• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ٹاہنی عمر دی، امن دا آلنا وے بسلسلہ میں تے منو بھائی

کاغذ کی یہ مہک، یہ نشہ روٹھنے کو ہےیہ آخری صدی ہے، کتابوں سے عشق کیمجھے دہلی کے برگتی میدان میں دو ہفتوں سے زیادہ عرصہ تک چلنے والی کتابوں کی بین الاقوامی نمائش میں جانے کا اتفاق ہوا اور وہیں میں نے امرتا پریتم کو دیکھا جو پاکستان کے کتابوں کےا سٹال پر کتابیں دیکھ رہیں تھیں۔ میں نے ان کے دونوں کندھوں پر اپنے ہاتھ رکھے اور کہا ’’یا تے تو امرتا پریتم ایں، تے یا تیری اودھے نال شکل ملدی اے۔‘‘ وہ مڑی اور مسکراتے ہوئے بولی’’ اے دووے گلاں ٹھیک نیں۔ پر تو کون ایں؟‘‘ ۔ میں نے کہا ’’میں منو بھائی آں۔‘‘ ’’جے تو منو بھائی ایں تے فیر جپھی پا۔‘‘ میں نے ہڈیوں کے زندہ پنجر کو اپنے گلے لگایا تو انہوں نے کہا’’آج شام ملک راج آنند کی کتاب’’کام شاستر‘‘ کی اوپننگ سیریمنی ہے وہاں آجائو۔‘‘ میں وہاں پہنچا تو فیض احمد فیض سے پانچ سال بڑے دوست ملک راج آنند موجود تھے۔ انہوں نے میری طرف اشارہ کرکے پوچھاکہ’’اے تمبی کتھوں آئی اے؟‘‘ میں نے بتایا ’’پاکستان سے۔‘‘ آنند ہی نے کہا کہ’’تسی پاکستانی الو دے پٹھے او۔‘‘ میں نے کہا’’سر! یہ تو مجھے معلوم ہے لیکن آپ کس لحاظ سے ہمیں الو کا پٹھا کہتے ہیں؟‘‘ انہوں نے کہا ’’پاکستانیوں کے پاس سکھوں کی اور سکھ مذہب کی جائے پیدائش ہے، ان کا مکہ اور مدینہ دونوں پاکستان میں ہیں، سکھ دنیا کی امیر ترین کمیونٹی ہے، آپ لوگ تیل کے اس کنوئیں کو استعمال کیوں نہیں کرتے؟ بینظیر بھٹو سے کہیں کہ وہ ان کنووئوں کا استعمال کریں۔‘‘ میں نے تعمیل کا وعدہ کیا اور پاکستان واپسی کے بعد محترمہ بینظیر بھٹو کو ملک راج آنند کی یہ تجویز لکھ کردی۔ ملک راج آنند نے یہ بھی کہا تھا کہ سکھوں کے بعد مہاتمابدھ بھی اپنی بے شمار نشانیاں پاکستان میں چھوڑ گئے ہیں۔ یہ دوسرا سب سے زیادہ قیمتی تیل کا کنواں ہے۔ میں نے یہ بھی لکھ دیا، مگر بینظیر بھٹو نے یہ تجویز یا پلان اپنے کلچرل سیکرٹری کو دے دیا۔ وہاں سے یہ منصوبہ اپنی غیر قدرتی موت مرگیا۔امرتا پریتم نے شاعری میں کہا ہے، بلکہ آسمانی بجلی سے یوں مخاطب ہوئی ہے کہمندر تے ڈگیں، گرجے تے ڈگیں، مسیت تے ڈگیںکلےمسافرتےکدی نا ڈگیں، اک نا ڈگیں پنگھوڑیاں تھےایک جگہ لکھتی ہیںلگی لو، تے پہلا پہر لگا.....فیر دوسرے پہر نے صد لائیاک تیرے دیوگ داسیک ڈھا، دوجا عمر دی شکر دوپہر آئی نظم کا آخری شعر ہےبور پوے جے زمین دے رکھ اتےایس کانی دی لج نوں پالنا وے.........ٹاہنی عمر دی، امن دا آلنا وےایک اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ ماموں شریف کنجاہی، دوست احمدراہی اور امرتا پریتم کی بجائے میں نے پنجابی شعری کا شوق ظفر اقبال کی شاعری سے حاصل کیا، جن کے دو شعر میں کبھی نہیں بھول سکا۔مینوں ٹردیاں ویکھ کے ، اونیں کھولیا بوا کار دامیں جھوٹاں دی پوٹلی، اودھے ہتھ پھڑادیاںتلی دے اتے دھر کے سوچاں، کھوٹی چوانی لفظ دیاینوں کدھرے سٹ دیاں، یادھوکے نال چلادیاںیہ اشعار مجھے پنجابی شاعری کی طرف متوجہ کرنے والے تھے۔ ظفر اقبال اپنے عہد کے فیض احمد فیض کے بعد سب سے مشہور اور مقبول شاعر ہیں۔

تازہ ترین