• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

آثار و قرائن سے لگتا ہے کہ جموں و کشمیر کی پرانی اور بڑی سیاسی پارٹی نیشنل کانفرنس نے جموں کشمیر کے سیاسی منظر نامے میں واپسی کی ہے جس کا یقین کرنا مشکل لگتا تھا۔تقریبا سولہ سال کا لمبا عرصہ گزرنے کے بعد نیشنل کانفرنس نے پچھلے ہفتے شیر کشمیر ا سٹیڈیم سرینگر میں ایک بڑے اجتماع کا انعقاد کیا جو واقعی مُتاثر کُن تھا۔ صرف مدعو اشخاص کے لئے وقف ہونے کے باوجود اس اجتماع میں بیس ہزار سے زیادہ شرکا نے شرکت کی۔تین سال سے زیادہ عرصہ سے حکومت سے دور رہنے والی نیشنل کانفرنس کے لئے یہ اجتماع واقعئ متاثر کن تھا ۔علاوہ ازیں ماضی قریب میں کوئی بھی ہند نواز جماعت جموں و کشمیر میں اتنا بڑااجتماع منعقد کرنے میں کامیاب نہیں ہوئی ہے اور وہ بھی جموں و کشمیر کے دارالخلافہ سرینگر میں۔اس کانفرنس میں جموں کشمیر کے تینوں خطوں سےآئے ہوئے افراد نے شرکت کی جس سے ثابت ہوتا ہے کہ نیشنل کانفرنس جموں و کشمیر کے تینوں خطوں میں اپنی موجودگی کا پرچم گاڑے ہوئے ہے۔
نیشنل کانفرنس کے سینئر لیڈر ڈاکٹربشیر احمد ویری نے کانفرنس کے کامیاب انعقاد پر کہا کہ انکی پارٹی جموں و کشمیر کی سب سے پرانی سیاسی پارٹی ہے جو کہ عوامی سطح پر تینوں خطوں میں اپنی ایک مضبوط بنیاد رکھتی ہے۔ڈاکٹر ویری نے مزید کہا کہ آج انہوں نے یہ ثابت کردیا ہے کہ نیشنل کانفرنس وہ واحد پارٹی ہے جو جموں کشمیر میں نفاق پیدا کرنے والی اور پھوٹ ڈالنے والی طاقتوں کا موثر انداز میں مقابلہ کر سکتی ہے۔ کانفرنس میں لیہہ سے آئے ہوئے دراز قد ، چمکدار چمڑی، نیلی آنکھیں اور سنہرے بال والےبروگپا لوگوں کی اچھی تعداد نے بھی شرکت کی۔ بروگپا لیہہ ڈویژن میں کنٹرول لائن کے قریب واقع پانچ گائوں آباد ہیں جنکو مجموعی طور پر آریہ وادی کہا جاتا ہے۔ غلط فہمی کی بنیاد پر انکو قدیم آریہ لوگوں کی نسل قرار دیا جاتا ہے۔ اسی بنیاد پر یہ لوگ دور دراز سے آئےسیاحوں کی دلچسپی کا مرکز بنے ہوئے ہیں جن میں گاہے بگاہے تجسس کی ماری وہ مغربی عورتیں بھی شامل ہیں جو آریائی نسل کو آگے بڑھانے کی تمنّا میں علاقے کا رخ کرتی ہیں۔ ۔نیشنل کانفرنس کے اجتماع میں بروگپا لوگوں کی موجودگی مختلف تہذیبی اور لِسانی علاقوں تک اس پارٹی کی پہنچ اور اثر کا ثبوت ہے۔عوام کی اس قدر موجودگی اور شرکا کے جوش و خروش کو دیکھکر خوشی سے پھولے نہ سماتے ہوئے پارٹی کے صدر اور سابقہ وزیر اعلیٰ ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے اس اجتماع کو اپنےسیاسی مخالفین کےلئے ایک پیغام قرار دیا جو انکے بقول اس خیال میں تھےکہ شایدانکی پارٹی دم توڑ چکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ انکی پارٹی 1932 ء سے سازشوں کی شکار ہوتی آئی ہے مگر وہ سازشوں کا مقابلہ کرنے میں ہر دفعہ کامیاب ہوئے ہیں اور کامیاب ہو کر اُبھرے ہیں۔
سابقہ وزیرِ اعلیٰ اور شیخ محمد عبداللہ کے پوتے عمر عبد اللہ نے بھی اس موقع پر نیشنل کانفرنس کے خلاف پروپیگنڈےکا ذکر کرتے ہوئے کہا "حکومت ہند، ہمسایہ ملک کیساتھ کئی اور طاقتیں ہمیشہ نیشنل کانفرنس کے خلاف سازشوں کا جال پھیلاتے آئے ہیں اور نیشنل کانفرنس کا جھنڈا کشمیر سے اکھاڑنے کی کوششیں کرتے آئے ہیں"۔
جہاں تک کشمیریوں کی شناخت کےلئے جدوجہد کا سوال ہے تو تاریخی پس منظر میں نیشنل کانفرنس کا کردار ہمیشہ سے متنازع رہا ہے مگر اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ کشمیر کے بدلتے ہوئے سیاسی حالات میں نیشنل کانفرنس ہمیشہ سے کشمیریوں کی شناخت کیلئے جدوجہد کرتی آئی ہے۔اس ضمن میں یہ پارٹی کبھی ہندوستان کےدبائو کا مقابلہ کرتی رہی اورکبھی پاکستان کے دباو سے لڑتی رہی اور خاصکر پچھلی تین دہائیوں سے پاکستان اور ہندوستان کے مشترکہ دبائو کو جھیلتی آرہی ہے۔ مزید بر آں نیشنل کانفرنس کشمیر کی نوجوان نسل کے غصے اور تنقید کا سامنا کرتی آرہی ہے جو اسکو موقعہ پرست تصور کرتے ہیں اور ہندوستان کے ساتھ متنازعہ الحاق کے نتیجےمیں شیخ عبداللہ کو غدار گردانتے ہیں۔ہندوستان کے ساتھ الحاق کرنے کے باوجود نیشنل کانفرنس سے حکومت کی بھاگ ڈور چھینی گئی تھی اور جواہر لال نہرو نے شیخ محمد عبداللہ کو لگ بھگ بیس سال تک پابندِ سلاسل رکھا جب تک کہ وہ موم نہ ہوئے اور وزیرِ اعظم کے بجائے وزیرِ اعلیٰ کا عہدہ قبول کرنے کےلئے تیار نہ ہوئےوہ بھی فقط نام کےلئے جبکہ پورے کا پورا نظام حکومتِ ہند کے ہی قابو میں رہا۔
شیخ محمد عبداللہ کی وفات کے بعد جب فاروق عبداللہ نے حکومت کی بھاگ ڈور سنبھالی تو انکو بھی ایسی سازشوں کا شکار ہونا پڑا اور حکومتِ ہند نے صرف دو سال کے اندر ہی انکی حکومت کو معطل کردیا۔ فاروق عبداللہ ایک زمانے میں کشمیری قوم پرست تھے، وہ کچھ وقت کے لئے لبریشن فرنٹ کے ممبر بھی ر ہے اور اطلاعات کے مطابق انہوں نے کشمیر کی تہذیبی شناخت اور سیاسی یکجہتی کا دفاع کرنے کے لئے حلف بھی اٹھایا تھا۔لیکن اپنے باپ کی طرح انہیں بھی حکومتِ ہند کے دباو کے سامنے جھکنا پڑا اور انہوں نے بھی کشمیری قوم کے بجائےدلی میں بیٹھے آقائوں کو خوش کرنا ہی مناسب سمجھا تاکہ سازشوں سے بچنے کیساتھ ساتھ حکومت کے مزے بھی لوٹے جاسکیں۔
1990 ء میں کشمیر میں آزادی کی مسلح تحریک کی شروعات نیشنل کانفرنس کے وجود کے لئے سب سے بڑاخطرہ بن گئی۔اگست 1990 ء میں محمد یوسف حلوائی جو کہ نیشنل کانفرنس کا کارکُن تھا کو گولی ماری گئی جس کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے لبریشن فرنٹ نے پارٹی کے اراکین کے نام وارننگ جاری کردی۔ پھرایک خونیں کھیل کا آغاز ہوا جسمیں نیشنل کانفرنس کے سینکڑوں اراکین کو موت کے گھاٹ اُتار دیا گیا اور ہزاروں کو نیشنل کانفرنس سے لاتعلقی کا اظہار کرنا پڑا۔ کئی کارکنوں کو کشمیر سے ہجرت کرنی پڑی جس میں فاروق عبداللہ اور اُنکا خاندان بھی شامل تھا۔
مذکورہ بالا کانفرنس میں کشمیر کے تئیں ہندوستان کے موجودہ موقف پر غم و غصے کا اظہار کیا گیا۔ کانفرنس میں ایک قرار داد بھی پاس کی گئی جس میں کشمیر کی خود مختاری اور آئین ہند کے دفعہ 370 کو اپنی اصل صورت میں لاگو کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تاکہ دیرینہ اور یخ بستہ مسئلہ کشمیر کو ہمیشہ ہمیشہ کےلئے حل کیا جاسکے۔ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے ہندوستان کو متنبہ کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر اور لداخ کے لوگ تب تک ہندوستاں کا نعرہ نہیں لگا سکتے جب تک اُن کے دِل نہ جیتے جائیں۔فاروق عبداللہ نے ہندوستان کے فوجی سربراہ جنرل بپن راوت کو للکارتے ہوئے کہا’’ آپ کتنے لوگوں کا خون بہائیں گے؟ آپ لوگوں کو بندوق سے زیر نہیں کرسکتے ۔ ہم آپ سے لڑنے کےلئے کل بھی زندہ رہیں گے‘‘ ۔ڈاکٹر فاروق نےجنرل راوت سے مخاطب ہوتے ہوئے مزید کہا ’’ آپ ہماری خواہشات کو دبا نہیں سکتے ۔ہمیں ڈرانے کی کوشش نہ کریں۔کشمیر کا مسئلہ سیاسی ہے اور جب تک اس مسئلے کا سیاسی حل تلاش نہ کیا جائے تب تک کشمیر میں امن قائم نہیں ہوسکتا‘‘۔

تازہ ترین