اسلامی کو پاکستان میں کوئی بڑا سیاسی کردار سونپ سکے ۔ بعض کالعدم مذہبی تنظیمیں اپنے نام تبدیل کرکے پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو پر کرنے کے لئے میدان میں کود پڑی ہیں اور ان کے بارے میں یہ تاثر بھی قائم کیا جا رہا ہے کہ انہیں پاکستان کے کچھ مقتدر حلقوں کی حمایت حاصل ہے لیکن ان مذہبی تنظیموں کا بھی کردار فوری نہیں بلکہ کچھ عرصے کے بعد دیکھا جا رہا ہے ۔ مذکورہ بالا تمام منطقی دلائل سے اس قیاس آرائی کو تقویت دی جاتی ہے کہ موجودہ سیاسی عمل اسی طرح آگے نہیں بڑھ سکے گا ۔
کچھ حلقے یہ بھی قیاس آرائی کر رہے ہیں کہ موجودہ سیاسی عمل جاری رہے گا ۔ آئندہ عام انتخابات کا انعقاد بھی ہو گا اور پاکستان تحریک انصاف کو اس صورت حال سے فائدہ ہو گا ۔ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کو غیر موثر کرنے اور پاکستان تحریک انصاف کو آگے لانے کی مبینہ طور پر جو منصوبہ بندی کر رہی تھی ، اس کی تکمیل کے حالات پیدا ہو گئے ہیں ۔ عمران خان کی عوامی مقبولیت کا تاثر بھی قائم ہے کیونکہ انہوں نے گزشتہ چند سالوں میں جتنی بڑی تعداد میں اور جتنے بڑے جلسے کئے ، ان کی پاکستان میں کوئی مثال نہیں ملتی لیکن یہ قیاس آرائی کرنے والے حلقوں کو بھی یہ یقین نہیں ہے کہ اگر جمہوری عمل ’’ ڈی ریل ‘‘ ہوتا ہے تو کیا عمران خان اس کو روک سکیں گے ۔ اس طرح قیاس آرائیوں کے ساتھ الجھنیں بڑھتی جا رہی ہیں ۔
پاکستان کے موجودہ سیاسی حالات کا منطقی نتیجہ کیا نکلے گا ؟ اس سوال کا جواب حاصل کرنے کے لئے ہمیں دیگر اسلامی ممالک خصوصاً عرب ممالک کے حالات کے تناظر میں اپنے ملک کی صورت حال کو سمجھنا ہو گا ۔ 2010 ء کے آخر میں شروع ہونے والی ’’ بہار عرب ‘‘ تحریک نے دنیائے عرب پر طویل خزاں مسلط کر دی ہے ۔ وہاں دیکھتے ہی دیکھتے سب کچھ الٹ پلٹ ہو گیا۔ طاقتور حکمرانوں اور سیاست دانوں کو ہمیشہ کے لئےلئے سیاسی یا جسمانی طور پر منظر سے ہٹا دیا گیا ۔ ’’ احتساب اور سزا ‘‘ کو جواز کا لبادہ بہار عرب تحریک نے پہنایا اور لوگوں کو بروقت پچھتاوے کا احساس بھی نہ ہوا ۔ پاکستان کو بھی اسی ڈگر پر ڈالا جا رہا ہے لیکن ’’ احتساب اور سزا ‘‘ کا عمل بہت لمبا کھینچ دیا گیا ہے ۔ یہ مہلت ان سیاست دانوں کے حق میں حالات کو جلد یا بدیر سازگار بنا سکتی ہے ، جن کا احتساب کیا جا رہا ہے یا جنہیں سیاسی منظر سے ہٹانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ مہلت مل جائے تو سیاست دان زیادہ طاقتور ہوتا ہے ۔ اگر جمہوری عمل ڈی ریل نہیں ہوتا اور آئینی تقاضوں کے مطابق کسی مداخلت کے بغیر عام انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے تو مذکورہ بالا دونوں قیاس آرائیاں صرف قیاس آرائیاں ہی رہیں گی ۔

تازہ ترین