سابق وزیر اعظم میاں نواز شریف کے کالج ٹیچر ،نامور ادیب، مزاح نگار، مشکور حسین یاد 92برس کی عمر میں انتقال کر گئے، ان کی نماز جنازہ پیر بعد نماز ظہر محمدی مسجد، حالی روڈ، گلبرگ لاہور میں ادا کی جائے گی۔
مشکور حسین یاد کو ان کی خدمات کے اعتراف میں صدارتی ایوارڈ سے بھی نوازا گیا ہے، وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف کی استاد بھی رہے۔
مشکور حسین یادمشرقی پنجاب کے علاقے حصار میں 11 ستمبر 1925 ء کو پیدا ہوئے، لکھنے پڑھنے سے انہیں دلچسپی تھی چنانچہ پہلے ایک ہفتہ وار اخبار پکار کی ادارت سنبھالی پھر راشننگ کے محکمے میں انکوائری افسر ہوگئے لیکن جلد ہی اس محکمے کو چھوڑ کر مزید تعلیم جاری رکھنے کے لیے ڈسٹرکٹ بورڈ ہائی اسکول میں انگریزی کے استاد بن گئے۔
ابھی ایک ماہ بھی نہ پڑھایا تھا کہ اگست 1947ء میں مسلمانوں کا قتل عام شروع ہوگیا، والد صاحب کے علاوہ ان کی ماں، بیوی، بیٹی اور بھائی اور دوسرے قریبی عزیز شہید ہوئے۔
آزادی کی راہ میں اتنی بڑی قربانی دے کر نومبر 1947ء میں مشکور حسین یاد لاہور پہنچے، 1955ء میں اردو میں ایم اے کیا اور 1960ء میں گورنمنٹ کالج لاہور میں تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوگئے۔
مشکور حسین یاد کی نثری تصانیف میں آزادی کے چراغ، جوہر اندیشہ، دشنام کے آئینے میں، بات کی اونچی ذات، اپنی صورت آپ، لاحول ولا قوۃ، ستارے چہچہاتے ہیں، مطالعہ انیس کے نازک مراحل ، میں اْردو ہوں، غالب نکتہ جو، وقت کا استخارہ، ستم ظریف اور ممکنات انشائیہ اور شعری مجموعوں میں پرسش، پرداخت، برداشت، عرضداشت اور نگہداشت شامل ہیں۔
مشکور حسین یاد ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے، گورنمنٹ کالج لاہورمیں وزیر اعظم محمد نواز شریف کے استاد رہے۔
یاد صاحب شاعر، ادیب، محقق، مزاح نگار اور طنز نگار کے طور پر جانے جاتے رہے،اردو ادب کے لیے ان کی خدمات قابل صد تحسین ہیں۔
مرحوم کی 60سے زیادہ کتب شائع ہو چکی ہیں، سید ضمیر جعفری ان کے انشائیوں کے بہت بڑے مداح تھے۔