• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میں نے ایک مقولہ کہیں پڑھا تھا جس کے خیال کو مستعار لے کر میں کہتا ہوں کہ پاکستان ایک ایسی جگہ ہے کہ جہاں دولت حاصل کرنا شاید اتنا دشوار نہیں کہ جتنا روزی کمانا۔ میں نے دولت کمانا نہیں کہا کیونکہ اس کا باقاعدہ حساب ہونا چاہئے کہ آمدنی کے قانونی ذرائع کیا تھے۔ کس نے کیا کمال کیا کہ اس کی جھولی بھر گئی۔ مہذب ملکوں کے ارب پتی یہ بتا سکتے ہیں کہ ان کی دولت کہاں سے آئی اور اب امریکہ کے چند دنیا کے سب سے زیادہ امیر افراد جس طرح اپنی دولت کا ایک بڑا حصہ انسانی بہبود کے لئے وقف کررہے ہیں اسے بھی عالمی سطح پر دولت کی حیرت انگیز ناہمواری کے تناظر میں دیکھنا چاہئے، اقتصادی معنوں میں عدم مساوات کو جو فروغ حالیہ برسوں میں حاصل ہوا ہے اس کے منفی اثرات خاص طور پر مغربی ملکوں کی معیشت، سیاست اور معاشرت پر پڑرہے ہیں، امیر بہت زیادہ امیر ہوتے جارہے ہیں اور اسی تناسب سے غربت میں اضافہ ہورہا ہے، کچھ ایسی صورتحال ہے کہ ایک فیصد آبادی کے پاس اتنی دولت ہے کہ جتنی باقی 99فیصد کے پاس۔ یہ عالمی منظر نامہ ہے اور ہر ملک کی اپنی ایک الگ کہانی ہے، تو پھر یہ سوچئے کہ پاکستان کی کہانی کیا ہے اور اس کے اہم کردار کون ہیں اور وہ کیا کررہے ہیں۔ میری گفتگو تو پاکستان کے بارے میں ہے لیکن میں نے اسے عالمی حالات سے اس لئے جوڑا ہے کہ اس موضوع کا تازہ ترین حوالہ پیراڈائز پیپرز کا طشت ازبام ہونا ہے۔ یہ گویا پاناما پیپرز یا لیکس کا دوسرا ایڈیشن ہے اور اس میں دنیا بھر کے دولت مند افراد کی کہ جن میں سیاست داں بھی شامل ہیں ان آف شور کمپنیوں کی طویل فہرست ہے کہ جن میں دولت کو چھپاکر رکھا گیا ہے۔ کئی صورتوں میں آف شور کمپنی قائم کرنا اور اس میں سرمایہ رکھنا غیرقانونی نہیں ہے۔ سارا مسئلہ یہ ہے کہ وہ دولت کہاں سے آئی۔ ٹیکس سے بچنا جائز ہے اور ٹیکس چرانا ایک جرم ہے۔ دونوں صورتوں میں یہ ایک غیر اخلاقی عمل ہے۔پاناما پیپرز نے تو ہماری سیاست کو ہی تہ وبالا کردیا۔ نواز شریف کی نا اہلی اور اس کے بعد ان کے اور ان کے خاندان کے خلاف جو عدالتی کارروائی جاری ہے اس کا تجزیہ ہمیں کہیں اور لے جائے گا۔ پیراڈائز پیپرز میں بھی کئی اہم پاکستانی شخصیات کا نام آیا ہے اور مزید انکشافات کی توقع کی جاسکتی ہے۔ ایف بی آر نے کہ جو محصولات کا وفاقی ادارہ ہے یہ اعلان کیا ہے کہ پیرڈائز پیپرز میں جس پاکستانی کا بھی نام آیا ہے اس کے خلاف تحقیقات کا آغازکیا جارہا ہے۔ اس نوعیت کی تحقیقات نے ہمارے اداروں کو کب سے کتنا مصروف رکھا ہے ہم جانتے ہیں۔ لیکن چھپی ہوئی دولت کو ڈھونڈنا تو دور کی بات ہے جو دولت دکھائی دے رہی ہے اور جو ہماری آنکھوں کو چکا چوند کردیتی ہے اس کا حساب بھی کوئی کرتا ہے یانہیں۔ وہی بات جو میں نے شروع میں کی تھی کہ لگتا ہے کہ ایمانداری کے ساتھ ایک شریفانہ اور آرام دہ زندگی گزارنا تو بہت دشوار ہے اور ادھر ادھر دیکھیں تو کتنے ہی لوگ اپنے اپنے طریقے سے کسی لوٹ مار میں شامل ہوکر مال کمارہے ہیں۔ کرپشن کی اتنی بات ہوتی ہے مگر عوامی سطح پر بھی رشوت اور ہیر پھیر ایک عام سی بات ہے۔ ہم میں سے ہر ایک اپنے تجربات بیان کرسکتا ہے۔ ہر محکمے کی ایک الگ داستان لکھی جاسکتی ہے۔ کہیں کہیں تو رشوت کھلے عام لی جاتی ہے اور سب جانتے ہیں لیکن کوئی کچھ نہیں کرتا۔ پھر کس کے پاس کتنی دولت ہے اس کے بھی درجات ہیں۔ کہیں صرف اربوں کی بات ہوتی ہے اور جو لوگ یہ سودے کرتے ہیں ان کی بادشاہی سلامت رہتی ہے۔ سرکاری دفتروں کے درمیانے اور نچلے درجے کے اہلکار جو ہیرپھیر کرتےہیں اس سے بھی کوئی گھر یا کوئی کار خریدی جاسکتی ہے۔ ناجائز دولت کی نمائش سے معاشرے میں کئی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں۔ نفرت اور حسد کے جذبات عام لوگوں کی زندگی میں بھونچال پیدا کرسکتے ہیں۔ آپ صرف اس ذہنی اور جذباتی کیفیت کا تصورکریں کہ کوئی اصول پرست، دیانت دار شخص اس ماحول میں کیسے گزارا کرتا ہے۔ وہ اپنے خاندان اور اپنے بچوں کی ضروریات کیسے پوری کرتا ہے۔ میں نے کراچی کے سرکردہ اسکولوں کی ماہانہ فیس کے بارے میں کافی معلومات اکھٹا کی ہیں۔ متوسط طبقے کے والدین بھی اب اپنے بچوں کو ان شاندار عمارتوں والے اسکولوں میں داخل کرانے کی کوشش کرتے ہیں اور ایک بچے کی فیس 20سے 30 ہزار کے درمیان ہوسکتی ہے۔ کسی کے لئے یہ رقم بس ایک رنگین شام کی قیمت ہے اور کسی کے لئے اتنے ہی ارمانوں اور حسرتوں کا خون۔
آپ کو یاد ہوگا کہ نوازشریف اور ان کے خاندان کے خلاف سپریم کورٹ کے پاناما پیپرز کے فیصلے میں ایک معزز جج نے ’’گاڈفادر‘‘ کا حوالہ دیا تھا۔ وہ بات کچھ یوں تھی کہ ہر بڑی دولت کے پردے میں کوئی جرم چھپا ہوتا ہے۔ بڑی حد تک یہ بات دل کو لگتی ہے۔ البتہ بل گیٹس جیسے کرشمہ سازوں اور ایجادی سوچ رکھنے والے صنعت کاروں اور سودا گروں کا معاملہ الگ ہے۔ تو پھر بڑی دولت تو ہمارے معاشرے میں کافی دکھائی دیتی ہے۔ تعداد کے اعتبار سے یہ دولت مند پوری آبادی میں نمک کے برابر ہونگے۔ لیکن اگر آپ ڈیفنس جیسے رہائشی علاقوں کا ایک چکر لگائیں اور دیکھیں کہ کتنے لوگ کیسے گھروں میں رہتے ہیں تو پھر دولت اور جرم کے تعلق کا جھنجھنا آپ کے ذہن میں مسلسل بجتارہے گا۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ مخصوص لوگ تو اتنے امیر ہیں اور جس ملک کے حالات کو اپنے مفاد میں استعمال کرکے انہوں نے یہ دولت سمیٹی ہے وہ تو غریب ہی سمجھا جاتا ہے ۔ اس تصویر کا دوسرا رخ ہمارے اداروں کی مفلسی ہے۔ میں ایک مثال دیتا ہوں۔ ہمارا نظام عدل تو ایک کھنڈر ہے لیکن ہمارے بڑے وکیل محلات میں رہتے ہیں اور کبھی کبھی تو کیس ہارنے کی فیس بھی کروڑوں میں وصول کرتے ہیں۔ تعلیم کے شعبے میں ہمارا حال کچھ بھی ہو، نجی اور معیاری تعلیم فراہم کرنے والا شاید دنیا کا سب سے بڑا ادارہ پاکستانی ہے۔ ہر طرح کے تضادات ہمارے سامنے کھڑے ہمارا راستہ روک رہے ہیں۔ دولت مندوں کے جزیروں کے اطراف مفلسی کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ان میں ایک نمایاں حیثیت رکھتا ہے۔ اگر احتساب کا تقاضایہ ہے کہ آمدنی سے زیادہ اثاثے رکھنے والے تمام افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے تو یہ کام کسی طرح ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ قانون کی حکمرانی اتنی کمزور ہوتی جارہی ہے کہ سمجھ میں نہیں آتا کہ کون کس کا کیسا احتساب کرے گا، جس طرح دولت کسی کے پاس بہت ہے اور کسی کے پاس بالکل نہیں اسی طرح حالات کو تبدیل کردینے کی طاقت کسی کے پاس تھوڑی بہت ہے اور کسی کے پاس بالکل نہیں۔ یہ مانتے ہوئے کہ مالی ناہمواری یا عدم مساوات دنیا بھر میں ہے پاکستان میں اس کی نوعیت مختلف اور زیادہ مہلک ہے۔ وہ اس لئے کہ سماجی انصاف کا کوئی نظام موجود نہیں ہے۔ اس معاشی عدم مساوات کی ایک ایسی بنیاد بھی ہے کہ جس کا ذکر مجھے کسی اور موقع پر کرنا ہوگا۔ اور وہ ہے سماجی عدم مساوات۔ یہ اونچ نیچ کا معاشرہ ہے جس میں سب انسان برابر نہیں ہیں۔ تو کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کے پاس دولت نہیں ہے اس کے پاس عزت بھی نہیں ہے؟

تازہ ترین