• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کا داخلی اور خارجی بحران ان الفاظ کی بازی گری یا دلائل کی پرکاریوں سے نہ چھپایا ،نہ ٹالا جاسکتا ہے۔یہ بحران ہمہ گیر ہے۔ اس کی قریب قریب تکمیل ہوچکی ہے۔ جو بھی اس کے ذمہ دارتھے وہی آج بھی اس کے ذمہ دار ہیں، ان کے ساتھ جن لوگوں نے ملک کی اس زوال پذیری میں حصہ ڈالا وہ آج بھی ان کے حصہ دار ہیں۔ زندگی کے ہر شعبے پر اس قاعدے کلیے کا اطلاق کیا جاسکتا ہے۔ جن افراد یا جماعتوں کواپنی غلطیوں کا احساس ہوا وہ البتہ کشمکش کا سامنا کررہی ہیں۔ وہ تلافی ٔ مافات کرنا چاہتے ہیں کر نہیں پارہے۔ جیسے اس وقت پاکستان کے اہم سیاسی رہنما نواز شریف اور ان کی جماعت کا معاملہ ہے!
طاقت کے زورپر آپ کسی صوبے کے حالات کو من مانی تفسیر کا رنگ دے سکتے ہیں، حق گو لوگوں یا قلمکاروں کا قافیہ تنگ کرسکتے ہیں، بیرونی ممالک میں اس صوبے کے حوالے سے حد درجہ حقیقی اور وحشت انگیز خبروں کو حب الوطنی اور مذہب پرستی کے طے شدہ فارمولوں کی سان پر چڑھا سکتے ہیں لیکن پانی میں کانا وہیں رہے گا۔ کسی ملک میں آپ کا ہائی کمشنر کہے گا ’’جن لوگوں نے یہاں کی سڑکوں پر پاکستان کی سلامتی کے خلاف بینر کا کاروبار کیا ہے ہم انہیں سیدھا کردیں گے۔‘‘ لیکن وہاں کی حکومت کے کسی ترجمان کا بیان یہ ہوگا ’’ہم مسئلہ کا جائزہ لے رہے ہیں‘‘ صوبہ ویسا ہی رہے گا۔ اس کی سلامتی کولاحق خطرات کے قدوقامت میں اضافوں کی رفتار کوبھی کوئی فرق نہیں پڑے گا۔
آپ افغانستان سے روس کو نکالنے کے لئے، مذہب کی مقبول عام تفسیر و تعبیر کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں، 80ء کی دہائی میں آپ اس طریقے کے سامنے کسی صاحب ِ نظر، صاحب ِ ایمان کوبولنے کی جرأت سے محروم کردیتے ہیں لیکن 2017کی سول حکومت کا وزیر خارجہ عالمی برادری کے سامنے یہ کہنے پرمجبور ہوجاتا ہے :’’1980میں امریکی پراکسی بننا غلط تھا۔ آج اس کا خمیازہ بھگت رہے ہیں۔ میں اتفاق کرتاہوں، ہمیں ابھی مزید اقدامات کرنا ہونگے۔ بوجھ سے جان چھڑانے کے لئے وقت چاہئے۔ سوویت یونین کے خلاف جنگ میں حصہ بننا غلط فیصلہ تھا۔ ہمیں استعمال کیا گیا۔ یہ لوگ 25برس قبل امریکی لاڈلے اوروائٹ ہائوس میں دعوتیں اڑایا کرتے تھے۔‘‘ آج پاکستان بطور وطن اور بطور معاشرہ جس اجتماعی اور انفرادی مذہبی وحشت گردانہ فلسفوں اوررویوں کی دلدل کا قیدی ہے۔ بتایئے اس قومی تباہی کی اصولی اور بنیادی ذمہ داری کا کس پر اطلاق کیا جائے؟ پاکستان کی داستان میںایسے ابواب کا اندراج اکتوبر 1958سے پہلے ہی شروع کردیاگیا تھا۔ اکتوبر 1958تو اس غیرقومی کتاب کی اشاعت کا پہلاایڈیشن تھا۔ سابق چیف جسٹس افتخارمحمد چوہدری کی ’’عظیم بحالی‘‘ کے بعد پنجاب کے وکلا نے نظام عدل کی جس عظمت کے میناروں سے چار وانگ عالم میں بسنے والوں کو متعارف کرا دیا اب اس تعارف سے واپسی کی قیمت کا پتا چل جائے گا۔ آخر عدالتوں کے کمروں میں منصفوں کو چاروں شانے چت کرنے کے مظاہروں اور صحنوں میں پولیس اہلکاروں کو ٹھڈوں سے مارنے کی صدائیں اپنا خراج وصول کئے بغیر پاکستان کی دھرتی کا پیچھاکیوں چھوڑ دیں گی۔ کیا اس سلسلےمیں مکافات عمل کا قانون نعوذ باللہ معطل ہو گیا ہے؟
کیا 2017تک پہنچتے پہنچتے پاکستان کے زیر مقدمات رہنما اوراس کی جماعت کے الفاظ اس مکافات ِ عمل کی صدائے بازگشت نہیں؟ ’’ن‘‘ لیگ کے منتخب صدر اورزیر مقدمات سابق وزیر اعظم محمد نواز شریف کا کہنا ہے، ’’جج صاحبان بغض سے بھرے بیٹھے ہیں۔ معلوم تھا فیصلہ میرے خلاف ہی آئے گا۔ ججز کی جانب سے جو الفاظ استعمال کئے گئے وہ تاریخ کا سیاہ باب بنیںگے۔ 70سال میں کئی سیاہ اوراق لکھے گئے۔ عدالت کا یہ فیصلہ بھی سیاہ حروف میں لکھاجائے گا۔ہر ریفرنس کے لئے ہمیں صرف ڈیڑھ ماہ کا وقت ملے گا۔‘‘
پاناما نظرثانی درخواست کے پانچ رکنی بینچ کا فیصلہ جسے جسٹس اعجاز افضل نے تحریر کیا۔ اس پر ’’ن‘‘ لیگ کا ردعمل کیا ہے؟ تاریخ کا ریکارڈ رکھنا ناگزیر ہوتا ہے چنانچہ ’’ن‘‘ لیگ کا اعلامیہ بھی پیش خدمت ہے۔ ’’پاکستان مسلم لیگ کا یہ اجلاس عدالت ِ عظمیٰ کے پانچ رکنی بینچ کی طرف سے جاری نظرثانی درخواست کے تفصیلی فیصلے میں لکھے گئے انتہائی نامناسب ریمارکس کو مسترد کرتا ہے۔
پاکستان کے مقبول ترین رہنما، سب سے بڑی سیاسی جماعت کے قائد اور تین بار وزارت ِ عظمیٰ کے منصب پر فائز رہنے والی قومی شخصیت کے بارے میں جو کچھ کہا گیا ہے وہ کسی بھی سطح کی عدالتی زبان پر پورا نہیں اترتا۔ آئینی اور قانونی ماہرین کی رائے کے مطابق بینچ نے اس فیصلے کے ذریعے نہ صرف ذیلی عدالتوں پر اثرانداز ہونے کی کوشش کی ہے بلکہ اپیل کا فیصلہ بھی ابھی سے سنا دیا ہے۔ یہ فیصلہ اول سے آخر تک بغض، عناد، غصہ اور اشتعال کی افسوسناک مثال ہے۔ شاعری کا سہارا لیتے ہوئے رہبری کا سوال اٹھایا گیاہے۔ قوم جانتی ہے کہ رہبری کرنے والوں نے ہی پاکستان بنایا اور اس کے لئے قربانیاں بھی دیں۔ انہو ںنے ہی اس ملک کو ایٹمی طاقت بنایا، انہوں نے جیلیں کاٹیں، وہ پھانسی چڑھے، وہ جلاوطن ہوئے، وہ نااہل قرار دیئے گئے، 70سال پر پھیلا ہوا سوال ’’رہبری‘‘ کا نہیں’’منصفی‘‘ کا ہے۔ رہبر تو آج بھی سزا بھگت رہےہیں، پیشیاں بھگت رہے ہیں، بتایا جائے کہ رہزن کہاں ہے؟ نواز شریف اور ان کے خاندان نے کسی تذبذب کے بغیر عدالتی فیصلوں پرعمل کیا لیکن ان کے بارے میں سیاسی حریفوں کے جلسوں جیسی زبان برداشت نہیں کی جاسکتی۔ عدلیہ جیسے مقدس ادارے کے لئے نواز شریف کی جدوجہد تاریخ کا حصہ ہے۔ مسلم لیگ ’’ن‘‘ آئندہ بھی ایک آزاد اور آئین کے تحفظ کی علمبردار عدلیہ کے لئے اپنا کردار ادا کرتی رہے گی لیکن مقدس عدالتی منصب کو بغض و عناد کے تحت سیاسی شخصیت بلکہ کسی بھی پاکستانی کی کردار کشی کے لئے استعمال کرنے کو ’’عدلیہ کی آزادی‘‘ کے لبادے میں نہیں چھپایا جاسکتا۔ پاکستان کی 70 سالہ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو بینچ کے پیش کردہ شعر میں ایک لفظی تبدیلی صورتحال کی صحیح ترجمانی کرے گی؎
تو اِدھر اُدھر کی بات نہ کر یہ بتا قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری ’’منصفی‘‘ کا سوال ہے!
یاد رہے نظرثانی درخواست کے فیصلے کا اختتام اس شعر پر کیا گیا تھا؎
تو اِدھر اُدھر کی بات نہ کر یہ بتا قافلہ کیوں لٹا
مجھے رہزنوں سے گلہ نہیں تیری رہبری کا سوال ہے!
کیا ’’ن‘‘ لیگ عدلیہ کے سامنے آچکی؟ جیسا کہ ایک ٹی وی گفتگو میں سابق اٹارنی جنرل نے کہا ، یا ویسے اپنے اعلامیے کے اختتام پر جماعت نے حساب برابر کیا ہے؟ پاکستان کی تاریخ میں فیصلوں کے طویل مدتوں بعد تاریخ کی رائے جو زیربحث آئی فیصلوں کے ساتھ ساتھ تاریخ نہیں لکھی گئی اب یہ لکھی جارہی ہے۔ یہ ہے عدل کے اداروں کا وہ نقطہ معکوس جس کا چیف جسٹس آف پاکستان نے اظہار کرتے ہوئے کہا: ’’کیا یہ تنقید حب الوطنی ہے؟‘‘
ایم کیو ایم کی سیاسی دُھلائیوں اور سیاسی خواریوں کی شوٹنگوں کے ذکر پر وزیراعلیٰ سندھ نے ایک مصرع پڑھا، ’’کس نام سے پکاروں، کیا نام ہے تمہارا؟‘‘ وزیراعلیٰ سندھ کے اس شعری استعارے کاہم پاکستان کی تاریخ کے ترازو میں رکھ کر جواب دیتے ہیں: یعنی ’’ہم بتاتے ہیں کس نام سے پکاریں، کیا نام ہے اس کا‘‘ وہ نام ہے ’’طاقت‘‘ا ور پکارو بھی اسی نام سے!

تازہ ترین