• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایک لاکھ 35ہزار کا انجکشن اور سروسز اسپتال کا اِن ڈور

ہمارے حکمرانوں کو یہ علم ہے کہ ان کے وہ عوام جن کے ووٹوں سے وہ طاقت حاصل کرتے ہیں وہ آج کل کس حال میں ہیں؟ حکمرانوں کو صرف اور صرف اپنی بیماریوں، علاج کے لئے دنیا کے بہترین ممالک کی علاج گاہوں کا پتہ ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر اپنا میڈیکل چیک اپ کرانے ولایت، امریکہ اور جرمنی یوں جاتے ہیں جیسے کوئی اپنے گھر سے آفس جاتا ہے۔ اگر چوہدری شجاعت حسین و چوہدری پرویز الٰہی اور آصف علی زرداری کی بات کریں تو وہ بھی اپنے علاج کے لئے جرمنی، فرانس اور دبئی جاتے رہے ہیں اور اب بھی جاتے رہتے ہیں۔
موجودہ حکمرانوں کی بات ہی چھوڑیں خاندان کے کئی افراد کینسر، آنکھوں اور دیگر موذی بیماریوں میں مبتلا ہیں، کچھ بیماریاں تو ایسی ہیں جن کا علاج بھی ممکن نہیں۔ اس ملک کے کچھ اہم لوگ آنکھوں کی ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہیں جس کا کوئی علاج نہیں اور انسان آخرکار اندھا ہو جاتا ہے مگر دلوں میں لوٹ مار کا ’’جذبہ‘‘ ایسا موجود ہے کہ بیان سے باہر ہے۔
بڑے میاں صاحب، چھوٹے میاں صاحب اور دیگر ممبران قومی اور صوبائی اسمبلی صرف لاہور کے چار پانچ علاقے چھوڑ کر ذرا ان کے حلقوں کا دورہ تو کریں تو پتہ چلے کہ وہ کیا کھاتے ہیں اور کون سا پانی پیتے ہیں۔ مریم بی بی آپ آئے دن حلقہ 120کے دورے کرتی ہیں وہ بھی بیس بیس گاڑیوں کے پروٹوکول کے ساتھ۔ کبھی اپنے ووٹروں کے گھر اچانک جا کر دیکھیں کہ وہ کھاتے کیا ہیں؟ کبھی حلقہ 120کا کھانا اور پانی تو پی کر دیکھیں پھر آپ کو اندازہ ہو گا کہ زندگی کتنی مشکل اور اذیت ناک ہے ان ووٹروں جن کے ووٹوں سے آپ طاقتور بن جاتے ہیں۔ ہم سو فیصدی گارنٹی سے یہ بات لکھ رہے ہیں کبھی بھی پاکستانی عوام کی قسمت نہیں بدلے گی، ان کے حالات مزید بدحالی اور بدتری کا شکار ہوں گے حالات صرف اور صرف حکمرانوں کے بدلیں گے۔
ابھی کل ہمارے آفس میں سی ایم ایچ (کمائنڈ ملٹری اسپتال) کے ڈاکٹر قاسم بشیر آئے۔ پاکستان میں صحت کے مسائل پر بڑی دکھ بھری باتیں ہوئیں۔ انہوں نے بتایا کہ جب انسان پر فالج کا اٹیک شروع ہوتا ہے تو اس کی علامات ظاہر ہونا شروع ہو جاتی ہیں۔ جسم کا کوئی حصہ کمزور پڑ جاتا ہے، آنکھوں کے آگے اندھیرا، شدید قسم کا ایساسر درد (جو پہلے کبھی نہ ہوا) شروع ہو جاتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ا سڑوک یعنی فالج کا حملہ ہونے والا ہے۔ اس کے لئے باہر کی ایک کمپنی نے ایک انجکشن بنایا ہوا ہے اگر یہ انجکشن 80برس تک کے افراد (جن پر فالج کا حملہ ہو رہا ہو) کو ساڑھے چار گھنٹے کے اندر اندر لگا دیا جائے تو وہ فالج کے حملے سے ناصرف بچ جاتے ہیں بلکہ موت کے منہ سے بھی بچ جاتے ہیں اور اگر یہ انجکشن 70برس تک کے افراد کو ساڑھے تین گھنٹے میں لگا دیا جائے تو وہ فالج کے حملے سے بچ سکتے ہیں۔
عزیز قارئین! اس انجکشن کی پاکستان میں قیمت ایک لاکھ 35ہزار روپے ہے اور یہ ٹیکہ پاکستان کے کسی سرکاری اسپتال میں نہیں۔ وہ پنجاب جس کے بارے میں خادم اعلیٰ بار بار صحت کی بہترین سہولتوں کے دعوے کرتے ہیں پنجاب کے کسی بھی سرکاری اسپتال میں یہ انجکشن موجود نہیں۔
امریکہ برطانیہ اور ترقی یافتہ ممالک میں تصور نہیں کہ کسی اسپتال میں یہ انجکشن نہ ہو۔ اس انجکشن کا نام Actinase (TPA Tissue Ploasmimgen Activator) ہے۔ پاکستان میں سالانہ 2لاکھ کے قریب افراد ہر سال فالج کا شکار رہے ہیں اور فالج مستقل معذوری کا نام ہے۔ لاکھوں میں چند خوش قسمت ہوتے ہیں جو فالج کے اٹیک کے بعد طویل عرصہ کے علاج، ورزش اور احتیاط کے بعد کسی حد تک نارمل ہو جاتے ہیں لیکن حکمرانوں کو کیا لگے، انہیں کیا ضرورت کہ یہ ایک لاکھ 35ہزار روپے کا انجکشن وہاں رکھیں۔اس کے مقابلے میں بھارت میں یہ انجکشن ہمارے سے کم قیمت پر دستیاب ہے بلکہ وہی کمپنی اس کو بھارت میں بنا رہی ہے۔ بھارت میں تمام ملٹی نیشنل کمپنیاں خام مال اور ادویات وہیں بناتی ہیں۔ وہیں کمپنیاں پاکستان میں ادویات اور اس کا خام مال باہر سے منگواتی ہیں۔ بوجھ کس کی جیب پر پڑتا ہے صرف مریضوں کی جیب پر اور پھر ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی میں ادویات پاس کرانے پر کمیشن علیحدہ لیا جاتاہے۔ ڈاکٹرز علیحدہ ملٹی نیشنل اور لوکل کمپنیوں سے انڈر ہینڈ مال کھاتے ہیں۔اس مرتبہ ہمیں پنجاب کے وزیر صحت خواجہ سلمان رفیق، سروسز انسٹیٹیوٹ میڈیکل سائنس کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمود ایاز اور ایم ایس سروسز اسپتال ڈاکٹر امیر علی کے ہمراہ سروسز اسپتال کے ان ڈور کو دیکھنے کا موقع ملا۔ اس ان ڈور کی ساری منصوبہ بندی پروفیسر فیصل مسعود نے اپنے دور میں کی تھی اور تعمیر کرائی تھی۔ اور اس کو فنکشنل ڈاکٹر محمود ایاز نے کیا ہے ہمیں اس ڈور کو دیکھ کر ایسا لگا کہ جیسے ہم کسی غیر ملک کے جدید ترین اسپتال میں پھر رہے ہیں۔ یہ ان ڈور تین سو بیس بستروں پر مشتمل لاہور کیا بلکہ پاکستان کا انتہائی جدید اسپتال ہے جہاں پر بچہ وارڈ 90بیڈز، شعبہ نفسیات 90بیڈز اور 90 اینڈوکرائن بیڈز پر مشتمل ہے۔ اس 9منزل اِن ڈور میں صفائی کی صورتحال قابل تعریف ہے۔ یہاں پر شعبہ جلد، میڈیسن سرجری، آرتھو پیڈک اور آئی کے شعبہ جات ہیں۔
یہاں پر مریض کو کمپیوٹرائزڈ سلپ ملتی ہے جس پر درج ہوتا ہے کہ مریض کو کس کمرہ نمبر میں کب جانا ہے۔ ویٹنگ رومز بڑے جدید بنے ہوئے ہیں جہاں پر اسکرین اور ا سپیکر پر مریض کی پرچی کا نام نمبر دکھایا اور بولا جاتا ہے۔ چھوٹے بچوں کے لئے ایک پلے روم بنایا گیا ہے۔ نوزائیدہ بچوں کی نرسری کو دیکھ کر بالکل محسوس نہیں ہوتا کہ آپ امریکہ کے کسی اسپتال کی نرسری میں کھڑے ہیں یا پاکستان کے کسی سرکاری اسپتال کی نرسری میں کھڑے ہیں۔ جدید ترین مشینوں پر INCUBATOR میں نومولود بچے موجود تھے جن کی دیکھ بھال کے لئے 24گھنٹے ایک نرس موجود رہتی ہے۔
ہم ہمیشہ سرکاری اسپتالوں کے مسائل کے بارے میں بات کرتے رہتے ہیں اور تنقید بھی کرتے ہیں مگر یہاں آ کر محسوس ہوا کہ حکومت کبھی کبھی اچھے کام بھی کرتی ہے اور اس اِن ڈور کو دیکھ کر اندازہ ہوا اگر نیت ہو توہر کام ہوسکتا ہے۔ اسپتال کے دورے کے دوران ہمیں ایم ایس ڈاکٹر امیر علی نے بتایا کہ تمام اشیاء، بیڈز اور دیگر سامان ہم نے ادھار پر لیا ہے اور ابھی کسی کو کوئی ادائیگی نہیں کی گئی۔ ہمارے ہاں ادارے بن تو جاتے ہیں مگر کچھ عرصہ بعد ان کی مشینیں نہیں رہتیں اور پھر ان کا حال بھی بدتر ہو جاتا ہے۔ ڈاکٹر فیصل مسعود نے اس عمارت کے لئے انتہائی مناسب منصوبہ بندی کی۔ اگرچہ اب وہ یہاں سے کسی اور ادارے میں جا چکے ہیں مگر یہ بات طے شدہ ہے کہ اگر کرپشن نہ کی جائے تو ادارے بن جاتے ہیں اور کرپشن کی جائے تو بنے ہوئے ادارے بھی تباہ ہو جاتے ہیں۔ سروسز اسپتال کے ان ڈور کو ماڈل رکھ کر دیگر سرکاری اسپتالوں میں بھی اس طرح کے اِن ڈور بنانے چاہئیں۔

تازہ ترین