• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جدیدیت کے حوالے سے اگر ہم شہر ریاض کی بات کریں تو بہت سی منفرد باتیں ہمارے مشاہدے میں آتی ہیں۔ سعودی حکومت کی جانب سے ریاض شہر میں انٹر نیشنل ایئر پورٹ کی تعمیر 1970ء میں شروع ہوئی، اس ایئر پورٹ کے ساتھ ہی 6 کونوں والی مسجد ہے جس میں بیک وقت 5 ہزار افراد نماز ادا کر سکتے ہیں جبکہ مسجد کے صحن میں مزید 4 ہزار افراد بھی سماسکتے ہیں۔

یہ پورا کمپلیکس 10 سال میں 32 ملین امریکی ڈالر سے تیا ر کیا گیا تھا۔ اس ایئر پورٹ پر نظر پڑتے ہی اندازہ ہو سکتاہے کہ یہ ایک ایساملک ہے جہاں عوامی بہبود کے منصوبے نہایت جوش و خرش سے مکمل کیے جاتے ہیں۔

ریاض شہر کی سب سے عظیم الشان عمارت الفیصلیہ ٹا ور ہے۔ 45منزلوں پر مشتمل اس عمارت میں 197 کمرے اور 27 اعلیٰ ترین سوٹ ہیں جن کے کرائے 320 امریکی ڈالر سے 3700 امریکی ڈالر تک ہیں۔

یہ عمارت مخروطی مینار کی مانند محسوس ہوتی ہے، اس کی تزئین و آرائش میں کلاسیکل انداز اختیار کیا گیا ہے ،اس کے غسل خانے پوری مملکت کے سب سے بڑے غسل خانے سمجھے جاتے ہیں، جبکہ ایک خودکار ٹچ اسکرین ریموٹ ہر کمرے کی روشنی درجہ حرارت اور پردوں کو کنٹرول کر تا ہے۔

یہ عمارت اہم تجارتی اور تفریحی مرکز ہے۔ ریاض کے دیگر عوامی مقامات کی طرح الفیصلیہ ٹاور کا منظر دیکھنے والے کو مرعوب کرتا ہے۔

اس شہر کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں کی تمام عوامی تفریح گا ہیں، مذہبی نظم و ضبط کے ساتھ استعمال کی جا تی ہیں۔یہاں مرد و زن کی محفلیں الگ الگ ہوتی ہیں۔

ریاض کےزیادہ تر اسٹورز اور شاپنگ مال بین الاقوامی کمپنیوں کی پر وڈکٹس سےبھرے پڑے ہیں ۔معروف امریکی اور یورپی کمپنیوں کے ٹریڈ مارک کی اشیا ء اور ارمانی کے شیفون کے گائون قدامت پسند خریدار کی توجہ اپنی جانب کھینچ لیتے ہیں تاہم جدیدیت کے دلدادہ ڈی این اے اسٹور کا رخ کرتے ہیں۔

دینا الجوہانی کا قائم کردہ یہ اسٹور پوری مملکت میں اپنی نوعیت کا پہلا اور منفرد فیشن ایبل بوتیک ہے ، 800 مربع میٹر پر مشتمل اس بوتیک میں دنیا کےبڑے سے بڑے فیشن ڈیزائنر کے تیار کردہ کپڑے موجود ہیں ۔ میلان ، پیرس اور نیویارک کے ڈیزائنر فخریہ اپنی تخلیقات یہاں پیش کرتے ہیں ،الجوہانی کی باذوق شخصیت فیشن کی بین الاقوامی دنیا میں ایک بڑا نام بن گئی ہے ۔

یہ ایک عالیشان شہر ہے اور یہاں کی آبادی انتہائی نفیس اور مہذب افراد پر مشتمل ہے۔یہاں کے لوگ وسیع پیمانے پر تعلیم اور تجارت کی غرض سے اندرون و بیرون ملک سفر کرتے ہیں اور ممبئی ، لندن اور پیرس سے واپس آتے ہیں تو مغربی و مشرقی افکار پوری طرح ان کی گر فت میں ہو تے ہیں۔

ریاض میں عربوں کے کھانے کا ذوق بھی بین الاقوامی رنگ اختیار کر چکا ہے۔ کئی طرح کے کھانے تہواروں پر بنا ئے اور کھلائے جاتے ہیں ۔یورپ ، برازیل ، میکسیکو اور آسٹریلیا کے علاوہ ہسپانوی طرز کے کھانے الفیصلیہ ٹاور جیسی جگہوں پر سرو کیے جا تے ہیں ۔

گزرے وقتوں میں جہاںاس ملک میں خواتین گاڑی نہیں چلا سکتی تھیں اور نہ ہی بے پردہ حالت میں گھر سے باہر آجاسکتی تھیں وہ اب دور جدید میں خواتین کے حقوق کاایسا ضامن ہے کہ کاروکاری، قرآن سے شادی، یا وراثت میں حصہ نہ دئیے جا نے جیسی بوسیدہ روایات پوری قوم کے لیے انجانی ہیں ۔

اب اس ملک میں طلاق خلع یا بیوگی کی صورت دوسری شادی میں کو ئی چیز رکاوٹ نہیں بنتی۔ اب سعودی قوانین کے مطابق بیوی شوہر کی بد سلوکی کی صورت میں اس سے علیحدگی کے حقوق حاصل کر چکی ہے۔

اگرچہ معاشرے میں عمومی تسلط مردوں کا ہے ، مگر تعلیم ملازمت اور شادی جیسے معاملات میں عورت سو فیصد آزاد ہے۔ اس کی وجہ قانونی و مذہبی تحفظات کے علاوہ عربوں کی آزادی بھی ہے، جو خود پر کسی کے احکامات کا بوجھ برداشت نہیں کرسکتے۔دراصل عرب اپنی روح میں آزاد خیال و جمہوریت پسند ہے اور ظاہر میں روایت پسند بھی جو آج بھی اپنی زبان نسب اور اپنے گھوڑے سے بے حد پیار کرتاہے ، اور اپنی آزادی کو سب سے بڑھ کر عزیز رکھتا ہے ۔

تازہ ترین