• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

گزشتہ دنوں نٹ شیل فورم کے بانی اظفر احسن نے پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں اور اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ کراچی کی بحالی پر ایک نیشنل ڈائیلاگ "Collaborating for Change" کراچی کے مقامی ہوٹل میں منعقد کیا جس میں گورنر سندھ محمد زبیر، میئر کراچی وسیم اختر، مسلم لیگ (ن) کے وزیر مملکت مصدق ملک، پی ٹی آئی کراچی کے صدر ڈاکٹر عارف علوی، پاک سرزمین پارٹی کے چیئرمین سید مصطفی کمال، جماعت اسلامی کراچی کے امیر نعیم الرحمن اور پیپلزپارٹی کی طرف سے میں نے نمائندگی کی۔ اسکے علاوہ سندھ کے سابق گورنر معین الدین حیدر اور معیشت دان شبر زیدی نے بھی اس ڈائیلاگ میں حصہ لیا۔ فیصل سبزواری، انیس قائم خانی کے علاوہ بزنس کمیونٹی، کارپوریٹ سیکٹر اور سول سوسائٹی کے افراد نے بڑی تعداد میں اس نیشنل ڈائیلاگ میں شرکت کی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ لوگ کراچی کی بحالی کیلئے ساتھ بیٹھ کر ایک چارٹر بنانے میں سنجیدہ ہیں۔
تمام مقررین نے کراچی کی نئی مردم شماری جس میں شہر کی آبادی ایک کروڑ 60 لاکھ بتائی گئی ہے، کو مسترد کیا۔ ان کے مطابق کراچی کی آبادی 2 کروڑ 50 لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ میرے سمیت مقررین نے تجویز دی کہ کراچی میں مردم شماری کے نتائج کی تصدیق کیلئے کچھ علاقوں میں سیمپل مردم شماری کرائی جائے۔ کراچی پاکستان کا معاشی، صنعتی اور بینکنگ حب ہے۔ اس شہر کا سندھ کی ٹیکسوں کی ادائیگی میں 90 فیصد اور پاکستان کی مجموعی ریونیو میں 65 فیصد حصہ ہے۔ کراچی ملک کی واحد پورٹ سٹی ہے جس سے پاکستان کی 20ارب ڈالر ایکسپورٹ اور 52ارب ڈالر امپورٹ کی جاتی ہے۔ پاکستان کا پہلا ایل این جی ٹرمینل پورٹ قاسم پر قائم کیا گیا۔ یہ غنی شہر پورے ملک کے لوگوں کو دامن کھول کر ملازمتوں کے مواقع فراہم کرتا ہے اور حقیقی معنوں میں ایک کاسموپولیٹن شہر ہے جہاں ہر صوبے اور زبان کے لوگ بستے ہیں۔ بدقسمتی سے اس شہر کو دشمنوں کی نظر لگ گئی اور30 سال تک یہ شہر خوف کے اندھیروں کے سائے میں رہا جس کی وجہ سے روشنیوں کے شہر کو بدترین امن و امان کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا۔ ٹارگٹ کلنگ، بھتہ خوری، اغوا برائے تاوان، متواتر ہڑتالیں اور قتل و غارت کی وجہ سے بیشمار صنعتیں پنجاب اور ملک کے دیگر صوبوں میں منتقل ہوگئیں اور بے شمار صنعتکاروں اور سرمایہ کاروں نے اپنا سرمایہ بیرون ملک منتقل کیا۔ میں کراچی کی درجنوں ایسی فیملیز کو جانتا ہوں جو دھمکیوں کی وجہ سے اپنے بچوں کی حفاظت کیلئے مجبوراً بیرون ملک منتقل ہوئیں۔میں افواج پاکستان کو سلام پیش کرتا ہوں کہ انہوں نے آپریشن ضرب عضب، آپریشن ردالفساد اور کراچی آپریشن سے ملک بالخصوص کراچی میں امن و امان قائم کیا۔ 10 منٹ کے ہڑتال کے نوٹس پر شہر کو بند کرانا اب کسی کیلئے ممکن نہیں رہا ہے، شہر کی رونقیں واپس لوٹ آئی ہیںاور آج کراچی والے بیٹھ کر شہر کی بحالی کی بات کررہے ہیں۔ کراچی کے موجودہ سنگین مسائل میں مقررین نے صاف پانی کی فراہمی، بہتر سیوریج نظام، سستی بجلی کی فراہمی، کچرا صفائی، منظم ٹریفک نظام بتایا اور انکے حل کیلئے بلدیاتی حکومت کو موثر اختیارات اور وسائل، کچرے کیلئے سولڈ ویسٹ مینجمنٹ، صاف پانی کیلئے Desalination پلانٹ اور K4منصوبے کی جلد تکمیل، سرکولر ریلوے، ماس ٹرانزٹ اور لیاری ایکسپریس وے کی تکمیل بتایا۔ کراچی کا ایک بڑا مسئلہ اس کی کچی آبادیاں ہیں جس میں 804 گوٹھ، 400مضافاتی اور 62 شہری علاقے ہیں جو بغیر کسی منصوبہ بندی کے وجود میں آئے اور تمام شہری وسائل استعمال کررہے ہیں۔ میں خود قائد کے شہر کراچی میں پیدا ہوا ہوں۔ یہیں میں نے ابتدائی تعلیم حاصل کی، آج بھی جب میں اپنے ڈی جے سائنس کالج کے پاس سے گزرتا ہوں تو طالبعلمی کے زمانے کی یادیں مجھے تھوڑی دیر کیلئے کالج کے گیٹ پر روک دیتی ہیں۔ میں بھی انہی بدترین حالات میں فیملی کے ساتھ اپنی اعلیٰ تعلیم مکمل کرکے 1992ء میں کراچی واپس لوٹا اور باہر سے کمائے گئے پیسوں کی ملک میں سرمایہ کاری کی۔ مجھے ہڑتالوں کے دوران بے شمار مرتبہ صنعتوں کو بند نہ کرنے کی صورت میں آگ لگانے کی دھمکیاں دی گئیں لیکن میں نے اور میری فیملی نے حالات کا مقابلہ کیا۔میں ان تمام صنعتکاروں اور کراچی کے باسیوں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے کراچی کے بدترین حالات میں اپنے پیاروں سے بچھڑنے کے باوجود اس شہر کو نہیں چھوڑا بلکہ امن و امان کی ناقص صورتحال کے باعث سیکورٹی گارڈز، پانی کی عدم فراہمی پر واٹر ٹینکرز، بجلی کی لوڈ شیڈنگ سے نمٹنے کیلئے جنریٹر، بیرونی خریداروں کے پاکستان نہ آنے پر اپنے بیرونی دوروں سے صنعتوں کو زندہ رکھا۔ کراچی میں اگر 30 سال طویل بدامنی کا دور دورہ نہ ہوتا تو یہ شہر آج ترقیوں کی اس منزل کو چھو رہا ہوتا جو اس کا حق بھی ہے اور منصب بھی۔ یاد رہے کہ کراچی ملک کی معاشی ترقی کا بیرومیٹر ہے اور پاکستان کی ترقی کراچی کی ترقی سے منسوب ہے۔ میں نے اپنی تقریر میں اس بات کا کھلے دل سے اعتراف کیا کہ دوسرے صوبوں کی طرح مجھے کراچی کیلئے کسی کی اونر شپ نظر نہیں آتی۔ یعنی کسی سیاسی جماعت نے اس شہر کو اپنا نہیں سمجھا۔ کراچی کے نام پر ووٹ لے کر ایوانوں میں جانے والوں نے تو اس شہر کی ترقی کو کئی دہائیوں پیچھے دھکیل دیا۔ شہر کے دانشوروں، سماجی شخصیات، فنکار اور سول سوسائٹی کے رہنماجو ہمارا سرمایہ تھے کو شہید کردیا گیا لیکن اس کے باوجود کراچی پڑھے لکھے اور دانشوروں کی پہچان ہے۔ ملک کا معروف کراچی اسٹاک ایکسچینج جو اب PSX بن گیا ہے، نے ریکارڈ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاری حاصل کرکے 52,000انڈیکس کی بلند ترین حد چھوئی اور خطے میں سب سے بہترین اسٹاک مارکیٹ کا اعزاز حاصل کیا لیکن بدقسمتی سے ملکی سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے آج اسٹاک ایکسچینج گرکر 42,000کی سطح پر آگیا ہے۔ نیشنل ڈائیلاگ میں کراچی کی بحالی کے چارٹر کیلئے جو تجاویز دی گئیں، ان میں حالیہ مردم شماری پر اسٹیک ہولڈرز کا اعتماد، آبادی کی بنیاد پر وسائل کی تقسیم، اسٹریٹ کرائمز پر قابو، بہتر تعلیمی سہولتوں کیلئے کراچی ایجوکیشن اتھارٹی کا قیام، کراچی کے صنعتی زونز میں بہتر انفرااسٹرکچر، صحت کی بہتر سہولتوں کیلئے کراچی ہیلتھ اتھارٹی کا قیام، سرکولر ریلوے اور ماس ٹرانزٹ کیلئے کراچی ماس ٹرانسپورٹ اتھارٹی کا قیام، پبلک سیکٹر ترقیاتی منصوبوں پر عملدرآمد، مانیٹرنگ اور کراچی کے جامع ماسٹر پلان شامل ہیں۔
میں اظفر احسن کو کراچی پر دوسرے قومی ڈائیلاگ کے انعقاد پر مبارکباد پیش کرتا ہوں اور امید ہے کہ سیاسی جماعتوں کے اس طرح کے مزید ڈائیلاگ سے انشااللہ مستقبل قریب میں کراچی کی بحالی کے ایک چارٹر پر تمام سیاسی جماعتیں اور اسٹیک ہولڈرز متفق ہوجائیں گے۔ میں اس موقع پر سمندر پار پاکستانیوں کو بھی سلام پیش کرتا ہوں جن کے دل خراب سے خراب حالات میں بھی شہر کراچی کے ساتھ جڑے رہے۔ بیرونی دوروں میں میری جب بھی ملاقات بیرون ملک پاکستانیوں سے ہوتی تھی تو وہ اس شہر سے اپنے جذباتی لگائو کی وجہ سے کراچی کے حالات کا ضرور پوچھتے تھے۔ ہم سب پر اس ملک اور شہر کراچی کا قرض ہے۔ آیئے ہم سب مل کر اس شہر کی رونقوں کو دوبارہ بحال کریں۔

تازہ ترین