• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ان دنوں اس قدر تیزی سے تبدیلیوں اور انکشافات کی گہما گہمی ہے کہ لکھنے کے لئے موضوع کا چنائو بھی مسئلہ بن گیا ہے۔ سعودی عرب میں تاریخی تبدیلیاں، لبنان کے وزیراعظم سعد حریری کا سعودی عرب میں بیٹھ کر لبنانی وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ بھیجنا، پیرڈائز پیپرز میں امریکہ، پاکستان اور دیگر ملکوں کے دولت مندوں کے بارے میں انکشافات، مسلمان نام کے ایک ازبک امیگرنٹ کی نیو یارک میں دہشت گردی، ٹیکساس کے چرچ میں عیسائی نام والے ایک سابق امریکی فوجی کی فائرنگ سے المناک ہلاکتوں پر ردعمل، امریکی صدر ٹرمپ کا 13 روزہ دورہ ایشیا سمیت سب واقعات یکے بعد دیگرے ہوئے اور ہر ایک موضوع علیحدہ کالم کا متقاضی ہے۔ بہرحال سعودی عرب میں احتساب کا آغاز اور پیراڈائز پیپرز کے انکشافات مشترکہ عنوان نظر آتے ہیں لہٰذا انہی دو موضوعات کے پس منظر اور پیش منظر پر گفتگو رہے گی۔
پیراڈائز پیپرز نے سابق وزیراعظم شوکت عزیز کے بارے میں بھی انکشافات کئے ہیں لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اہل پاکستان ان کے بارے میں بہت زیادہ نہیں جانتے۔ شوکت عزیز سے نیو یارک میں میری گاہے بگاہے ملاقاتیں بھی رہی ہیں اور مجھے اس بات کا بھی بخوبی علم ہے کہ وہ اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف سے ملاقاتوں اور رابطوں کے ذریعے ’’پاکستان کی خدمت‘‘ اور ’’معاشی بہتری‘‘ کیلئے خدمات انجام دینے کی پیشکش بھی اکتوبر 1999ء سے قبل کرتے رہے لیکن ان کو ’’قومی خدمت‘‘ کا یہ موقع نواز شریف حکومت کا تختہ الٹنے والے جنرل پرویز مشرف کے دور حکمرانی میں بطور مشیر، پھر وزیر اور بالآخر وزیراعظم ملا۔
وہ ان دنوں خود پاکستانی پاسپورٹ اور امریکی گرین کارڈ کے حامل تھے البتہ اہل خانہ کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ وہ ایک شائستہ شخصیت اور میٹھی گفتگو کرنے کے ماہر ہیں جن سے ان کے سٹی بنک کے بالا افسران اور نیویارک کے پاکستانی مطمئن اور مسحور نظر آئے۔ سٹی بنک کے پرائیویٹ بنکاری کے سربراہ کے طور پر جن خوبیوں اور صلاحیتوں کی ضرورت تھی وہ اس سیلف میڈ انسان میں بدرجہ اتم موجود تھیں یہ میرا مشاہدہ ہے۔ نوازشریف سے رابطوں کے ریکارڈ کے باوجود ان کے مخالف پرویز مشرف کو اپنی صلاحیتوں کا قائل کر کے وزیراعظم کے عہدے تک پہنچ جانا ان کی مہارت، صلاحیت اور شخصیت کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ پاکستان کی بہت سی شخصیات کی دولت اور ہینڈلنگ کا تجربہ اور دیگر امور سے بطور بینکار خوب واقف رہے ہیں۔ لہٰذا انہوں نے اپنا اور اپنی فیملی کا ٹرسٹ قائم کرتے وقت بینکنگ رولز اور قانونی ضابطوں کے علم اور تجربے سے ضرور پورا فائدہ اٹھایا ہوگا۔ ویسے بھی ایک امریکی امیگرنٹ ریاست ڈیلا ویئر میں قانونی طور پر اکائونٹ کھولنے کا اور امریکی انکم ٹیکس ریٹرن میں ایسے کسی ٹرسٹ کیلئے رعایت یا استثنیٰ کا مجاز بھی ہے لہٰذا اگر انہوں نے اس ٹرسٹ کے قیام میں اپنے امریکی امیگرنٹ یا شہری ہونے کا قانونی فائدہ اٹھایا ہے تو پھر انہوں نے امریکی ضابطوں کے مطابق کیا ہے۔ البتہ اس سلسلے میں جنرل پرویزمشرف سے بھی کوئی یہ پوچھنے کی جرات کرے کہ انہوںنے اپنا مشیر، وزیر اور پھر وزیراعظم مقرر کرتے وقت شوکت عزیز کی شہریت، کارکردگی، اثاثے اور دیگر امور کی تحقیقات کا طریقہ کیوں نہیں اپنایا وہ تو خود ایک با اختیار اور عملی طور پر مطلق العنان حکمراں تھے یا پھر انہوں نے بھی اپنے اثاثے ٹھکانے لگانے کیلئے شوکت عزیز کی بنکاری کی مہارت سے استفادہ کیا تھا؟ میری رائے میں شوکت عزیز کا یہ مختصر جواب بڑابامعنی ہے کہ ’’اس ٹرسٹ کو بتانے کی ضرورت نہیں تھی‘‘۔ محترم صحافی عمر چیمہ نے جس کاوش اور تحقیق سے پاکستانی دولت مندوں کے اثاثوں کو آف شور چھپانے کے کام کو بے نقاب کیا ہے وہ خراج تحسین کے مستحق ہیں۔ انہی پیراڈائز پیپرز میں صدر ٹرمپ کی کابینہ کے وزیر اور مشیر بھی لپیٹ میں آئے ہیں اور بہت سی دیگر امریکی شخصیات کے نام بھی موجود ہیں۔ جس پر امریکی میڈیا میں خاصا شور ہے لیکن قاعدے قانون اور دوسرے کا موقف سننے والے امریکہ میں الزام ثابت ہونے تک کسی کو کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ حالانکہ موجودہ امریکی وزیر برائے کامرس داس ولبر کے بارے میں یہ واضح ہے کہ وہ روسی صدر پیوٹن کے داماد کی ایک کمپنی میں شیئر رکھتے ہیں اور یہ کمپنی کئی سو ملین ڈالرز کا کاروبار کرتی ہے بلکہ راس ولبر روسیوں سے رابطے اور ملاقاتوں کا ریکارڈ بھی رکھتے ہیں۔ جو روس کی امریکی انتخابات میں مداخلت کی تحقیقات کا لنک بھی ہوسکتا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن اور کئی دیگر نامور امریکی پیراڈائز پیپرز کی لپیٹ میں آئے ہیں مگر تحقیقات، قانونی ضابطوں، انکم ٹیکس ریٹرن اور مکمل چھان بین کے بعد ہی جوابدہی اور احتساب کا پہیہ چلے گا۔ نعرہ بازی یا سیاسی ایجی ٹیشن کی فوری گنجائش نہیں۔ امریکہ میں صدر ٹرمپ کی عوامی مقبولیت بہت گرچکی ہے بلکہ70 سال کا ریکارڈ ہے کہ کسی امریکی صدر کی اس کے پہلے سال میں کبھی37فی صد عوامی مقبولیت رہ گئی ہو لیکن امریکی سسٹم اور مفاد کے تقاضے ملاحظہ ہوں کہ وہ امریکی عوام میں عدم مقبولیت کے باوجود ایشیائی ملکوں کا 13روزہ دورہ کرکے امریکی برتری کو برقرار رکھنے اور ایشیا میں امریکی مفادات کے تحفظ اور فروغ کے مشن پر ہیں اور کسی سیاسی مخالف نے بھی ان سے مستعفی ہونے یا الیکشن کرانے کا مطالبہ نہیں کیا۔
اب آئیے سعودی عرب میں ہونے والی اہم داخلی تبدیلیوں کی جانب جو بالآخر باقی ماندہ مشرق وسطی اور مسلم دنیا پر جلد ہی اپنے اثرات مرتب کریں گی۔ کرپشن کے خاتمے کے عنوان سے جن داخلی تبدیلیوں اور حکومتی نظام میں اصلاحات کا جو آغاز کیا گیا ہے اور جس طرح ولید بن طلال جیسے عالمی شہرت یافتہ دولت مند اور انوسٹر، حکومتی وزیروں اور دیگر افراد کی گرفتاریاں عمل میں آئی ہیں وہ 87 سال سے قائم سعودی مملکت کی تاریخ کا ایک نیا باب ہے۔ 1975ء میں شاہ فیصل کی اپنے بھتیجے کے ہاتھوں شہادت اور اس سے قبل 1964ء میں سعودی شاہ کی سبکدوشی کے باوجود تیل سے مالا مال سعودی مملکت کا نظام کم و بیش روایتی خطوط اور سخت اسلامی قوانین پر مبنی رہا۔ عراق کی دو جنگوں میں سعودی عرب نے امریکہ سے پورا تعاون کیا اور ہمیشہ کی طرح امریکہ کو برطانیہ سمیت تمام ملکوں پر ترجیح دی۔ دو سال قبل ابن سعود کے چھٹے بیٹے81 سالہ شاہ سلمان نے محمد بن سلمان کو ولی عہد مقرر کردیا۔ جدید تعلیم یافتہ، متحرک اور نئی نسل کے اس نوجوان ولی عہد کا وژن اپنے بزرگوں سے مختلف ہے۔ صدر ٹرمپ، ان کے داماد اور بچوں سے دوستانہ تعلقات رکھنے والے ولی عہد نے اپنے اردگرد ماحول کو اپنے لئے موافق بنانے کیلئے اپنے والد کے احکامات کے ذریعے وہ اقدامات کئے جو اقتدار پر ان کی گرفت مضبوط کردے۔ نوجوان سعودی نسل کے مزاج اور خواتین کے حقوق کو پیش نظر رکھ کر ولی عہد نے تخت نشینی سے قبل ہی وہ تمام اقدامات کرنا شروع کردیئے ہیں جو ان کے اقتدار کو مضبوط اور دیرپا کردے۔ صدر ٹرمپ کا تازہ بیان بھی شاہ سلمان اور ولی عہد کے اقدامات کے حق میں ہے۔ ڈر یہ ہے کہ اس قدر تیز رفتار اقدامات اور اہم شخصیات کی گرفتاریاں اور معطلی سعودی معاشرہ بالخصوص آل سعود کو تقسیم نہ کردے۔ بہرحال سعودی مملکت کے بانی اور ولی عہد محمد بن سلمان کے حقیقی دادا نے جس سعودی مملکت کو جن بنیادوں پر استوار کیا تھا چھ بیٹوں کی بادشاہت اور پوتے کی تخت نشینی سے قبل ہی اس کو تاریخی تبدیلی سے دوچار کردیا گیا ہے۔ رہی بات لبنانی وزیراعظم سعد حریری کے استعفیٰ کی تو عرض ہے کہ لبنانی اور سعودی دہری شہریت کے حامل لبنانی وزیراعظم کا سعودی عرب میں بیٹھ کر قتل کے منصوبے اور خوف کا جواز پیش کرکے استعفیٰ بھیجنا عجیب سا لگتا ہے۔ میری نظر میں سعودی عرب میں تبدیلیاں اور سعد حریری کا استعفیٰ ایک ہی خبر کے دو پیرگراف ہیں۔ یمن کی جانب سے سعودی سرزمین پر میزائلوں کے حملے اور پرنس مقرن کے نوجوان بیٹے سمیت 8 سعودی افراد کی ہیلی کاپٹر میں ہلاکت نہ صرف سعودی تبدیلیوں کا حصہ ہیں بلکہ مسلم دنیا میں نئی صف بندی اور عرب و عجم کے مسلمانوں میں نئے اور بڑے تصادم کی تیاریاں ہیں۔ ایران کے خلاف محاذ کھولنے کے ساتھ لبنان میں حزب اللہ کی سیاسی اور عسکری طاقت سے نمٹنا بھی ضرورت ہے۔ یہ بڑی خوش آئند صورتحال ہے کہ سعودی مملکت کو انتہائی کنزرویٹو نظام سے نکال کر اکیسویں صدی کے گلوبلزم کا حصہ بنایا جائے لیکن اگر مسلم دنیا میں عرب و عجم اور مسلک کی تخصیص کرکے آپس میں لڑوانے اور تباہ کروانے کیلئے غیروں کی کاسہ لیسی کیلئے یہ تبدیلیاں لائی جارہی ہیں تو پھر اہل پاکستان، افغانستان سمیت مسلم دنیا اپنی بچت کی فکر کرے۔
لبنان، یمن اور قطر تو عرب دنیا کا حصہ ہیں مگر گردش میں آئے ہوئے ہیں۔ جلد یا بدیر مسلم دنیا کو اپنی کوتاہیوں اور غفلت کی قیمت چکانا ہوگی۔

تازہ ترین