• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پانامالیکس اور دبئی لیکس کے بعد اب پیراڈائز لیکس کے منظر عام پر آنے سے پاکستان سمیت دنیا بھر میں تہلکہ مچ گیا ہے۔ پیراڈائزلیکس میں سابق وزیراعظم شوکت عزیز، برطانیہ کی ملکہ الزبتھ، سابق ملکہ اُردن، امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے علاوہ ڈونلڈ ٹرمپ کے 13قریبی ساتھیوں کے نام بھی شامل ہیں۔ پیراڈائز لیکس میں ہزاروں افراد کی آف شور کمپنیوں کا انکشاف ہوا ہے۔ احتسابی عمل کا سلسلہ نواز شریف کی نااہلی پر رکنا نہیں چاہئے بلکہ بے نقاب ہونے والے تمام لوگوں کے خلاف جلد اقدامات کیے جائیں۔ قابل ذکر امر یہ ہے کہ پانامالیکس اور پیراڈائز لیکس کی طویل فہرست میں کسی بھی پاکستانی دینی جماعت کے رہنما کا نام نہیں ہے۔ پاکستان میں حکمران خاندان پہلے ہی پانامالیکس کی وجہ سے عدالتی کٹہرے میں موجود ہے اور ابھی نیب ریفرنسز کی سماعت جاری ہے۔ جمہوریت اور آئین کے تحفظ کیلئے مسلم لیگ (ن) کو بھی اب اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہوگا۔ حکمران خاندان کو عدالتوں اور معزز ججوں کے ساتھ محاذ آرائی کی بجائے احترام کا رویہ اختیار کرنا چاہئے اور عدالتی فیصلوں کو متنازعہ بنانے کے بجائے انہیں خوشدلی سے تسلیم کیا جانا چاہئے۔ اگر حکمران خود ہی عدالتی فیصلوں کا مذاق بنائیں گے تو اس سے عوام میں منفی پیغام جائے گا۔ ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی وزیراعظم کو کرپشن کے الزام میں سزا سنائی گئی ہے۔ یہ ایک اچھا فیصلہ ہے جس کے مستقبل میں بہتر نتائج نکلیں گے۔ احتساب سب کا اور بلاامتیاز ہونا چاہئے۔ مسلم لیگ(ن) کو اداروں کے ساتھ ٹکرائو کی پالیسی اختیار نہیں کرنی چاہئے۔ محض ایک شخص کی خاطر آئین میں تبدیلی کرنے سے آمریت کے دور کی یاد تازہ ہوگئی ہے۔ جمہوری حکمران بھی ذاتی مفادات کی خاطر سابق ڈکٹیٹر مشرف کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔ عدالتی فیصلوں پر تنقید اور ہٹ دھرمی کی بجائے انصاف پر مبنی فیصلوں کو قبول کیا جائے۔ ملک میں قانون کی حکمرانی ہونی چاہئے۔ سیاسی انتشار اور افراتفری سے ملک و قوم کو نقصان کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اوچھے ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے غیرجمہوری قوتوں کیلئے راہ ہموار کرنے کی سازش کی جارہی ہے۔ جمہوریت کی مضبوطی اور تسلسل کیلئے بروقت انتخابات کا انعقاد نہایت ضروری ہے۔ مختلف حیلوں اور بہانوں سے انتخابات سے فرار حاصل کرنا درست نہیں اس سے ملک میں سیاسی بحران جنم لے گا۔ کرپشن کو جڑوں سے اکھاڑ پھینکنے تک ملک میں خوشحالی نہیں آسکتی۔ 2018ءکے انتخابات میں محب وطن، پڑھی لکھی اور ایماندار قیادت کو موقع فراہم کیا جائے۔ ہر پیشی کے بعد حکمران خاندان کا لب و لہجہ سخت سے سخت ہوتا چلا جا رہا ہے۔ پاکستان میں کرپشن کے ناسور کو ختم کرنا وقت کا ناگزیر تقاضا ہے۔ کرپشن اور جمہوریت ساتھ ساتھ نہیں چل سکتیں۔ جب تک کرپشن پر قابو نہیں پایا جاتا اس وقت تک ملک میں حقیقی جمہوریت بھی بحال نہیں ہوسکے گی۔ تکلیف دہ امریہ ہے کہ الیکشن کے عمل کو اتنا مہنگا کردیا گیا ہے کہ کوئی غریب اور متوسط طبقے کا آدمی الیکشن لڑنے کا سوچ بھی نہیں سکتا۔ جن لوگوں نے ناجائز طریقے سے مال ودولت کمائی ہے ان کی اکثریت بار بار اسمبلیوں میں پہنچ جاتی ہے۔ گڈگورننس کے تمام دعوے ریت کی دیوار ثابت ہوئے ہیں۔ رہی سہی کسر قرضوں نے پوری کردی ہے۔ بجٹ کا ایک بہت بڑا حصہ قرضوں پر لگنے والے سود کی ادائیگی میں خرچ ہوجاتا ہے جبکہ عوام کو اس حوالے سے کسی قسم کا کوئی ریلیف میسر نہیں۔
ملک میں بلاتفریق سب کا احتساب ہونا چاہئے۔ قومی خزانے کو نقصان پہنچانے والے کسی قسم کی رعایت کے مستحق نہیں۔ بدعنوانی کے مکمل خاتمے کیلئے نیب کو پہلے سے زیادہ متحرک اور فعال ہونا ہوگا۔ حلقہ بندیوں کے معاملے کو بھی جلد حل کیا جانا چاہئے تاکہ وقت پر انتخابات کا عمل ممکن ہوسکے۔ ملک کو ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت انتشار کی طرف لے جایا جارہا ہے۔ موجودہ حکومت کو اپنی آئینی مدت مکمل کرتے ہوئے ملک میں بروقت انتخابات کا انعقاد کروانا چاہئے۔ جمہوریت کے تسلسل میں رخنہ ڈالنے سے غیر سیاسی قوتوں کی راہ ہموار ہوگی۔ ملک میں آئین وقانون کی بالادستی ہونی چاہئے۔ مرضی کے مطابق قانون سازی اور پورے نظام کو تلپٹ کرنا دانشمندانہ اقدام نہیں۔ کوئی بھی شخص اس قدر معتبر نہیں کہ اس کی خاطر ملکی آئین کا حلیہ بگاڑ دیا جائے۔ اشرافیہ کیلئے قانون عملاً موم کی ناک بن چکا ہے۔ پاکستان پر70برسوں سے جاگیرداروں، وڈیروں اور سرمایہ داروں کا قبضہ ہے۔ اس طبقے نے ہمیشہ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر ملکی مفادات کو قربان کیا ہے۔ عوام کی زندگی کسمپرسی کا شکار ہے اور موجودہ حکمرانوں کی ڈنگ ٹپائو پالیسیوں کی بدولت کوئی خاطر خواہ بہتری ہوتی نظر نہیں آتی۔ ملک دشمن عناصر یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان کو اندر سے کمزور کیا جائے اور اپنے عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کیلئے وہ اوچھے اور منفی ہتھکنڈے استعمال کررہے ہیں۔ پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے۔ ہمیں باہمی اختلافات کو بھلا کر ملک وقوم کے مفاد میں سوچنا ہوگا۔ محاذ آرائی سے صرف ملک دشمن قوتیں فائدہ اٹھائیں گی۔ ماضی کی حکومتوں اور موجودہ حکمرانوں کے غلط فیصلوں کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ ملکی مسائل میں بھی دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ مضحکہ خیز امر یہ ہے کہ حکمرانوں کی ناقص حکمت عملی اور ناکام پالیسیوں کی وجہ سے ماحولیاتی آلودگی نے بھی بڑے شہروں میں ہر شخص کو مریض بنا دیا ہے۔ اسموگ کی وجہ سے لوگ مختلف بیماریوں کا شکار ہورہے ہیں لیکن اسپتالوں میں تل دھرنے کی جگہ نہیں ہے۔ صحت کے حوالے سے حکومتی دعوے محض اشتہارات تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ عوام کی فلاح وبہبود کیلئے بنائے جانیوالے تمام منصوبے صرف کاغذوں تک محدود ہوچکے ہیں۔ ملک میں اس وقت اسموگ کی وجہ سے 17بجلی گھر بند ہونے کے باعث 12،12گھنٹوں کی لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے۔ تیل سے چلنے والے 13تھرمل پاور اسٹیشنز کی بندش سے 55سو اور گیس کی بندش سے 12سومیگا واٹ بجلی کی کم پیداوار ہو رہی ہے۔ کاروبار ٹھپ اور صنعتیں بند ہو رہی ہیں۔ مزدور بے روزگار اور انکے گھروں میں فاقوں کی نوبت آن پہنچی ہے۔ مہنگائی کی شرح میں ہوشربا اضافے نے غریب عوام کی زندگی اجیرن بنادی ہے۔اشیاء خوردونوش کی قیمتوں میں 25سے 30 فیصد تک اضافہ ہوچکا ہے۔ کمر توڑ مہنگائی نے عوام کی قوت خرید کو بری طرح متاثر کیا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ملک میں جاری لوڈشیڈنگ اور امن وامان کی ناگفتہ بہ صورتحال کے پیش نظر سرمایہ دار پاکستان آنے کی بجائے دوسرے ممالک کا رخ کررہے ہیں۔ جاگیرداروں، سرمایہ داروں اور وڈیروں نے پوری قوم کو 70برسوں سے یرغمال بنایا ہوا ہے۔ مراعات یافتہ طبقہ عوام کا خون نچوڑنے میں مصروف ہے۔ سودی نظام معیشت نے ملک کا بیڑہ غرق کر کے رکھ دیا ہے۔ عوام کیلئے مسلم لیگ(ن)کے دور حکومت میں جسم و جان کا رشتہ برقرار رکھنا مشکل ہوچکا ہے۔ ملک میں امن وامان کی صورتحال بھی تشویشناک دکھائی دے رہی ہے۔ چند روز قبل ڈیرہ اسماعیل خان میں بااثر افراد کی جانب سے 16سالہ معصوم بچی کے ساتھ انسانیت سوز سلوک اور لاہور میں سات سالہ بچی کو درندگی کا نشانہ بنانے کے واقعات نے ہر پاکستانی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ ذاتی دشمنی کے باعث مخالف خاندان کی بے گناہ لڑکی کو بے آبرو کر کے گائوں میں گھمانے کے روح فرسا واقعہ نے اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے۔ یہ افسوس ناک واقعہ ایک گھنٹہ تک جاری رہا مگر نہ کسی محلے دار کو آگے بڑھ کر اسے روکنے کی ہمت ہوئی اور نہ ہی مقامی پولیس بروقت پہنچی۔ المیہ تو یہ ہے کہ بچی کے ورثا تھانے رپورٹ درج کروانے بھی گئے مگر پولیس روایتی ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے ٹالتی رہی اور جب واقعہ میڈیا میں آیا تو مجرمان کے خلاف رپورٹ درج کی گئی۔ حوا کی بیٹی کے ساتھ ایسا گھنائونا سلوک کرنیوالے افراد کو سرعام موت کے پھندے پر لٹکا دینا چاہئے۔ ملک میں ظلم وجبر اور لاقانونیت کی انتہا ہوچکی ہے۔ صوبائی دارالحکومت لاہور میں بھی 7سالہ معصوم بچی کو ہوس کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا۔ ملک اور بالخصوص پنجاب میں ونی جیسی رسم سمیت ظلم وزیادتی جیسے واقعات کی روک تھام ہونی چاہئے۔ ہیومن رائٹس آرگنائزیشن کے مطابق تین ہزار سے زائد ایسے واقعات میڈیا میں آچکے ہیں جن میں خواتین اور معصوم بچیوں کے ساتھ شرمناک سلوک کیا گیا ہے جبکہ 2016میں 512سے زائد واقعات نوٹ کیے گئے۔ ویمن پروٹیکشن بل 2016سمیت بہت ساری قانون سازی تو کرلی گئی مگر عمل درآمد تاحال نہیں ہوسکا۔ ایک بین الاقوامی این جی او کے اعداد وشمار کے مطابق پاکستان میں ہر سال ایک ہزار سے زائد خواتین اور معصوم بچیاں قتل ہوتی ہیں جبکہ90فیصد خواتین کو مختلف انداز میں جنسی طور پر ہراساں کیا جاتا ہے۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ایسے دس ممالک میں ہوتا ہے جہاں خواتین اور بچوں کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے کوئی خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے جاتے۔ وطن عزیز میں سیاسی استحکام اور قومی مسائل کے حل کیلئے 2018کے بروقت انتخابات کا ہونا ناگزیر ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ حکومت آئندہ عام انتخابات کو وقت پر کروانے کیلئے کس قدر سنجیدگی کا مظاہرہ کرتی ہے؟

تازہ ترین