• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بلوچستان سے عشق و محبت ، غم والم کی داستان کا ایک درد ناک پہلو یہ بھی ہے کہ بڑے معززلوگوں کی ایک محفل ہے اور وہ بلوچستان کے حالات میں بہتری کی نوید سنا رہے ہیں مگر انہی کے پہلو میں ایک بڑے کمرے میں بیٹھے کچھ حکومتی اتحادی وزراء و معاونین ان کی باتوں پر مسکرا رہے ہیں اورایک معاون (آدھے وزیر) بڑے فخر سے اپناہاتھ بلند کرتے ہیں اور بلوچستان کے حالات پر تبصرہ کرتے ہوئے فرمانے لگے کہ یہ سارا علاقہ ہمارا ہے افغانستان سے چمن کے راستے سے لے کرہنہ جھیل سے شہر تک ہمارا علاقہ ہے۔ تمام علاقہ پھلوں کے باغات، زرخیز زمین، پانی کی گزرگاہیں ہمارے علاقے سے گزر کر پورے بلوچستان میں پھیلتی ہیں۔ موصوف فرمارہے تھے کہ آپ دیکھیں گے ہمارے علاقوں میں تعمیر و ترقی اور عوام خوش حال ہوئے نظر آئیں گے۔ ہمیں جوترقیاتی فنڈز ملتے ہیں ان کا صحیح استعمال کیا جارہاہے۔ پشتون علاقوں میں تعلیمی ادارے بن رہے ہیں اور کھیلوں کے میدان آباد کئے جارہے ہیں، یہاں امن ہے، سکون ہے آپ جب چاہیں جس وقت چاہیں آجا سکتے ہیں کسی قسم کی کوئی فکر نہیں ۔ یہاں مکمل تحفظ ہے، موصوف نے بلوچستان کے کئی ایسے شہروں اور علاقوں کی نشاندہی کردی جہاں پشتون آبادی کا مکمل اثر و رسوخ ہے۔ ان کاکہنا تھابدامنی زیادہ تربلوچ علاقوں میں ہے۔ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے منتخب ایوانوں میں پشتونوںکی نمائندگی بہت کم ہے یہ جو باہر بیٹھے بول رہے ہیں ،زبانی جمع خرچ پر گزارا کر رہے ہیں یہ سب کچھ کھا گئے، ایک پیسہ بھی عوام پرخرچ نہیں کرتے۔ بلوچستان تو کیا کوئٹہ شہرکی حالت نہیں بدل سکے، کھربوں روپے کے فنڈز کہیں نظر نہیں آتے، پھر آپ کیسے توقع رکھتے ہیں کہ یہاں امن ہوگا۔ جب عوام کا پیسہ عوام پر خرچ نہیں ہوگا تو حالات ایسے ہی نظر آئیں گے جبکہ ہم اپنے ترقیاتی فنڈز عوامی منصوبوں پر دیانت داری سے اوپن ٹینڈر کے ذریعے استعمال کررہے ہیں ۔ اوہ میرے خدا !یہ کیا ہو رہا ہے، یہ کیسی سوچ کی بنیاد رکھی جارہی ہے ہم تو بلوچستان میں جاری دہشت گردی کے خلاف جنگ کو صرف ایک آنکھ سے دیکھ رہے ہیں۔ یہاں تو سوچوں کا ٹکرائو ہے جو شاید دشمن قوتوں کو درپردہ دہشت گردی کی آگ بھڑکانے کا ایندھن فراہم کررہا ہے اور ہمارے طاقتور حلقے اس سلسلے میں توازن برقرار نہیں رکھ پا رہے۔ہمارے بلوچستان کے سیاسی قائدین کی سوچ، فکر عام پاکستانیوں خصوصاً بلوچستان کے عوام سے بالکل مختلف نظر آرہی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بلوچستان کے سیاسی رہنمائوں سے ملاقاتوں میں میرا یہ یقین مزید پختہ ہوا کہ وہ پاکستان کے دیگرقومی رہنمائوں کی نسبت زیادہ سنجیدہ عوام کے بہت قریب اور نبض شناس ہیں، ان کے دلوں میں پاکستان کی محبت بھری ہے مگریہ المیہ ہے کہ ان کی صلاحیتوں کو قومی سطح پر اجاگر نہیں کیا جارہا۔ ہماری قومی سیاسی جماعتوں کی قیادتیں سندھ، پنجاب کے تین گھرانوں کے اردگرد گھوم رہی ہیں کسی بھی قومی سیاسی جماعت کی قیادت(ماسوائے مذہبی سیاسی جماعتوں) خیبرپختونخوا یا بلوچستان سے نہیں ہے حتیٰ کہ ان صوبوں کی چھوٹی جماعتوں کو قومی سطح پر پنپنے کا موقع ہی نہیں دیا جارہا نتیجہ پھر یہی نکلے گا کہ چھوٹے صوبوں کے سیاسی رہنما اپنی جماعتوں کی لائن آف ایکشن ایسی اپنائیں گے کہ ہر وقت ان کی آواز نہ صرف پاکستان بلکہ پوری دنیا میں گونجے اور اس کے لئے انہیں کسی بھی قسم کا جارحانہ نعرہ لگانا پڑے وہ لگائیں گے، خواہ اس کے اثرات کتنے ہی منفی کیوں نہ ہوں۔ ان ملاقاتوں میں ایران کا تذکرہ بھی خصوصی طور پر ہوا اور آپ کو حیرت ہوگی کہ ایک ایسے صاحب جو سینئر ترین مذہبی سیاسی رہنما ہیں ، کہہ رہے تھے ایران نے تمام دنیا کی پابندیوں کے باوجود بہت ترقی کی ہے، وہاں کا نظام حکومت، طرز زندگی اور ترقی حیران کن ہے۔ یہ وہ روشنی کی کرن ہے جو ہمارے رہنمائوں کو پاکستان کی خارجہ پالیسی مرتب کرنے میں رہنمائی کرسکتی ہے۔ ایران کے بلوچستان میں مفادات اور دلچسپی کے بارے میں کوئی شک نہیں، ہزارہ برادری کا قتل عام دشمن قوتوں کا ایک ایسا گھنائونا ہتھیار ہے جسے وہ بوقت ضرورت استعمال کرتے رہتے ہیں جیسے ہی پاک ایران تعلقات بہتری کی جانب بڑھنے لگتے ہیں، دشمن مخصوص برادری کو ٹارگٹ کرکے باآسانی دونو ں برادر ملکوں کے درمیان فاصلے بڑھا دیتا ہے۔پاکستان اور بلوچستان دشمن عناصر وقفے وقفے سے مخصوص برادری اور کو ٹارگٹ کرکے خوف کی ایک ایسی فضاء قائم کرتے ہیں جس سے نفرت پھیلے اورتعصب کی بُو آئے اور وہ اسی بنیاد پر بغاوت اور علیحدگی کی دکان کو دنیا بھر میں آگے بڑھا رہے ہیں۔ سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ یہ مخصوص برادری ہی کیوں ٹارگٹ ہیں، یقیناً اس کا جواب یہی ہے کہ اس سے لسانی، مسلکی اور مذہبی بنیادوں پر انتشار پھیلانا اور پشتونوں کی نسبت نہتی اور کمیونٹی کو ٹارگٹ کرنا زیادہ آسان ہے اور اس سے نفرت اور خوف کی فضا فوری پیدا کی جاسکتی ہے۔
نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما سابق وزیراعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کا نقطہ نظر بلوچستان کے حوالے سے خاصا مثبت اور مدبرانہ ہے۔ ان کی رائے میں بلوچستان کا مسئلہ بندوق سے نہیں مذاکرات سے ہی حل ہوگا۔ بلوچی رسم ورواج، طور طریقے،جرگے اور روایات کو بنیاد بنا کر فریقین کو راضی کیا جاسکتا ہے۔ وہ مردم شماری کے نتیجے میں مرکزی سیاسی جماعتوں کے فیصلے سے بھی غیر مطمئن نظر آتے ہیں ان کی رائے ہے کہ قومی اسمبلی کی صرف تین نشستوں میں اضافے سے بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ بلوچستان کو کم ازکم 40 سے50قومی اسمبلی کی نشستیں دی جائیں تاکہ43 فیصد حصے کی نمائندگی کا حق ادا کیا جاسکے۔ وہ750کلومیٹر طویل ساحل سمندر کو بلوچستان میں شامل کرنے کا بھی حق مانگتے ہیں۔ وہ باغی یا ناراض عناصر سے مذاکرات میں کردار ادا کرنے کو تیار ہیں۔ بلوچستان کی سنگین صورت حال کا اندازہ صرف اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہاں میڈیا شدید دبائو کا شکار ہے، اخبارات کی ترسیل ناممکن ہو چکی ہے۔ مکران، تربت، پنجگور کے پریس کلب عملی طور پر بند ہیں۔ کالعدم تنظیموں کی دھمکیوں کے نتیجے میں بعض علاقوں سے اخبارنویس نقل مکانی پر مجبور ہیں یہی صورتحال تعلیمی اداروں کی ہے بلوچستان کو اس وقت مالی و اقتصادی پیکیج سے زیادہ وسیع البنیاد قومی سیاسی پیکیج کی ضرورت ہے۔ بلوچستان کی تمام چھوٹی بڑی سیاسی جماعتوں پر مشتمل گرینڈ جرگہ اس پیکیج کی تیاری میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ حالات کی سنگینی اور قومی سیاسی قیادت کی غیر سنجیدگی کا اندازہ اس بات سے ہی لگایا جاسکتا ہے کہ قومی سیاسی قیادت بلوچستان کی فکر کرنے کی بجائے سینیٹ کے انتخابات سے قبل گھوڑوں کی خریداری میں مصروف ہے، بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں اعلیٰ نسل کے گھوڑوں کے اصطبل سج چکے ہیں۔ ن لیگ کو سینیٹ کے انتخابات میں بڑا سیاسی دھچکہ لگنے والا ہے۔ تحریک انصاف کو بھی آفٹر شاکس لگیں گے۔ پھر لوگ کہیں گے آصف زرداری سب پر بھاری۔ لمحہ فکریہ ہے المیہ ہے، نوحہ ہے ہماری سیاست کا۔ ’’ہر مال بکے گا چار آنے‘‘ عوام جائیں بھاڑ میں۔

تازہ ترین