• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کے مختلف حصوں خصوصاً پنجاب میں اسموگ کا راج ہے، آلودہ دھند نے معمولات زندگی معطل کر دئیے ہیں، چند قدم کے فاصلے پربھی کچھ دکھائی نہیں دے رہا، لوگوںکوآمدورفت میں شدید مشکلات درپیش ہیں، حادثات میں کئی قیمتی جانیں ضائع ہو چکی ہیں۔ جہازوں اور ٹرینوں کی آمدورفت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ موٹرویزاور اہم شاہراہو ں پر حفاظتی اقدامات کے تحت صرف مخصوص اوقات میں سفر کی اجازت دی جا رہی ہے۔ لوگ آنکھوں میں جلن اور سانس سمیت مختلف بیماریوں کا شکار ہو رہے ہیں۔ اسموگ کی وجہ سے ٹرانسیمشن لائنوں میں ٹرپنگ سے طویل لوڈ شیڈنگ جیسے مسائل کا بھی سامنا ہے، محکمہ موسمیات کے ماہرین نے پاکستان میں اسموگ کے پھیلاؤ کا ذمہ دار بھارت کو قراردیا ہے جہاں کسان فصلوں کی کٹائی کے بعد کھیتوں میں آگ لگا دیتے ہیں جس کا دھواں فضا میں موجود حد سے زیادہ آلودگی کے ساتھ مل کراسموگ میں ڈھل جاتا ہے جو ہواؤں کے ساتھ پاکستان میں داخل ہوتا ہے اور یوں پاکستانی عوام بھی بھارتیوں کے کئے کی سزا بھگتتے ہیں۔ پاکستان تقریباً پانچ سال سے اسموگ سے متاثر ہو رہا ہے جبکہ گزشتہ سال سے صورتحال بتدریج بدترین ہوتی جا رہی ہے لیکن اس پر قابو پانے کیلئے کوئی موثر انتظامات یا پالیسی تشکیل نہیں دی جا سکی اورتمام تر انحصار موسمیاتی تبدیلی پر ہی ہے۔ اس بار بھی ماہرین موسمیات نے رواں ہفتے سے شروع ہونے والی بارشوں کو اسموگ کی آفت سے نجات کیلئے رحمت خداوندی قرار دیا ہے۔ ماحولیاتی اسموگ کا ذمہ دار توبھارت کو ٹھہرا دیا گیا ہے لیکن پاکستان کو آج کل سیاسی اسموگ کا بھی سامنا ہے جس میں نہ کچھ واضح دکھائی دے رہا ہے اور نہ ہی کچھ سجھائی دے رہا ہے،اس کا ذمہ دار کسے ٹھہرایا جائے گا۔ حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے میں پونے سات ماہ باقی ہیں لیکن سیاسی ماحول اتنا کثیف ہو چکا ہے کہ وزیر اعظم سمیت کسی کو یقین نہیں ہے کہ موجودہ اسمبلیاں مقررہ مدت پوری کر پائیں گی یا نہیں۔ سیاسی اسموگ اتنی گہری ہوتی جا رہی ہے کہ ارباب اختیار یہ باور نہیں کرا سکتے کہ جمہوری طریقہ کار کے مطابق طے شدہ شیڈول کے تحت مارچ میں سینیٹ کے الیکشن منعقد ہو پائیں گے۔ مردم شماری کے نتائج اور نئی حلقہ بندیوں کے معاملے پر سیاسی جماعتوں میں پائے جانے والے اختلافات سیاسی منظرنامے کو اس حد تک دھندلا چکے ہیں کہ الیکشن کمیشن سمیت کوئی اعتماد سے نہیں کہہ سکتا کہ حکومت کی آئینی مدت پوری ہونے پر ساٹھ دن کے اندرعام انتخابات منعقد ہوجائینگے۔ یہ بھی عوام کو یقین دلانا نا ممکن ہے کہ عام انتخابات موجودہ حلقہ بندیوں کے تحت منعقد ہوں گے یا نئی حلقہ بندیوں کیلئے درکار انتظامی اور قانونی اقدامات بروئے کار لائے جا سکیں گے۔ قبل ازوقت انتخابات کے مطالبے کی گردان نے سیاسی ماحول کو اس قدر بوجھل کر دیا ہے کہ یہ بھی واضح نہیں ہو رہا کہ جو الیکشن کمیشن سر توڑ کوششوں اور انتھک محنت سے مقررہ وقت پر عام انتخابات کا انعقاد یقینی بنانے میں بھی پر اعتماد نہیں وہ وقت سے پہلے ناممکن کو ممکن کیسے بنا سکتا ہے۔سیاسی اسموگ کے باعث یہ تک واضح دکھائی نہیں دے رہا کہ نئی حلقہ بندیوں کے ضمن میں آئینی بحران کی صورت میں موجودہ اسمبلیوں کی مدت میں ایک سال کی توسیع کی جا سکتی ہے یا نہیں، یہ بھی یقین سے کہنامشکل ہے کہ ایسی ہنگامی صورتحال کیا ہوگی جس کو ایمرجنسی کے نفاذ کا جواز بنا کرکسی اسمبلی کی مدت میں توسیع کی جاسکے گی اور کیا اقتدار کیلئے اپنی باری کا انتظار کرنے والی سیاسی جماعتیں اس طرح کی کسی حکمت عملی کو شرف قبولیت بخش دیں گی۔ یہ بھی صاف دکھائی نہیں دے رہا کہ اگر متعلقہ آئینی اور انتظامی اقدامات کی عدم موجودگی کو جواز بنا کر نگران حکومت نے اعلیٰ عدلیہ سے توسیع طلب کر لی تو ایسی صورت میں سیاسی جماعتیں سوائے ایک دوسرے کا منہ دیکھنے کے اور کیا کر یں گی۔ پاناما پیپرز سے اڑنے والی گرد پاکستان کی سیاسی فضا کو اس قدر مکدر کر چکی ہے کہ اس سے نہ صرف شریف خاندان کا دامن داغدار ہو چکا ہے بلکہ اس دھول میں وزارت عظمی کی کرسی بھی نواز شریف کی نظروں سے اوجھل ہو چکی ہے۔ موجودہ مبہم صورتحال میں حکمران جماعت کو کچھ پتہ نہیں کہ دوبارہ پارٹی صدر بنائے جانے والے نواز شریف آئندہ عام انتخابات سے پہلے کسی طوراہل ہو پائیں گے یا نہیں، جے آئی ٹی کی رپورٹ پر نیب کی طرف سے دائر احتساب ریفرنسز میں میاں صاحب کیا سزا سے بچ پائیں گے اور اگر کسی معجزے سے ایسا ممکن بھی ہو گیا تو حدیبیہ پیپرز ملز سے ان کی جان کیسے چھوٹ پائے گی۔ آئندہ عام انتخابات سے پہلے نواز شریف کی نا اہلی برقرا رہنے کی صورت میں وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو وزارت عظمیٰ کیلئے نامزد کرنے والی مسلم لیگ ن کے رہنما دن بدن بڑھتی سیاسی اسموگ میں یہ تعین کرنے میں بھی ناکام ہیں کہ ان کے متبادل نامزد وزیر اعظم حدیبیہ کے شکنجے سے بچ کر الیکشن مین حصہ لے بھی سکیں گے یا نہیں۔ وہ تو یہ تک نہیں جانتے کہ جب یہ اسموگ چھٹے گی تو ان میں سے کتنے پارٹی میں باقی رہ جائیں گے اور کتنے نئی منزلوں کو سدھار چکے ہوں گے۔ غرض یہ کہ سیاسی منظر اس قدر دھندلا چکا ہے کہ کل تک میاں صاحب کی پیٹھ تھپتھپانے والے آصف زرداری اب ان کے ساتھ کھڑے ہونے کو ملک دشمنی سے تعبیر کر رہے ہیں اور سیاست کے اس آئن اسٹائن کی نئی تھیوری کے بارے میں بھی قیافہ لگانا مشکل ہے۔ سیاسی جماعتوں میں جوڑ توڑ سیاسی فضا کی کثافت میں اس قدر اضافے کا باعث بن رہا ہے کہ مصطفی کمال جیسے نادان دوست کرامات کرنے والوں کے اجلےدامن پر بھی چھینٹے گرانے لگے ہیں جبکہ اپنے رہنماؤں کے حق میں نعرے لگاتے باؤلے ہونیو الے بھولے عوام شک میں پڑ گئے ہیں کہ طاقت کا سرچشمہ وہ ہیں۔ ماحولیاتی اسموگ کی طرح یقیناً سیاسی اسموگ کی بھی وجوہات ہیں لیکن پاکستان میں موسمیات کی طرح سیاست کے ماہرین بھی بے بس ہیں جو گزشتہ ستر سال کے دوران پیدا کی جانے والی سیاسی اسموگ کا تدارک یقینی بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔ اور تو اور وہ تو سیاسی اسموگ پیدا کرنے کے ذمہ داران کا نام تک نہیں لے سکتے۔اگر کبھی بھول چوک سے ماضی میں سیاسی اسموگ پیدا کرنے والے پرویز مشرف جیسے ذمہ دار سے باز پرس کرنے کی کوشش بھی کی گئی تو اس کا خمیازہ ایک اور سیاسی اسموگ کی صورت میں بھگتنا پڑا اور وہی اشتہاری آمر مخصوص ایجنڈے کی تکمیل کیلئے قائم جماعتوں کا الائنس تشکیل دے کر ایک بار پھر بھاشن دیتا ہے کہ الیکشن کی بجائےکچھ اور کر لیا جائے۔ قارئین کرام دوسری طرف یہ بھی حقیقت ہے کہ ملک میں جو بھی سیاسی اسموگ پیدا ہوئی اس کی کافی حد تک ذمہ داری سیاست دانوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ملک کو سیاسی اسموگ سے بچانے کیلئے اٹھارویں ترمیم جیسے والو بھی زیادہ کارگر ثابت نہیں ہو سکے کیونکہ سیاسی ماحول کو پراگندہ کرنے کیلئے نئی تکنیکس ایجاد کر لی گئی ہیں جبکہ حکومت کی ناقص حکمت عملی اور غلط پالیسی کے باعث سیاسی اسموگ کی تہہ اور دبیز ہو گئی۔ قارئین سیاست دان اگر ہوش کے ناخن لیں تو آج منعقد ہونیو الے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں مردم شماری کے نتائج اور نئی حلقہ بندیوں کے معاملے پر اتفاق رائے کی صورت میں موجودہ سیاسی اسموگ کم کیا جا سکتا ہے لیکن اگر مفادات کا کھیل جاری رہا تو سیاسی اسموگ اتنی گہری ہو جائے گی کہ اس میں جمہوریت کی گاڑی کو حادثے سے بچانا نا ممکن نہیں تو مشکل ضرور ہوگا۔

تازہ ترین