• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صوفی کا مخاطب انسان ہوتا ہے اور انسان سے مراد کسی خاص مذہب یا مسلک کا پیرو کار نہیں بلکہ اس کے دائرہ کار میں پوری دنیا یعنی انسانیت سما جاتی ہے اس طرح وہ ایک ایسی آفاقی فکر کا حامل ہوتا ہے جو حدود سے ماورا ہوتی ہے۔اس کا کلام خوشبو کی طرح سفر کرتا زندگی کولطافت عطاء کرتا ہے اور اسے اس کے مقصد سے آگاہ کرتا آگے بڑھنے کے اسباب کرتا ہے۔آفاقی تصورات کا علمبردار پہلے زمین سے دوستی کرتا ہے ۔اُس کی نبض دیکھ کر اُس کے مزاج کی گرمی سردی سے آشنائی حاصل کرتا ہے،اُس کی دھڑکن سن کر اُس کے محسوسات کی شدت کا اندازہ کرتا ہے۔تو اُس کو ایسی طاقت میسر ہو جاتی ہے کہ اُس کے قدم تو زمین پر جمے ہوتے ہیں لیکن تخیل آسمان کو چھو رہا ہوتا ہے۔یہی مادیت اور روحانیت کا سنگم بھی ہے کہ انسان بیک وقت طبعیاتی اور مابعدطبعیاتی دنیا میں موجود ہوتا ہے۔وہ ظاہری آنکھوں سے اشیاء کو دیکھتا ہے اور باطنی آنکھ سے حدِ ادارک سے آگے جہانوں کی خبرگیری کرتا ہے۔
تخیل کی وسعت انسان کوپوری کائنات سے ہم آہنگ کردیتی ہے۔ وہ زمین کی دانش سے آفاقی تصورات کاجادوئی قالین بنتا ہے اور اس پر بیٹھ کرتمام جہانوں کی سیرکرتا ہے۔ یوں وہ پوری انسانیت سے ربط استوار کرکے اجتماعی خیر کے کنبے سے منسلک ہوجاتا ہے۔اُس کی زمین کے لوگ اُس سے عقیدت کا دعویٰ کرسکتے ہیں ،اُس کی موجودگی پر فخر محسوس کرسکتے ہیںمگراُس پر ٹھیکیداری کے قوانین لاگو کرکے اُسے محدود نہیں کر سکتے۔وحدت الوجود کے عالم گیرنظریئے سے جڑے شاہ عبدالطیف بھٹائی سندھ کی شناخت ہیں۔ اگرسندھ کی تاریخ ،ادب اور معاشرے سے شاہ کو نکال دیا جائے تو سندھ کے تعارف کا خانہ مدہم پڑ جائے۔ بالکل اسی طرح جیسے پھول موجود ہوں مگر اُن میں خوشبو ختم ہوجائے،چاند نکلے مگر چاندنی نہ ہو، ہوا چلے مگر آکسیجن سے خالی ہو اور سورج طلوع ہو مگر تپش سے محروم ہو۔ عظیم ہستیوں کے ساتھ کئی کرامتیں اور حیرتیں جڑی ہوتی ہیں۔ رب بڑا بے نیاز ہے ۔خود تک آنے والے رستوں کو کئی حیلوں وسیلوں سے گزارتا ہے ۔عشقِ مجازی ایک لازمی ریاضت ہے۔اس کے بغیر نفس کی طہارت اور وجود کی تکمیل ادھوری رہتی ہے۔نوعمری میں شاہ کی معزز مغل خاندان کی لڑکی سے آنکھیں کیا چار ہوئی دنیا ہی بدل گئی۔اگرچہ شاہ عبدالطیف کا گھرانہ اپنے علم و فضل اور روحانی برکتوں کی وجہ سے قدرو منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا پھر بھی اس مسئلے کی وجہ سے اُنھیں مشکلات برداشت کرنا پڑیں۔شاہ عبدالطیف بھٹائی گھر بار چھوڑکر ویرانوں اور بیابانوں میں دل کا چین ڈھونڈتے رہے پھر وقت اُس خوبرو کو خاندان سمیت اُن کے در پر لے آیا ،شادی ہوگئی اور زندگی اگلے مرحلے میں داخل ہو گئی۔
شاہ عبدالطیف بھٹائی ایسا صوفی شاعر ہے جس نے اپنے ظاہر کی مٹی میں باطنی نور کی کرنیں شامل کرکے روحانی اور مادی سطحیں اِک مِک کر دی ہیں۔اپنی بات کو تمام لوگوں تک پہنچانے کے لیے عوامی کہانیوں کا سہارا لیا۔ تصوف کے رموزکو سمجھانے کے لیے چرواہوں، کسانوں، سنیا سیوں، جولاہوں، ملنگوں، فقیروں، قلندروں، ماہی گیروں اور دیگر کرداروں کو علامت بناکر برتا ،اُن کے احساسات کو بڑے تناظر میں کائنات سے جوڑا۔اگرچہ خاندانی طور پر اُنھیں قادریہ سلسلے سے نسبت تھی مگر شاہ عبدالطیف بھٹائی کا دل اور فکر کسی خاص سلسلے یا رسم و رواج کی قید میں سمانے والے نہ تھے ۔وہ ایک آزاد روح کی مانند تھے جو لوگوں کی بنائی رسموں اور ضابطوں کی پابند نہیںہوتی بلکہ اپنے باطن کی آواز سن کر سفر کا تعین کرتی ہے۔باطن کی رہنمائی میں آگے بڑھنے والا سالک اگرچہ شریعت اور طریقت کا پابند تھا مگر انسانوں کی مختلف طبقات میں تقسیم اُنھیں گوارا نہ تھی۔ دین کا جوہر بھی اُنھیں عالمی مساوات کا چہرہ دکھائی دیتا تھا۔ اس لئے سب اُن کے دوست تھے ،دانش سے جڑے ہوئے،روحانیت کے پیروکار،سلوک کے رستے کے مسافر سے ایک ہم آہنگی کی سطح موجود تھی بھلے اُس کا تعلق کسی عقیدے سے ہو۔صوفی چونکہ روح کے احکامات کو زیادہ اہمیت دیتے ہیںاس لیے روح کی غذا موسیقی سے انھیں خاص رغبت ہوتی ہے۔ شاہ کے من میں سُرکے دریا بہتے تھے ۔یہی وجہ ہے کہ بھٹ شاہ میں دور دراز سے موسیقی کے ماہرین کھنچے کھنچے چلے آتے تھے ۔سماع کی محفلیں سجتی تھیں،عشق کی تال پر ھُو کا ورد ہوتا تھااوروجود کو سُرسے ہم آہنگ کرکے روحِ کائنات سے واصل ہوا جاتا تھا۔ شاہ حسین کی طرح شاہ عبدالطیف بھٹائی بھی سُروں ،راگنیوں اور لے پر لفظ رقم کرتے رہے۔ان کے افکار اور طرز زندگی سے جس نظریہ حیات کی عکاسی ہوتی ہے۔اس میںاسلامی تصوف کے تمام سلسلے اور دیگر فلسفے باہم نظر آتے ہیں ۔شاید اُس کی وجہ یہ بھی ہے کہ تصوف کے راستے کے تمام مسافروں سے آپ کی دوستی تھی۔کیونکہ سب کی تلاش کی مرکز ایک ہی ہستی ہے صرف منزل تک پہنچنے تک کے نقشے اور وسیلے جدا جدا ہیں۔ آپ جوگیوں ،بھگتوں ،سادھوئوں اور سنتوں کی گوشہ نشینی اور خانہ بدوشی سے بھی متاثر تھے اس لیے کہ وہ خود غرضی سے ماورا ہوتے ہیں اور مال و دولت ذخیرہ کرنے کو بُرا خیال کرتے ہیں۔شاہ کی شاعری میں عربی ،فارسی،ہندی اور دیگر زبانوں کے حروف اس بات کی نشاندہی کرتے ہیںکہ اُنھوں نے اُس دور کی بڑی زبانوں کے ادبی اور علمی خزانے سے خوب استفادہ کیا۔ رومی ،غزالی،ابن عربی اور دیگر عربی و فارسی شاعروں و فلسفیوں کے نظریات کا عکس اور اس سے آگے کا سفر بھی دکھائی دیتا ہے مگر اُن کی شاعری بہتے ہوئے دریا کی طرح رواں اور آبشار کی آواز کی طرح مترنم ہے۔سندھ کی ثقافت کے جھلمل رنگوں سے مزین کلام تاثیرسے مالامال ہے۔شعریت اور حُسنِ بیان،جمالیاتی احساس اور لطافت کو اجاگر کرتا ہے۔لفظوں کی مالا میں پروئی داستانیں دراصل کھلیانوں، ٹیلوں ، باغوں، دریائوں اورفصلوںکی دلکش منظرکشی ہے۔لیکن کسی موقع پر بھی تصوف کا بنیادی نکتہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوتا۔وہ روح کی طرح ہر مصرعے میں موجود ہ رہتا ہے۔خاص وعام میں مقبول لوک داستانوں،سسی پنوں، نوری جام تماچی،عمرماروی کی مومل،ماروی،سسی،سوہنی اور لیلیٰ کو حُسن ازل کی جھلک کے طور پر دیکھا اور دیکھایا۔اُن کا کلام اُ ن کی عظمت کا گواہ ہے۔رب سے ناطہ جوڑنے کی تلقین کے ساتھ ساتھ جن اصولوں کو اپنانے اورزندگی کا قاعدہ بنانے کی ضرورت پر زور دیا ۔اُن میں کم کھانا ،کم سونا،کم بولنا، خدمت خلق کو افضل سمجھنا ،سادگی اختیارکرنا،ہرحال میں شکربجا لانا، ذکرسے کبھی غافل نہ ہونا،خودغرضی سے پرہیزکرنا اورظاہری عبادت کے ساتھ باطنی وابستگی کو مضبوط کرنا شامل ہے ۔صوفی جہاں ڈیرہ ڈالتا ہے وہاں بستیاں آباد ہو جاتی ہیں ۔صدیوں پہلے شاہ نے بھی کوٹری کے قریب پُرفضا ٹیلوں کو مسکن بنایا تو اُنھیں ایک خوبصورت بستی میں ڈھال دیا جسے بھٹ شاہ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔چالیس سال وہاں رہ کر سلوک کی منزلیں طہ کیں اور پھر ایک دن وہیں روح کو اگلے سفر کا حکم ملا وہ پرواز کرگئی مگر کلام کی برکت فضائوں میں اس طرح سمو گئی کہ آج یہ بستی ایک آفاقی پیغام کی علامت بن چکی ہے شاہ نے ایک گائیک کے منہ سے جو ایک راگ کہلوایا ہے وہی کائنات کی اساس ہے ’’ انسان میرا راز ہے اور میں اُس کا راز ہوں‘‘ بھٹ شاہ کی فضائیں آج بھی یہ نغمہ گنگنا رہی ہیں اور دنیا بھر کے انسانوں کو اس راز کو سمجھ کر خود کو پہنچاننے کی دعوت دے رہی ہیں۔ سندھ میں شاہ عبدالطیف بھٹائی کی فکر کو اپنایا اسی لئے وہا ں مذہبی رواداری اور بھائی چارے کی فضا دیگر صوبوں سے زیادہ بہتر ہے۔کاش دیگر صوبوں میں بھی صوفی فکر کی پذیرائی ہو تاکہ پورا ملک محبت اور اخوت کے رنگ میں ڈھل کر انسانیت کا علمبردار بن سکے۔

تازہ ترین