• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 گزشتہ سال جب امریکہ کے صدارتی انتخابات سے قبل موجودہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور سابق وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن کے درمیان بحث و مباحثہ کے مقابلے شروع ہوئے اس وقت ڈونلڈ ٹرمپ ایک جارح مزاج اور بدمزاج رہنما کے طور پر سامنے آئے تھے جاپان میں ان کے حوالے سے میڈیا یہی امکان ظاہر کررہا تھا کہ ان کی مقبولیت اتنی زیادہ نہیں ہے کہ وہ ہیلری کلنٹن کو انتخابات میں شکست دے سکیں یہی وجہ تھی کہ جاپان میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی مقبولیت عوامی سطح پر اور غیر سرکاری طور پر سرکاری سطح پر بھی بہت کم تھی خاص طور پر جب ایک انتخابی تقریر میں ڈونلڈ ٹرمپ نے جاپان میں امریکی افواج کے لیے جاپان کی جانب سے فراہم کیے جانے والے سالانہ فنڈ میں بھاری اضافے کا مطالبہ کیا تھا بصورت دیگر جاپان سے امریکی افواج کے انخلا کی بات بھی کی تھی ،جاپان جو اپنی سلامتی کا انحصار ہی جاپان میں تعینات امریکی افواج پر کرتا ہے اس کے لیے یہ بات انتہائی غیر متوقع تھی تاہم یہ تقاریر جاپان میں محض انتخابی تقاریر سمجھ کر نظر انداز کرنے کی کوشش کی گئی جبکہ میڈیا میں یہ بھی کہا گیا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ان ہی غیر ذمہ دارانہ باتوں کے سبب ان کی صدارتی انتخابات میں کامیابی ممکن نہیں لیکن پھر امریکہ میں صدارتی انتخابات ہوئے اور جو نتائج سامنے آئے وہ جاپان کیا امریکہ اور پوری دنیا کو حیران کردینے کے لیے کافی تھے کیونکہ ڈونلڈ ٹرمپ انتخابات جیت چکے تھے اور عہدہ صدارت ان کو منتقل کردیا گیا تھا ، دنیا میں ایک ان کہی تبدیلی آچکی تھی ، کئی ممالک نے امریکہ کے حوالے سے اپنی پالیسیوں میں تبدیلی پیدا کی ، نئے فیصلے کیے گئے اور دنیا بہت سی تبدیلیوں کے لیے خود کو تیار کرچکی تھی ، جاپان نے بھی امریکہ کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات کو نہ صرف برقرار رکھنے بلکہ ان میں مزید بہتری کے لیے کام شروع کیا ، جاپانی وزیراعظم ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی کے بعد لیکن عہدہ صدارت سنبھالنے سے قبل امریکہ کے دورے پر گئے اور خیر سگالی کا پیغام امریکی صدرکو پہنچایا ، وقت گزرتا رہا اورپھر امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے عہدہ سنبھالنے کے بعد اپنے پالیسی بیان میں جاپان کو اپنا اہم ترین اتحادی قرار دیا اور جاپان کے ساتھ قریبی تعلقات کی اپنی پالیسی بھی ظاہر کی ، جسکے بعد امریکی صدر پانچ ایشیائی ممالک کے اپنے پہلے دورے میں سب سے پہلے جاپان پہنچے ہیں جو دنیا کو ایک پیغام بھی ہے کہ جاپان امریکہ کے لیے اکتنی اہمیت رکھتا ہے ،اپنے دورہ جاپان سے قبل امریکی صدر نے امریکی ریاست ہوائی کا دورہ کیا اور وہاںان امریکی فوجیوں کی یادگار پر حاضری دی جو دوسری جنگ عظیم سے قبل جاپانی فوج کے حملے میں ہلاک ہوگئے تھے ، یہ حاضری امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جاپانی دورہ شروع کرنے سے قبل اس لیے دی تھی کہ اپنے عوام کو یہ باور کرایا جاسکے کہ جن فوجیوں کی قربانیوں کے سبب آج جاپان اور امریکہ قریب ترین اتحادی بنے ہیں امریکی حکومت انھیں آج تک نہیں بھولی ہے ، بہر حال امریکی صدر جاپان پہنچ چکے ہیں اور اپنے دورہ جاپان کے دوران اب تک جاپان کی فوجی ائیربیس یوکوتا میں تعینات امریکی فوجیوں سے خطاب کیا اور انھیں ان کی خدمات پر خراج تحسین پیش کیا ، جبکہ جاپانی حکومت اور عوام کے لیے امریکی دورے کی اہم ترین ترجیحات میں امریکی صدر کی جانب سے شمالی کوریا کے لیے سخت پیغام کا حصول ہے جس نے جاپان کی سلامتی کو خطرے میں ڈال رکھا ہے اور امریکی صدر نے بھی انتہائی کھلے دل کے ساتھ بھرپور طریقے سے جاپان کو اپنا قریب ترین اتحادی قرار دیا ہے اور شمالی کوریا کو انتباہ بھی کیا ہے کہ وہ جاپان کی سلامتی کو خطرے میں ڈالنے والے کسی بھی اقدام سے گریز کرے بصورت دیگر امریکہ شمالی کوریا کے ساتھ سختی سے نمٹے گا ،اس وقت پوری دنیا کی نظریں امریکی صدر کے دورہ جاپان پر مرکوز ہیں جہاں امریکی صدر جاپان کے وزیرا عظم شنزو آبے کے ساتھ گولف بھی کھیلتے نظر آرہے ہیں لیکن مقصد صر ف یہ ہے کہ دونوں عالمی طاقتوں کے درمیان تعلقات کو کس طرح مزید فروغ دیا جائے ، ساتھ ہی امریکی صدر نے شمالی کوریا کے ہاتھوں جاپان سے اغوا کیے جانیوالے شہریوں کے اہل خانہ سے بھی ملاقات کرتے ہوئے اسے شمالی کوریا کا بڑا جرم قرار دیا اور شمالی کوریا کو مہذب دنیا کیلئے بہت بڑا خطرہ قرار دیتے ہوئے کہاکہ شمالی کوریا کے حوالے سے جو داستانیں سنی ہیں وہ ناقابل یقین ہیں تاہم ان سے ظاہر ہوتاہے کہ شمالی کوریا نے ریاستی سطح پر جاپانی عوام کے خلاف ظلم و ستم کیے ہیں جو کسی بھی طرح قابل قبول نہیں ہیں ،امریکی صدر نے اپنے دورہ جاپان کے دوران کئی اہم مواقع پر نہ صرف شمالی کوریا کی سرزنش کی بلکہ اسے فوجی زبان میں جواب دینے کی دھمکیاں بھی دیں ،اسی دورے میں امریکی صدر نے جاپان کے شہنشاہ اکیہیتو اور ملکہ مچیکو سے بھی ملاقات کی ، امریکی صدر نے جاپان کے ساتھ تعلقات کو تاریخ کے بہترین تعلقات قرار دیتے ہوئے کہا کہ امریکہ کے جاپان کیساتھ جو تعلقات آج ہیں وہ ماضی میں کبھی بھی نہیں تھے ، جبکہ جاپانی شہنشاہ نے ٹیکساس میں فائرنگ کے واقعے پر ہونے والی ہلاکتوں پر اظہار افسوس بھی کیا ، امریکی صدر کیساتھ انکی اہلیہ بھی اس ملاقات میں موجود تھیں ،بہرحال امریکی صدر کے دورہ جاپان سے اور انکی تقاریر سے جاپانی عوام اور جاپانی حکومت کا قومی سلامتی اور امریکی کے ساتھ تعلقات کے حوالے سے جو خدشات تھے وہ ختم ہونے میں مدد ملے گی اور شمالی کوریا کو ضرور یہ پیغام گیا ہوگا کہ وہ جاپان کی سلامتی کو خطرے میں ڈال کر دراصل اپنی سلامتی کو خطرے میں ڈال رہا ہے۔
اب کچھ ذکر کرنا ہے پاکستان اور جاپان کے درمیان جغرافیائی طور پر واقع تیزی سے ترقی کرتے ہوئے ملک تھائی لینڈ کا جس کے پاکستان اور جاپان دونوں کے ساتھ بہترین تعلقات ہیں، تھائی لینڈ جاپانی شہریوں کے لیے بھی بہت پسندیدہ ملک ہے یہاں جاپانی سرمایہ کاروں نے بھاری سرمایہ کاری کر رکھی ہے جبکہ کراچی میں جاپانی قونصل جنرل توشی کازو ایسومورا بھی ان جاپانی شہریوں میں شامل ہیں جو اپنی ریٹائرمنٹ کی زندگی تھائی لینڈ میں گزارنا چاہتے ہیں، ان ہی باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے ایک کانفرنس میں شرکت کے لیے تھائی لینڈ آنا ہوا تو تھائی لینڈ کے دارالحکومت بنکاک میں قیام کے دوران تھائی لینڈ میں پاکستان کے سفیر عاصم افتخار احمد سے بھی ملاقات کا موقع ملا جس میں پاکستان اور تھائی لینڈ کے درمیان دو طرفہ سیاسی و تجارتی تعلقات پر بھی بات چیت ہوئی ، اس موقع پر پاکستانی سفیر نے راقم سے اپنی گفتگو کے دوران بتایا کہ تھائی لینڈ میں دس سے بارہ ہزار پاکستانی مقیم ہیں تاہم قیام پاکستان سے قبل یہاں برطانوی فوج کی جانب سے دوسری جنگ عظیم میں منتقل کیے جانے والے دو سے ڈھائی لاکھ پٹھان شہری یہاں رہائش پذیر ہیں جن کو تھائی شہریت کئی دہائیوں قبل دے دی گئی تھی اور اب وہ یا تو پختون بولتے ہیںیا پھر تھائی زبان ہی بولتے ہیں تاہم ان کا پاکستان سے کمٹمنٹ تاحال مثالی ہی ہے ،سفیر صاحب سے بات چیت کے دوران یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ تھائی لینڈ میں پاکستانیوں کی بہت بڑی تعداد سیاسی پناہ لیے ہوئے ہے جو اپنی سلامتی کو خطرے کی بنیاد بنا کر یہاں سیاسی پناہ کے ذریعے رہائش پذیر ہیں ، پاکستانی سفیر عاصم افتخار احمد نے بتایاکہ پاکستان اور تھائی لینڈ کے تجارتی تعلقات میں بہتری کے لیے کوششیں کررہے ہیں تاہم دونوں ممالک کے درمیان فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے آٹھ دور مکمل ہوچکے ہیں نوا دور اسی مہینے کے آخری ہفتے میں بنکاک میں ہوگا جس سے پاکستان کی تھائی لینڈکو برآمدات میں اضافہ ممکن ہوسکے گا۔

تازہ ترین