• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

یہ کیا ہوگیا کراچی والوں کو۔ پہلے تو ایسے نہ تھے۔ کچھ سیدھے سادھے لوگ لی مارکیٹ،لیاری، چاکی واڑہ ، کھارادر ، میٹھا در میں بسے ہوئے تھے۔ کچھ گجراتی بولنے والے پرُامن باشندے تھے، کچھی، میمن اور بوہرے۔ کچھ انگریزوں کا زمانہ دیکھے ہوئے لوگ تھے جو خود بھی آرام سے رہتے تھے اور دوسروں کو بھی چین سے رہنے دیتے تھے۔ اور جو پارسی تھے ان کی تو بات ہی کیا، نہایت نفاست سے زندگی گزارتے تھے۔جمشید روڈ سے لگی عامل کالونی کو دیکھ کر احساس ہوتا تھا کہ یہاں کیسے ہنستے گاتے کنبے آباد رہے ہوں گے ۔ وہ تو سدھار گئے۔ سیاست نےان کی جگہ پُر کرنے کو پاجامے اور کرتے میں ملبوس اردو بولتے ہوئے وہ لوگ بھیجے جو سر شام نہا دھوکر گھر سے نکلتے تھے۔ان کا معمول یہ تھا کہ سیدھے صدر جا پہنچے ا ور الفنسٹن اسٹریٹ پر اِدھر سے اُدھر دوتین پھیرے لگائے، راہ میں کچھ آگرہ کے شناسا مل گئے کچھ رام پور کے، گرمجوشی سے علیک سلیک ہوئی اور ایرانی ہوٹل میں چھ پیسے کی چائے پی کر اپنے اپنے گھروں کی راہ لی۔ اب سوچیں تو لگتا ہے کوئی بلیک اینڈ وہائٹ فلم دھیمی چال چل رہی ہے۔ ایسے سکھی اور خوش باش شہر کو کیا ہوگیا کہ پہچانا نہیں جاتا۔ خیر ، وہ تو جو ہونا تھا وہ ہوکر رہا پر شہر پر یہ کیسی گھناؤنی چھاپ لگی ہے کہ جی متلاتا ہے۔ ایک تازہ سروے سے بڑی ہی جی کو دکھانے والی بات معلوم ہوئی ہے۔ پتہ چلا ہے کہ دنیا میں جو شہر اپنی مستورات کے لئے سب سے زیادہ خطرناک ہیں ان میں مصر کے شہر قاہرہ کے بعد دوسرا شہر ، کسی اور کا نہیں، میرا آپ کا شہر کراچی ہے۔سروے کے دوران دنیا کے سب سے زیادہ گنجان آباد انیس شہروں میں خواتین کے معاملوں کی خبر رکھنے والے ماہروں سے پوچھ گچھ کی گئی کہ ان کے ہاں خواتین خود کو کتنا محفوظ محسوس کرتی ہیں، انہیں مردوں کے رویّے سے کتنی پریشانی ہے، مرد کتنے ندیدے ہیں اور کس قدرنہ صر ف رال ٹپکاتے ہیں بلکہ موقع ملے یا نہ ملے دست درازی سے بھی باز نہیں آتے، یہی نہیں، اندھیرے اجالے میں مستورات کی عزّت پر ہاتھ ڈالتے ہوئے بھی نہیں چوکتے۔ انّیس پر ہجوم شہروں کی چھان پھٹک کے بعد تمام معلومات یکجا کی گئیں تو پتہ چلا کہ شہر قاہرہ میں تو عورتوں کے حق میں یہی بہتر ہے کہ گھروں میںبند ہوکر بیٹھی رہیںاور لوگ پھر بھی باز نہ آئیں تو گھروں کی دیواریں اونچی کرائیں ۔ یہ تو ہوئی عالم اسلام کے سب سے زیادہ آبادی والے شہر قاہرہ کی بات جہاں یہ تصور کرتے ہوئے بھی حیا آتی ہے کہ اونچے میناروں سے خوبصورت قرا ت میں اذان ہورہی ہے او رنیچے گلیوں میں مرد راہ چلتی عورتوں کو دیکھ کر آپے سے باہر ہو رہے ہیں۔ خیر، قاہرہ والوں سے خدا ہی سمجھے، مگر کراچی والوں سے کون سمجھے گا۔ عورتوں کے لئے دنیا کے سب سے زیادہ غیر محفوظ شہروں میں کراچی دوسرے نمبر پر ہے۔ ہم تو سمجھ بیٹھے تھے کہ خیر سے پڑوس کا دارلحکومت سب کو پیچھے چھوڑ جائے گا مگر اس تازہ سروے نے یہ انکشاف کیا ہے کہ دلّی تیسرے نمبر پر ہے۔ سروے کے دوران وہاں لوگوں سے پوچھا گیا کہ کیا وہاں عورتیں جنسی تشدّد کے خطرے سے محفوظ رہ سکتی ہیں؟ اس تشدّد میں آبرو ریزی، حملے اور ہراساں کرنے کی وارداتیں شامل ہیں ۔یہ وہی دلّی ہے جہاں سنہ دوہزار بارہ میں ایک لڑکی کا دامن داغ دار کرنے کی ایسی لرزہ خیز واردات ہوئی تھی جس نے ساری ہی با شعور دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا تھا۔ اس روز ایک چلتی بس میں اُس کے ڈرائیور اور اس بد بخت کے دوستوں نے ایک تنہا لڑکی کو شہر کی سڑکوں پر درندگی کا نشانہ بنایا تھا۔ اس کے بعد یہ ضرور ہوا ہے کہ میڈیا نے اور خود سرکار نے بھی تحریک چلائی ہے اور خواتین اپنے اوپر ہونے والے جنسی تشدد کی رپورٹ درج کرانے کی ہمت کرنے لگی ہیں۔ مگر کیا خاک؟ حال ہی میں ہم نے بھارت کی ایک سڑک پر دن دہاڑے ایک عورت کو جنسی تشدد کا نشانہ بنتے کچھ اس طرح دیکھاکہ راہ گیروں کا مجمع لگ گیا اور دانت نکوسے ہوئے ندیدے لوگ جیب سے کیمرے نکل کر اس اذیت ناک منظر کی ویڈیو بنا نے لگے۔ اب سنئے بھارت کے سرکاری اعداد و شمار:خبر رساں ادارے ٹامسن رائٹر فاؤنڈیشن کی اطلا ع ہے کہ حکام نے جو ریکارڈ رکھا ہے اس کے مطابق بھارت میں سنہ دو ہزار پندرہ میں ہر ایک گھنٹے کے دوران عصمت دری کی چار وارداتیں ہوئیں۔
مظلوم عورتوں کو مدد دینے والے ایک ادارے کے ترجمان نے کہا کہ دہلی میں چلتی بس میں گینگ ریپ کے واقعے کے بعد بھی جنسی تشدّد کے واقعات بڑھتے نظر آرہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس سلسلے میں جو بھی اقدامات کئے گئے ہیں وہ بھلے سہی مگر وہ کافی نہیں۔ درندہ صفت لوگ اپنی کارروائی کرتے وقت جانتے ہیں کہ وہ پکڑے نہیں جائیں گے۔ ایسے میں کوئی ا ٹھے اور تفتیش کرنے، مقدمہ چلانے اور مجرم قرار دینے اور عبرت ناک سزا دینے کا نظام نافذ کردے، یہی اس مرض کی دوا ہے۔
لندن والوں کو یہ سروے مبارک ہو۔ اس کی تحقیق کے دوران پتہ چلا کہ خواتین کے لئے سب سے محفوظ شہر لندن ہے۔ دوسرے نمبر پر جاپان کا شہر ٹوکیو ہے جو عورتوں کے لئے اگرچہ محفوظ شہر مانا جاتا ہے لیکن کہنے والے یہ بھی کہتے ہیں کہ وہاں چوری چھپے وارداتیں کر لیتے ہیں بے چارے جاپانی۔ تیسرے نمبر پر پیرس ہے حالانکہ ایک زمانے میں چٹکی لینے کے معاملے میں فرانس والوں کو کافی شہر ت حاصل تھی۔اب رہ گیا حال ہی میں سخت گیر کمیونزم سے نکل کر باہر آنے والا ماسکو۔کہتے ہیں کہ خواتین سے ایسی دوستی نبھانے والا کوئی دوسرا شہر نہیں۔ شاید روسیوں کو ابھی تک حالات بدل جانے کا پوری طرح یقین نہیں۔
پچھلے دنوں فیس بُک پر دو تصویرں نظر آئیں۔ ایک برطانیہ کی تصویر تھی جس میں ریل کے ایک ڈبے میں تین چار جوان لڑکیا ں خوش گپّیوں میں مصروف ہیں۔ ان کی ٹانگیں کھلی ہوئی ہیں۔ ذرا فاصلے پر بیٹھا ہوا ایک شخص سب سے بے خبر کچھ پڑھنے میں منہمک ہے اور لڑکیوں کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہیں دیکھ رہا ۔ اس کے پہلو ہی میں دوسری تصویر کسی خلیجی ملک کی ہے جس میں خود کو پوری طرح لباس میں ڈھانپے ہوئے ایک لڑکی گلی میں چلی جارہی ہے اور کنارے بیٹھے ہوئے تین چار عرب مرد اُسے دیکھ نہیں رہے ہیں، اسے گھور بھی نہیں رہے ہیں بلکہ صاف نظر آتا ہے کہ چشم تصور میں ا س کے پورے بدن کا ایکسرے اتار رہے ہیں۔ ایسے میںعورتوں کی وہ بد دعا یاد آتی ہے۔ اﷲ کرے ان کی آنکھیں پھوٹیں۔

تازہ ترین