• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خطے میں رونما ہونے والے موسمی تغیرات کے باعث بارشوں میں کمی اور گلیشیروں کے سکڑنے سے پانی کی مقدار میں مسلسل کمی واقع ہو رہی ہے دوسری طرف بھارت سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مشرقی دریاؤں کے پانی سے پاکستان کو محروم کرنے کے درپے ہے، یہ صورت حال مستقبل کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے۔اس کے باوجود دریائے سندھ پر کالا باغ ڈیم کا منصوبہ کم و بیش 20سال سے سرد خانے میں پڑا ہے۔ اس حوالے سے خیبر پختونخواہ کے سرکردہ سیاستدان سلیم سیف اللہ کا کہنا ہے کہ اس منصوبے کو مشترکہ مفادات کونسل میں پیش کئے جانے کی تجویز کے ہمارے صوبے کے کئی ارکان اسمبلی مخالف ہیں جبکہ مشترکہ مفادات کو نسل ہی اس پر سیر حاصل بحث کر کے صوبوں میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی مجاز ہے۔ افہام و تفہیم کا یہ عمل چاروں صوبوں میں پائے جانے والے خدشات اور خوف کو کم یا ختم کر سکتا ہے اور پیش کی گئی تجاویز کی روشنی میں کالا باغ ڈیم منصوبے میں مطلوبہ تبدیلیاں کرکے تعمیر کا آغاز کیا جاسکتا ہے۔ لہٰذا کالا باغ ڈیم کے معاملے کو مشترکہ مفادات کونسل میں زیر بحث لانے کی مخالفت کا کوئی جواز نہیں۔ دوسری طرف سری نگر میں شدید خشک سالی کی وجہ سے دریائے جہلم میں پانی کی کمی گزشتہ 60برس کی ریکارڈ سطح پر آگئی ہے اور اس کا اثر منگلا ڈیم پر براہ راست پڑ رہا ہے جوکہ بجلی اور پانی دونوں کے بحران کی زد میں ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق گلیشیرووں کے پگھلنے سے قدرتی طور پر محفوظ ذخائر میں پانی کی 23 فیصد کمی واقع ہوچکی ہے جبکہ آبادی میں اضافہ اور لوگوں کا طرز زندگی بلند ہو جانے سے گھریلو سطح پر پانی کا استعمال کئی گنا بڑھ گیا ہے۔ 1960ءکی دہائی تک پورے گھر میں پانی کا ایک ہی نل ہوا کرتا تھا لیکن اب ان کی تعداد کئی گنا ہوچکی ہے۔ گرمی کا موسم جو عموماً مئی میں شروع ہو کر ستمبر میں ختم ہو رہا تھااس سال مارچ سے چلا آرہا ہے اور ابھی تک پنکھے چل رہے ہیں۔ یہ صورت حال پوری قوم کیلئے لمحہ فکریہ ہے اسلئے سردست کالا باغ ڈیم کو غنیمت جانتے ہوئے اس کی تعمیر فوری شروع کی جانی چاہئے اور مزید چھوٹے بڑے ڈیم بنانے کی فکر کی جانی چاہئے ۔

تازہ ترین