• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی نا قابل رشک بصیرت کا ثبوت نہیں دیا ان تمام سیاسی جماعتوں نے جو ججوں اور جنرلوں کے احتساب کی حمایت سے دستبردار ہو گئی ہیں۔ ان میں سے کچھ پہلے حامی تھیں، جب قومی احتساب کمیشن کے قیام کا بل قومی اسمبلی میں پیش کیا گیا۔ پھر ایک ایک کر کے سب نے ہی ہاتھ کھینچ لیا، جماعت ِ اسلامی، پاکستان تحریک ِ انصاف اور متحدہ قومی موومنٹ، اور آخر میں حکمران مسلم لیگ اور پیپلز پارٹی، سب ہمت ہار بیٹھے۔ پیپلز پارٹی کے ایک لیڈر نے کہا وہ اداروں کے درمیان مزید کشیدگی نہیں چاہتے۔ کوئی بھی اداروں کے درمیان کشیدگی کی حمایت نہیں کرسکتا۔ یہ سب ادارے اس ملک کے ہیں۔ ان میں کسی بھی وجہ سے اگر دوری ہوگی، کشیدگی تو بہت دور کی بات ہے، تو اس ملک کا نقصان ہوگا۔
مگر ان جماعتوں کا یہ موقف سمجھ نہیں آیا کہ کسی بھی ادارے سے وابستہ لوگوں کے احتساب سے اداروں کے درمیان کشیدگی کیسے بڑھ سکتی ہے اور کیوں؟ ایسا کون ہوگا جو اپنے ادارے کو بدعنوان عناصر سے پاک صاف رکھنا نہیں چاہے گا؟ کو ن اِس بات کا حامی ہو سکتا ہے کہ ُاس کے ادارے میں خراب لوگ ہوں، ان پر انگلیاں اٹھیں، انہیں عوام نفرت کی نظر سے دیکھیں، انہیں ناپسند کریں؟ کوئی بھی نہیں۔ اور یہ کوئی ایسا معاملہ نہیں ہے جس کے لئے سقراط اور افلاطون کی عقل درکار ہو۔ کسی سے بھی پوچھ لیں، سڑک پہ چلتے ہوئے کسی بھی عام آدمی سے کہ کیا وہ، مثلاً، پولیس کو بدعنوان عناصر سے پاک دیکھنا چاہتا ہے؟ یا کسی اور ادارے کا نام لے لیں، نیچے سے اوپر تک کسی بھی ادارے کا ، سو فیصد لوگوں کے جواب مثبت ہوں گے۔ اس کے سوا کوئی اور جواب ممکن ہی نہیں۔ مل ہی نہیں سکتا۔ کوئی بھی بدعنوانی کا حامی نہیں ہوسکتا، کہیں بھی ہو۔
آخر کوئی تو وجہ ہوگی کہ ہر ادارے میں بدعنوانی کے خاتمے کے لئے ایک اندرونی نظام بھی موجود ہوتا ہے۔ سرکاری ادارہ ہو یانجی، سب ہی اس بات پر نظر رکھتے ہیں کہ ان سے وابستہ لوگ کسی غلط کام میں ملوث نہ ہوں، بدعنوان نہ ہوں۔ مگر ایک حد تک۔ بالآخر، معاملہ اینٹی کرپشن ، یا کسی اور محکمے کے پاس جاتا ہے۔یعنی اندرونی تحقیق کے بعد ایک غیر جانبدار ادارے کو کارروائی کرنی پڑتی ہے۔ عدلیہ اورفوج کا موقف یہ ہے کہ احتساب کا نظام ان کے یہاں موجود ہے۔ وہ اپنے معاملات خود دیکھتے ہیں اور بدعنوانی میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی کرتے ہیں، یا کر سکتے ہیں۔ عدلیہ اور فوج با اختیار ادارے ہیں، بہت با اختیار۔ یقیناً ان اداروں میں ایسا کوئی نظام ہوگا کہ وہ انہیں بدعنوان عناصر سے پاک صاف رکھ سکیں۔ مگر چند بنیادی اصول ہیں، ایک تو بہت معروف ہے، زبان زدِعام ،کہ انصاف صرف ہونا نہیں چاہیے، ہوتا ہوا نظر بھی آنا چاہیے۔ اس معیار سے اور آئین ِ پاکستان کے حوالے سے پرکھنے کی کوشش کریں تو کچھ سوال کھڑے ہوتے ہیں۔ اعلیٰ عدالتوں میں احتساب کا ایک نظام موجود ہے، مگر محدود ہے۔ سپریم جوڈیشل کونسل ہے، اس کا طریقہء کار بھی طے ہے۔ اس کے سربراہ چیف جسٹس ہیں۔ ارکان میں سپریم کورٹ کے دو سینئر ترین جج اورہائی کورٹوں کے دو سینئر ترین چیف جسٹس شامل ہیں۔ ایک سوال تو یہ ہے کہ سپریم جوڈیشل کونسل نے اب تک کتنے ججوں کے خلاف کارروائی کی ہے؟ سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر بھی یہ تفصیلات میسّر نہیں ہیں۔ کونسل ان ججوں کے خلاف کارروائی کر سکتی ہے جو کام کرنے کے اہل نہیں رہے ہوںیا بدعنوانی کے مرتکب ہوئے ہوں۔ مگر کیا بدعنوانی میں وہ فیصلے بھی شامل ہیں جو اعلیٰ عدالتوں کے جج گزشتہ ساٹھ ستّر برس سے کرتے چلے آرہے ہیں؟ وہ فیصلہ جو جابر گورنر جنرل کے حق میں کیا گیا، اورمارشل لا لگانے والے جنرلوں کے حق میں کئے گئے۔ اور ان ہی کی ایما پر اور ان کی خوشنودی کے لئے برادر ججوں کے خلاف چھپ چھپاکے آمروں سے مفاہمت کی اور عبوری آئین کے تحت حلف اٹھایا ۔ کیا یہ بدعنوانی نہیں ہے؟ تو کارروائی تو ان ججوں کے خلاف ہونی ہی چاہیے۔ سپریم کونسل کو کرنی چاہئے۔
دوسری بات یہ کہ اکثر یہ ہوا ہے کہ جس جج کے خلاف تحقیقات کونسل کو بھیجی گئی، اس نے استعفیٰ دے دیا، اور یوں وہ نہ صرف سزا سے بچ گیا بلکہ اس نے وہ تمام مراعات بھی حاصل کرلیں جو مستعفی ہونے والے کسی بھی جج کو ملتی ہیں۔ تو کیا ایسا ہی ہونا چاہیے؟ کیا اس بات کی اجازت ہونی چاہیے کہ تحقیقات کا سامنا کرنے والاجج مستعفی ہو کر کارروائی سے بچ جائے؟ یہ سوال بھی پوچھا جاسکتا ہے کہ کیا یہ انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہے؟ اگر نہیں تو اسے کیوں برقرار رکھا گیا ہے؟ آئین ِ پاکستان کے مطابق تمام شہری برابر ہیں، تو کیا اس طرح کی سہولت کسی اور شہری کو بھی حاصل ہے؟ شاید نہیں۔ بلکہ ایسا بالکل نہیں ہوتا۔ اگر کسی ادارے میں کام کرنے والے فرد پر بدعنوانی کا مقدمہ چلے تو حتمی فیصلے تک وہ مقدمہ چلتا ہے۔ یہ ممکن ہی نہیں کہ وہ مستعفی ہوجائے اور تحقیقات سے اپنی جان چھڑالے۔ اس طرح استعفیٰ دینے اور سخت ناپسندیدہ پلی بارگین میں کیا فرق ہے؟ بعض وکلا کا خیال ہے کوئی فرق نہیں۔ ہاں ایک فرق ہے۔ پلی بارگین میں ملزم کو چرائی گئی رقم میں سے کچھ نہ کچھ دینا پڑتا ہے۔ جیسے اور کئی لوگوں کے علاوہ ایڈمرل منصور الحق نے بھی فرانسیسی آبدوزوں کی خریداری میں حاصل کیا گیا کمیشن واپس کیا تھا۔ یہاں شاید یوں بھی نہیں ہوتا۔ سپریم جوڈیشل کونسل کے رولز میں چند دلچسپ چیزیں بھی ہیں۔ مثلاً یہ کہ جج کے خلاف مقدمہ کی سماعت بند کمرے میں ہوگی اور عوام کے لئے کھلی نہیں ہوگی۔ اسی طرح کارروائی کی اشاعت کی اجازت نہیں ہے، تاہم کونسل کا فیصلہ شائع کیا جاسکتا ہے۔کیا عام مقدمات میں بھی ایسا ہی ہوتا ہے؟ ان دنوں تو ساری قوم کو پتہ ہے کہ ایسا نہیں ہوتا۔ نہ صرف کھلی عدالت میں سماعت ہوتی ہے بلکہ ججوں کے تبصرے بھی شائع ہوتے ہیں اور نشر بھی کئے جاتے ہیں۔ تو صرف ججوں کے معاملے میں ضابطہ مختلف کیوں ہے؟ انصاف سب کے لئے یکساں کیوں نہیں ہے؟ اور اب تک اس پر کبھی بات کیوں نہیں ہوئی؟
تمام سیاسی جماعتوں نے جنرلوں کو بھی احتساب کمیشن کے دائرہ کار سے باہر رکھنے پر اتفاق کیا ہے۔ خود فوج کا موقف بھی یہی ہے کہ ان کے یہاں احتساب کا نظام موجود ہے۔ یقیناً ایسا ہی ہوگا۔ کچھ عرصہ پہلے، بعض جنرلوں کو ملازمت پر بحال کرکے ان کا کورٹ مارشل کیا گیا تھا۔ یہ ان کے اپنے نظام ِاحتساب کا ایک عمل تھا۔ مگر پھر ہوا کیا؟ کیا اس ملک کے عوام کو یہ جاننے کا آئینی حق نہیں کہ ان لوگوں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی؟کیا انہیں بتایا گیا؟ اور یہ بھی تو ہوا ہے، حال ہی میں کہ کچھ جنرلوں کے خلاف کارروائی بہت پہلے ہوئی تھی، اس کا انکشاف کافی بعد میں کیا گیا۔ اور جاننے والے جانتے ہیں کہ اسکی کچھ وجوہات تھیں۔ فوج کو بھی احتساب کے دائرہ کار میں لانا چاہئے۔ یہ ان کیلئے بھی بہتر ہے اور ملک کے لئے بھی۔ ا طرح عوام کے علم میں رہے گا کہ فوج اپنی صفوں میں بدعنوان عناصر کو برداشت نہیں کرتی، اور اب تک اتنے لوگوں کے خلاف کارروائی کرچکی ہے۔ ان دنوں تو پتہ ہی نہیں چلتا۔ فوج کو بھی تعاون کرنا چاہیے اور احتساب کمیشن کی تشکیل اور اسے موثر بنانے میں اپنا کردار بھی ادا کرنا چاہیے۔
اس ملک کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ سب سے مقدس دستاویز، آ ئین ِ پاکستان ، کا وہ احترام نہیں کیا گیا، نہیں کیا جاتا ، جسکا وہ مستحق اور متقاضی ہے۔ سیاسی جماعتوں کو ایک بار پھر اپنے رویوں پر غور کرنا چاہیے، اور احتساب کا ایک ایسا نظام تشکیل دینا چاہیے ، جو سب کیلئے یکساں ہو، اور جو موثر ہو، اتنا کہ کوئی بدعنوان اس سے بچ کر نہ جاسکے، خواہ کوئی بھی ہو، کہیں بھی ہو۔ ان سب کو سوچنا چاہیے، انہیں مر کر اللہ کو منہ دکھانا ہے۔

تازہ ترین