• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے انتہائی قریبی دوست ملک سعودی عرب میں ہونے والی حالیہ تبدیلیاں اس قدامت پسند ملک کی دہائیوں پرانی کئی پالیسیوں میں کی جانے والی چند بڑی ترمیمات کا نتیجہ ہیں۔ سعودی عرب دنیا بھر میں تیل کا سب سے بڑا ایکسپورٹر ہے۔ تین کروڑ تیس لاکھ سے زائد آبادی والے ملک سعودیہ کی سالانہ جی ڈی پی689 ارب ڈالر ہے۔ اس میں تیل سے حاصل ہونے والی سالانہ آمدنی 237ارب ڈالر ہے ۔سالانہ فی کس آمدنی21 ہزار ڈالر ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کی جی ڈی پی 304ارب ڈالر اور اکیس کروڑ سے زائد آبادی کے ساتھ سالانہ فی کس آمدنی تقریباً 1600ڈالر ہے۔ یہاں ایک اور اسلامی ملک ترکی کا تذکرہ اس مناسبت ہے کہ ترکی کی معیشت تیل یا کسی اور قدرتی وسیلے پر نہیں بلکہ زیادہ تر صنعت، زراعت، خدمات، سیاحت وغیرہ پر منحصر ہے۔ ترکی کی آبادی تقریباً آٹھ کروڑ، جی ڈی پی 905ارب ڈالر اور سالانہ فی کس آمدنی 11ہزار ڈالر سے زائد ہے۔ تیل ایکسپورٹ کرنے والے ممالک کی تنظیم (OPEC) میں سعودی عرب کو اہم مقام حاصل ہے۔ خلیجی تعاون کونسل (GCC) اور عرب لیگ میں سعودی عرب کا اثر ورسوخ سب سے زیادہ ہے، اسلامی ممالک کی تنظیم (OIC) میں سعودی عرب کی بہت قدر و منزلت ہے۔ اس سیادت کا سب سے بڑا سبب سعودی عرب کی مضبوط معیشت ہے اور معیشت کی موجودہ مضبوطی کا انحصار زیادہ تر تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی پر ہے۔ صرف تیل پر ہی انحصار کئی سعودی پالیسی سازوں کے لیے فکر مندی کا سبب بھی ہے۔ تیل کی قیمتوں میں گزشتہ چند برسوں سے سال بہ سال ہونے والی کمی سے سعودی عرب کی آمدنی میں بہت کمی آئی ہے۔
تیل پر انحصار کم کرتے ہوئے معیشت کے دیگر ذرائع کو ترقی دینے کے لیے قدامت پسند سعودی سوسائٹی میں کئی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ معاشرے میں مثبت تبدیلیوں کے لیے مضبوط سیاسی عزم، درپیش حالات اور عصری تقاضوں سے باخبری، حکمت و تدبر اور جرأت کی ضرورت ہوتی ہے۔
سعودی عرب پاکستان کا انتہائی قریبی دوست ہے۔ پچھلے چالیس پچاس برسوں میں لاکھوں پاکستانی بغرض روزگار سعودی عرب گئے۔ سعودی عرب سے ہر سال اربوں ڈالر پاکستان بھیجے جاتے رہے ہیں۔ 2016ء میں غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں کی جانب سے 19.9ارب ڈالر وطن بھیجے گئے تھے۔ اس میں سعودیہ سے آنے والی ترسیلات سب سے زیادہ یعنی 5.9ارب ڈالر تھیں۔ 2017ء میں بیرون ممالک سے آنے والی رقوم میں کمی آنے سے یہ مالیت 19.3ارب ڈالر رہی لیکن اس میں بھی سعودیہ سے آنے والی رقوم 4.3ارب ڈالر کے ساتھ پہلے نمبر پر ہی رہیں۔ سعودی حکومت نے پاکستان کو معاشی مشکلات سے نکلنے میں کئی بار مدد فراہم کی ہے۔ ہر سال لاکھوں پاکستانی عمرہ اور حج کے لیے سعودی عرب جاتے ہیں۔ اس طرح پاکستان کی حکومت اور عوام کے سعودی عرب کے ساتھ سیاسی، اقتصادی، مذہبی اور سماجی تعلقات ہیں۔ سعودی عرب میں ہونے والی کسی اہم پیش رفت کا پاکستانی عوام توجہ سے مشاہدہ کرتے ہیں۔
تیل پر انحصارکم کرتے ہوئے معیشت کو مضبوط بنانے، عالمی معاملات میں مزید موثر کردار ادا کرنے کی صلاحیت بڑھانے، سعودی عوام کا دنیا کے دوسرے خطوں کے عوام کے ساتھ رابطے بڑھانے کے لیے اب سعودی عرب میں کئی دہائیوں قدیم پالیسیوں کا جائزہ لیا جا رہا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تبدیلیوں کا سب سے بڑا محرک عصری تقاضے ہوتے ہیں۔ حکومت ہو یا عوام ہر ایک کے لیے سب سے زیادہ اہمیت معیشت اور معاش کی ہے۔ 70ء کے بعد سعودی پالیسیاں تیل سے حاصل ہونے والی آمدنی کے تخمینوں پر بنائی گئی تھیں۔ 1979ء کے بعد عالمی حالات میں کئی تبدیلیاں آئیں۔ ایران میں بادشاہت کے خاتمے، افغانستان میں سوویت یونین کی یلغار اور شکست نے کئی نئے مناظر تخلیق کیے۔ 11 ستمبر2001کے بعد امریکی پالیسیوں میں آنے والی کئی تبدیلیاں دنیا کے لیے کئی چونکا دینے والے واقعات کا سبب بنیں۔ مشرق وسطیٰ کے روایتی اور قدامت پسند معاشرے بھی ان تبدیلیوں کی زد میں آئے۔ انیسویں صدی میں امریکہ کی طرف سے اشتراکیت کا مقابلہ کرنے کے لیے مذہب کو بہت زیادہ اہمیت دی گئی تھی۔ سوویت یونین کے خاتمے کے بعد مذہب کے حوالے سے امریکہ کی یہ ضرورت ختم ہوگئی تھی چنانچہ امریکہ اور بعض اسلامی ملکوں کی طرف سے کئی مذہبی تنظیموں کی سرپرستی ختم کردی گئی۔ قدامت پرست ملکوں میں خواتین پر عائد کئی پابندیاں بھی بتدریج اٹھائی جارہی ہیں۔ بقول شاعرِ مشرق؎
آئین نو سے ڈرنا طرزِ کہن پے اَڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
قدامت پسند معاشرے کو جدت دینا آسان کام نہیں۔ اس کے لیے کئی اصلاحات ناگزیر ہیں۔ ہر روایتی معاشرے میں جہاں اصلاحات کے خواہش مند اور حامی موجود ہوتے ہیں وہاں بعض عناصر اپنے ذاتی مفادات یا اپنی خاص سوچ کی بالادستی چاہتے ہوئے اصلاحات کی مخالفت یا مزاحمت بھی کرتے ہیں۔ ان مخالفتوں کا ثابت قدمی سے مقابلہ کرتے رہنے والے معاشرے اصلاحات کے زیادہ سے زیادہ ثمرات پاسکتے ہیں۔
افغانستان میں شکست اور اندرون خانہ شدید معاشی نقصانات کی وجہ سے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد دنیا کو نئے حقائق اور نئے چیلنجز کا سامنا ہے۔ پاکستان، سعودی عرب اور خطے کے چند دیگر ممالک کو بدلتے ہوئے حقائق کو سمجھنے اور جذباتیت سے ہٹ کر عصری تقاضوں کے مطابق پالیسیاں بنانے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب اب اسی سمت میں آگے بڑھ رہا ہے۔ تبدیلی کے اس عمل کی قیادت سعودی عرب کے جواں سال ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان (MBS) کر رہے ہیں۔ تیل پر انحصار کم کرنے کے لیے، مملکت میں تجارت، صنعت، سیاحت اور دیگر پیداواری سرگرمیوں کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ایک نئے شہر NEOMکی منصوبہ بندی بھی کی گئی ہے۔ یہ نام انگریزی کے لفظ نیو اور عربی کے حرف م کو ملاکر رکھا گیا ہے۔ یہاں ’’م‘‘ مستقبل کی نمائندگی کر رہا ہے۔ اس طرح نیوم کا مطلب ہے نیا مستقبل۔ ساحل سمندر، پہاڑ اور صحرا پر مشتمل خطے میں بسایا جانے والا یہ شہر اردن اور مصر کی سرحدوں کے ساتھ 500ارب ڈالر کی لاگت سے 26ہزار پانچ سو مربع کلو میٹر پر تعمیر کیا جائے گا۔ واضع رہے کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کا رقبہ3527مربع کلومیٹر ہے۔ سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے ویژن 2030کے تحت تعمیر کیے جانے والے اس شہر میں توانائی، خواراک، پانی کے علاوہ بائیو ٹیکنالوجی، ڈیجیٹل سائنس، میڈیا پروڈکشن کی سہولتیں فراہم کی جائیں گی۔ یہ شہر تفریح اور سیاحت کا بڑا مرکز ہوگا۔ سعودی عرب اور مصر کے درمیان ایک بڑے پُل کی تعمیر سے نہ صرف دو ملکوں بلکہ براعظم ایشیا اور افریقہ کو آپس میں ملانے کا منصوبہ بھی ہے۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ سعودی عرب کے مروجہ قوانین اس شہر پر لاگو نہیں کیے جائیں گے۔ نیوم کے لیے علیحدہ قوانین ہوں گے۔ قارئین www.discoverneom.com اور دیگر کئی ویب سائٹس پر اس شہر کے بارے میں مزید تفصیلات جان سکتے ہیں۔
نیوم کی تعمیر اور دیگر شعبوں میں اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری سے خطہ کے دیگر ممالک کو بھی فائدہ ہوگا۔ تعمیرات اور دیگر کئی شعبوں میں اگلے دس برسوں میں ہنر مند اور غیر ہنر مند لاکھوں افراد کی ضرورت ہوگی۔ سعودی عرب کی تعمیر و ترقی میں لاکھوں پاکستانیوں نے بہت اہم کردار ادا کیا ہے۔ حکومتِ پاکستان کی بروقت اور مناسب توجہ سے نیوم کی تعمیر میں بھی لاکھوں پاکستانیوں کے لیے وسیع مواقع فراہم ہوسکتے ہیں۔ اس معاملے میں تاخیر بعد میں ہمارے لیے کہیں پچھتاوا نہ بن جائے۔

تازہ ترین