• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کہیں تو جا کے رُکے قافلۂ غمِ دل۔ نہ نشانِ راہ نہ منزل کا دُور دُور تک نشاں۔ بس تاریخ کی خزاں کے سائے ہیں کہ بڑھتے جاتے ہیں۔ جدھر نظر ڈالو، تو بقول فیض لوٹ جاتی ہے اُدھر کو بھی نظر کیا کیجے، ’’کچھ بھی تو ٹھیک نہیں چل رہا۔‘‘ یہ ہیں الفاظ چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کے جو ’’اداروں کی غیرآئینی مداخلت‘‘ پر نوحہ کناں۔ وفاقی اکائیوں کے ہاؤس کے پاسبان کو نہ صرف وفاق کی فکر کھائے جا رہی ہے بلکہ جمہوری نیّا بھی ڈولتی نظر آ رہی ہے۔ اداروں میں جاری اس ’’خانہ جنگی‘‘ میں غریب پارلیمان کی بالادستی کی آہ و فغاں چہ معنی دارد! ایسے میں داد دینی چاہیے عدالتِ عظمیٰ کے صبر و استقلال کی کہ اپنی بے توقیری پہ مغفرت کے لیے دُعاگو ہے۔ (آمین) جب سیاست اور عدالت برسرِپیکار ہو جائیں تو نرگس اپنی بے نوری کا ماتم نہ کرے تو کیا؟ جب دستارِ انصاف بغض میں جل بھُن جائے تو کسے وکیل کریں اور کس سے منصفی چاہیں کی آہ و فغاں پہ کفِ افسوس ملے تو کون؟ سیاستدانوں کی کوئی کل سیدھی ہوتی تو بھی کوئی رستہ نکل سکتا تھا اور کوئی تو ہوتا جو چیئرمین رضا ربانی کی دیدہ دری کی داد دیتا۔ سیاسی جماعتوں اور قومی اداروں میں مکالمے کی بروقت بات بھی محض نقارخانے میں طوطی کی آواز بن کے رہ جائے تو جمہوریہ کی بے توقیری کون روک سکتا ہے۔ ایسے میں ’’نادیدہ قوتوں‘‘ کو آئینی بے وقاری کے فقط طعنے دینے سے بھلا آئینی پاسداری کا اہتمام کبھی ہوا ہے۔ کبھی سنا کرتے تھے اور کہا بھی کرتے تھے کہ تاریخ عوام بناتے ہیں، لیکن یہ بھول کر کہ ویسی نہیں جیسے عوام نے سوچی تھی۔ مملکتِ خداداد میں جہاں اللہ تعالیٰ مقتدرِ اعلیٰ ہوں، کوئی دُعا کرے بھی تو جانے آسمانوں کے کن اندھیروں میں گُم ہو کر رہ جاتی ہے۔ اور جنہیں رسمِ دُعا بھی یاد نہ ہو وہ ہاتھ اُٹھائیں بھی تو کیا حاصل۔
بس! کٹھ پُتلی تماشہ دیکھا کیجئے۔ اور اتنا مضحکہ خیز جس کی ایک جھلک ایم کیو ایم پاکستان کی گناہوں کی بخشش کی اُمید میں پاک سرزمین پارٹی سے ’’جبری شادی‘‘ کی صورت نظر آئی بھی تو ڈولی اُٹھنے سے پہلے ہی بیچ چوراہے بے آبرو ہوئی۔ بیچارے چُھٹ بھیئے فاروق ستار پہ جو بیتی وہ سب نے دیکھی۔ گھر بسا نہیں تھا کہ اُچکے گلے پڑ گئے۔ بھلا جو رشتے آسمانوں میں طےہوں، اُنہیں ہونے سے کون روک سکتا ہے اور بھائی لوگوں سے زیادہ اس راز سے کون واقف ہے، جو پیدا ہی سازش کے بطن سے ہوئے تھے، تو پھر ایک اور ’’سازش‘‘ سے اختتام پہ پہنچنے میں کیا امر مانع۔ بھائی لوگ تو سندھ میں شہری آبادی کے اکثریت میں ہونے پہ بھی راضی نہیں تو کمال بھائی کو سندھ کی گدی ملے بھی تو انہیں سروکار کیوں ہو؟ یہ ایسے ہی ہے کہ کلیم کوئی داخل کرے اور مال مسروقہ کوئی اور لے اُڑے۔ اسے کہتے ہیں اُلٹے بانس بریلی کو! اس پر ہمارے جگری پیپلیؤں کو بغلیں بجاتے دیکھا کئے۔ ان احمقوں کو کوئی کیا سمجھائے کہ یہ سب کرتبانی آپ کے لئے کی جا رہی ہے کہ سندھ واقعی بھٹوز کا محض مزار بن کے رہ جائے جہاں جیالے بس آنسو بہایا کریں۔ ہمارے چالاک دوست آصف زرداری خوب جانتے ہیں، اسی لئے تو وہ نواز شریف کی اداروں کے خلاف ’’ملک دشمنی‘‘ پر اتنا چلّا رہے ہیں کہ کمال ستار پگارہ میل سے کام بننے والا نہیں۔ میں جو ہوں! لیکن، حضور بکرے کی ماں کب تک خیر منائے گی سے تو آپ آگاہ ہی ہوں گے اور جمہوری متبادل سے مفر آپ کو کم مہنگا نہیں پڑنے والا۔ تیل دیکھیں اور تیل کی دھار!
سندھ میں جاری پُتلی تماشے کا بھید تو ہر کسی کو معلوم، یہ جو قومی المیاتی کھیل چل رہا ہے، اُس پہ نظر کی ضرورت ہے۔ اقامہ میں برطرفی تو محض جھلک تھی اُس عتاب کی جو ابھی نازل ہوا چاہتا ہے۔ عوام کہتے ہیں شیر بن شیر، تمہیں تین بار اس لیے منتخب نہیں کیا تھا کہ دُم دبا کے بھاگ جاؤ۔ لیکن شیر بھیڑوں کے گلے کی اگوائی کرے تو کیسے؟ بھیڑیں تو گھڑ بردار چابک زن کی چوٹ سہنے سے رہیں جب شیروں کے ٹبر میں ہی دم دبا کے بھاگ نکلنے والوں کی کمی نہ ہو۔ اب شیر ہے اور بوڑھی شیرنی کی شیرنی جن پر بھاگنے کے تمام راستے بند ہو چکے۔ طبلِ جنگ کبھی کا بج چکا۔ پہلے بھی ایسے ہو چکا۔ اب کے حالات ویسے بُرے نہیں جیسے مشرف کے ہاتھوں ہوئے تھے۔ مقتدرہ میں زیادہ نہیں تو آدھے پہ تو ابھی بھی میاں کا سکّہ چل رہا ہے۔ منصفی کے شعر کے بعد ڈرامے کا رنگ بھی بغض کے ہاتھوں پھیکا پڑتا جا رہا ہے اور جس ڈھرے پہ یہ چل رہا ہے اُس کے پلّے کوئی توقیر بچنے کو نہیں۔ بھلے گاڈ فادر ناول سے متاثرہ کردہ کیسی ہی طمطراق سے حدیبیہ کے پرانے کھاتے کھولیں ۔ سویلین کی باہم جوتم پیزاری میں کسی کی ناک کٹنی ہے تو کسی کی دُم۔ اور بلّا دُور بیٹھے تماشہ دیکھا کرے۔ تگڑے لوگوں کو بھی پتہ ہے کہ چاروں اور سے خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں اور بھان متی کے کنبے میں خلفشار مچنے اور مچانے کا فائدہ مملکتِ خداداد کو ہونے سے رہا۔ کوئی سمجھائے تو کیسے کہ اوقات نہیں ہے۔ جب وقعت کے معنی بدل جائیں تو مغنی کو کون سنے۔ ہائے! یہ دن ہی دیکھتے دیکھتے آنکھیں بس اب پتھرا سی گئی ہیں۔
یہ بپتا تو کئی بار بیت چکی ہے۔ اس کی وہی پرانی کہانی ہے اور مختلف کردار ویسی ہی پرفارمنس دہراتے نظر آتے ہیں۔ لیکن، اس بار ڈرامے کا ڈراپ سین ڈرامائی ہونے نہیں جا رہا کہ گھڑ سوار اپنے حربی گھوڑے سے اُترنے پہ مائل نہیں کہ بیرونی خطروں سے نپٹنے سے فرصت نہیں یا پھر پیشہ ورانہ جھجک آڑے ہے۔ ویسے بھی مسئلہ تو ایک پاپولر پرائم منسٹر سے خلاصی پانے کا تھا اور عباسی بچہ سقہ سے جیسے چاہتے ہیں خوب کام چل رہا ہے۔ سچ مچ کے اداراتی گورنس کے ماحول میں۔ بس فکر ہے تو اتنی کہ جس سے خلش تھی وہ خلفشار پیدا نہ کر دے۔ مقصد کام چلانا ہے اور سیاسی انجینئرنگ کے ناکام تجربات کے باوجود اتنی استعداد تو ہے کہ کوئی چیلنجر اُبھر کر سامنے نہ آئے اور جو آئیں بھی تو دُم دباتے آئیں۔ اور آمنا و صدقنا کا ورد کرتے ہوئے اور سلامتی کے بڑھتے ہوئے تقاضوں کو پورا کرنے پہ ہمہ وقت تیار۔ سلامتی کا جو خطرہ درپیش ہے، اُسے پسپا کرنے کو ہر کوئی تیار ہے۔ محترم چیف جسٹس صاحب نے حُب الوطنی کا سوال بلاوجہ تو نہیں اُٹھایا اور آصف زرداری نے قومی سلامتی کو درپیش خطرے کو جس طرح بھانپا ہے، اُس کی آخر کوئی تو وجہ ہوگی۔ لیکن دل کا کیا کریں جو مانتا ہی نہیں۔ دال میں کچھ کالا کالا تو ہے۔
ایک پاپولر لیڈر میاں نواز شریف کا تو تیا پانچا ہوتا دِکھ رہا ہے، تو کوئی کسی اور پاپولر لیڈر کا عذاب جھیلنے پہ کیوں مائل ہو۔ آخر نواز شریف کو پال پوس کے بڑا اس لئے کیا تھا کہ وہ اُنہی پہ غرائے جنہوں نے اُسے بڑے منصب پہ پہنچایا تھا۔ اب اس ملک میں کوئی سیاست نہیں رہ گئی، سوائے اس کے کہ نواز شریف کو کیوں نکالا، ٹھیک نکالا یا پھر غلط نکالا۔ اس سیاست کے بڑے زور دار نقیب ہمارے مقبول کپتان ہیں جنہوں نے کرپشن کے مُدے پر اپنے کسی حریف کے پلے کچھ نہ چھوڑنے میں کوئی کسر اُٹھا نہیں رکھی۔ لیکن سب کے احتساب کے معاملے پہ نہ بلاول بھٹو اور نہ عمران خان بیچارے فرحت اللہ بابر کے ساتھ کھڑے ہوئے۔ اور غریب سینیٹر کو احتساب قانون کی کمیٹی سے استعفیٰ دیئے بنا چارہ نہ رہا۔ عمران خان کی اللہ نے خوب سنی۔ بڑے حریف سے لڑے بنا اُسے مات دلوا دی۔ لیکن میدان اس لیے خالی نہیں کرایا گیا کہ عمران خان دندناتا ہوا اقتدار پہ قابض ہو جائے جو کسی بھی پاپولر لیڈر کے مقدر میں نہیں۔ پاپولر لیڈر کی قسمت میں پھانسی ہے، بیچ چوراہے شہادت ہے یا پھر بے وقار برطرفی۔ معاملات صرف بچوں سقوں کے ساتھ ہی چل سکتے ہیں، اب بھی چل رہے ہیں اور آئندہ بھی۔ اور قافلۂ غمِ دل، کہیں رُکنے کو نہیں!

تازہ ترین