• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں ایک زمانے میں ماہ نومبر سے لیکر فروری کے عرصہ میں دھند کا راج ہوتا تھا۔ اب اس کی جگہ ’’اسموگ‘‘ نے لے لی ہے۔ جس کا سلسلہ پہلے نہیں تھا لیکن گزشتہ چار سالوں سے بڑھنا شروع ہو چکا ہے۔ جس سے معاشرتی زندگی میں کئی طرح کی انفیکشن بڑھتی جا رہی ہے۔ اس اسموگ کی وجہ سے ملک میں بجلی کی سپلائی کا بحران بھی بدترین ہونے کے ساتھ ساتھ معمولات زندگی پر بھی گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ اس وقت ایک طرف اس اسموگ نے صورتحال پریشان کر رکھی ہے اور دوسری طرف سیاسی میدان میں بھی ’’اسموگ‘‘ ہے کہ بڑھتی جا رہی ہے۔ جس کے ہیرو سابق وزیراعظم نواز شریف نظر آ رہے ہیں۔ ان کے ایک زمانے کے سیاسی حلیف اور آج کے سیاسی حریف آصف علی زرداری مہمان اداکار کے طور پر ادھر ادھر اپنے سیاسی امیج کو ٹھیک کرنے میں مصروف ہیں کہ کسی طرح اسٹیبلشمنٹ ان پر اعتماد کرے۔ جس میں پچھلے تین چار ہفتوں میںا سٹاک مارکیٹ کی زبان میں اپنے شیئر کی پوزیشن بہتر بنا رہے ہیں۔ اسلئے کہ مسلم لیگ (ن) کے شیئر کی قیمت گرنے کے برعکس تحریک انصاف کے شیئر کی گرانی میں جو تیزی تھی۔ وہ کچھ سطح پرسست روی کا شکار نظر آتی ہے۔ اس وجہ سے اسلام آباد میں عباسی حکومت نظر بھی آ رہی ہے اور نظر نہیں بھی آ رہی ۔ یعنی حکومت فعال بھی ہے اور نہیں بھی۔ اس لئے کہ پاکستان کی یہ پہلی حکومت ہے۔ جس کی پارٹی کے سربراہ اپنی حکومت کا نام لئے بغیر اس پر تنقید پہ تنقید کئے جارہے ہیں۔ وہ سب کیوں کر رہے ہیں۔ کچھ پتہ نہیں مگر اس بیان بازی کی وجہ سے سیاسی ماحول پر خاصے گہرے اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ جسے ہر لحاظ سے سیاسی اسموگ کہنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جسے دور کرنے کے لئے مسلم لیگ (ن) کی حکومت اور خاص کر وزیراعظم عباسی کو کوئی موثر رول ادا کرنا ہوگا۔ اگر یہی صورتحال رہی تو سیاسی اسموگ ہو یا دھند، سب سے زیادہ ان ہی کی پارٹی پر اس کے اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جس سے ان کی حکومت سے زیادہ ملکی معیشت اور معاشرتی زندگی پر منفی اثرات پڑ سکتے ہیں اور خود حکومت کی چار سالہ اچھی یا بری کارکردگی اس کی زد میں آ سکتی ہے۔ اس وقت حالات تو یہی تقاضا کر رہے ہیں کہ ملک میں مصالحت اور مفاہمت کے ذریعے معاملات چلائے جائیں۔ سیاسی جماعتوں میں مفاہمت ہر لحاظ سے ملکی مفاد کیلئے ناگزیر ہے جبکہ قومی اداروں پاک فوج اور عدلیہ کا احترام اور وقار ملحوظ رکھنا بھی از حد ضروری ہے۔ اگر دیانت داری سے جائزہ لیا جائے تو سیاسی حالات میں آلودگی بڑھنے کی وجوہ وہ ادارے شاید بعد میں آتے ہوں۔ پہلے قومی سیاسی جماعتوں کا اپنا اپنا کردار رویہ بھی آتا ہے۔ جن کے ریڈار اسکرین پر قومی ایشوز سے زیادہ پارٹی اور ذاتی مفادات حاوی رہے۔ یہی وجہ ہے کہ موجودہ حکومت کے چار سالوں میں ہزار بار لوڈشیڈنگ ختم کرنے کے دعوئوں کے برعکس آج بھی پاکستان کے عوام کو بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے تحائف مل رہے ہیں۔ اگر ہماری سیاسی جماعتیں ملک کے مفاد کو عزیز رکھتے ہوئے 30-25سالہ ایک جامع اقتصادی پلان پر عمل درآمد کا چارٹر بنا لیں تو اس سے جمہوریت اور سیاسی ادارے مزید مضبوط اور مستحکم ہو سکتے ہیں اور انہیں کسی خود مختار ادارے کو بار بار ہدف بنانے یا سوتن سمجھتے ہوئے بہانے بازی کرنے کی ضرورت نہ پڑے۔ اب بھی مسلم لیگ (ن) پاکستان پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے پاس بہترین موقع ہے کہ وہ اگلے چار ہفتوں میں مل بیٹھ کر ایک دوسرے پر اعتماد کرتے ہوئے اقتصادی ترقی اور عوامی خوشحالی کا ایک جامع چارٹر تیار کر لیں۔
جس کی پارلیمنٹ سے منظوری لیکر اس پر دسمبر 2018ء سے عمل درآمد کا اعلان کیا جائے۔ ورنہ آگے جو وقت نظر آ رہا ہے۔ وہ ہو سکتا ہے کہ سیاسی اسموگ اور دھند میں مزید اضافہ کر دے اور پھر عوام بھی سیاسی قائدین سے اپنی ہمدردیاں بدلنے پر مجبور ہو جائیں تو یہ سیاستدانوں کی پرانی روش ہے کہ وہ آپس میں لڑتے رہتے ہیں۔ اس اقتصادی چارٹر کا آغاز ملک میں بجلی کے بحران کو حل کرنے کیلئے سیاسی مقاصد کی قربانیاں دیتے ہوئے ’’کالا باغ ڈیم‘‘کی تعمیر سے کیا جائے تو اس سے عوام اور ملک دونوں کے لاتعداد مسائل حل ہو سکتے ہیں اور سیاسی قائدین کی بچت یا بخشش بھی ہو سکتی ہے۔ ورنہ اندھیروں میں ڈوبے ملک میں ان کی بازگشت سننے والے وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ کم ہوتے جائیں گے۔

تازہ ترین