• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف خوب عوام کی خدمت میں مصروف ہیں۔ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں نے ایک دوسرے کے خلاف الزامات کی جنگ میں تمام حدیں پار کر دیں۔ دونوں ایک دوسرے کو بدکردار اور کرپٹ ثابت کرنے میں اپنے آپ کو ہی ننگا کرنے میں مصروف ہیں۔ الزامات کی اس سیاست نے عوام کے سامنے اپوزیشن کو گندا کر دیا ہے جبکہ حکمران اپنی تمام تر خرابیوں کے باوجود مزے لوٹ رہے ہیں۔ نواز شریف خود خاموش ہیں مگر اپنے لوگوں کے ذریعے انہوں نے عمران خان پر شوکت خانم ہسپتال سے متعلق سنگین الزامات لگوائے اور عمران خان کو جواریا اور کرپٹ ثابت کرنے کی کوشش کی۔ جواب میں عمران خان نے نواز شریف کی کرپشن کے متعلق گیارہ سوال اٹھائے اور یہ تک کہہ دیا کہ کیا نواز شریف اور چوہدری نثار علی خان اپنی بیویوں کے ساتھ وفادار رہے۔ ن لیگ کے رہنما عمران خان کی ذاتی زندگی کے متعلق بھی سوال اٹھاتے رہے۔ ان الزامات کی نوعیت اور بوچھاڑ نے سیاست کو مزید گندا کر دیا اور اگر یہ الزامات حقیقت پر مبنی ہیں تو پھر پاکستان کا مستقبل یقیناً تاریک ہے۔ پاکستان کو گزشتہ ساڑھے چار سال سے حکمران طبقہ دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے۔ اس نے ایک ایک کر کے ہر قومی ادارہ کو تباہ کر دیا اور عوام کی مشکلات کو حل کرنے کی بجائے ان کو بڑھانے کا سبب بن رہا ہے۔ ایسے میں اپوزیشن جماعتوں سے آس لگائے عوام کو اگر یہ بتا دیا جائے کہ جن سے وہ امید لگائے ہوئے ہیں وہ بھی نہ صرف کرپٹ اور دوغلے ہیں بلکہ اپنی ذاتی زندگیوں میں بھی ایماندار نہیں تو پھر عوام کہاں جائیں۔ ن لیگ اور تحریک انصاف دونوں اقتدار کے حصول کے لئے اپنے ہوش و حواس گنوا بیٹھے ہیں۔ ان دونوں پارٹیوں اور ان کے رہنماؤں کو یہ احساس ہی نہیں رہا کہ ان کی موجودہ سیاسی لعن طعن سے ملک کو کس قدر سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کے ساتھ ایسے گتھم گتھا ہیں کہ حکمران جماعتوں کی کرپشن، خراب طرزِ حکمرانی اور اداروں کے خلاف مہم جوئی سب نظروں سے اوجھل ہو گئی۔
کوئی اپنی ذاتی زندگی میں کیا کرتا ہے، اس کی ٹوہ لگانا جائز نہیں مگر اسلام کی تعلیمات اور آئینِ پاکستان کی روح کے مطابق صرف نیک اور صالح افراد کو حقِ حکمرانی حاصل ہے۔ ن لیگ اور تحریک انصاف جس نوعیت کے الزامات ایک دوسرے کے رہنماؤں کے متعلق لگا رہے ہیں، اگر ان میں سچائی ہے تو وہ یقیناً اس قابل نہیں کہ ان کو حق رہنمائی دیا جائے۔ اگر ہمارے رہنما اپنی ذاتی زندگیوں میں شراب نوشی کرتے ہیں، زنا جیسے گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرتے ہیں، لوگوں یا حکومت کا مال چوری کر کے کھاتے ہیں، ٹیکس چوری کرتے ہیں تو وہ اس کے اہل نہیں کہ ان کو پارلیمنٹ میں داخل ہونے کی اجازت بھی دی جائے۔ اسلام، آئین اور قانون کے برخلاف حقیقی زندگی میں ہماری پارلیمنٹ میں شرابیوں، زانیوں اور لٹیروں کی کوئی کمی نہیں۔ حقیقت میں تو ہمارے پاس ایسے بھی ممبر پارلیمنٹ ہیں جو کھلے عام شراب نوشی کو جائز قرار دینے اور غیرعورتوں سے ناجائز تعلقات کی بات کرتے ہیں مگر ان کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھایا جاتا۔ ہماری ہی پارلیمنٹ میں نماز کے لیے سنائی جانے والی اذان پر بھی اعتراض ہوتا ہے۔
آئین کے آرٹیکل 62 کے مطابق کوئی شخص پارلیمنٹ کا رکن منتخب نہیں ہو سکتا اگر وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور ہو، وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم نہ رکھتا ہو اور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نیز کبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو، وہ سمجھ دار، پارسا نہ ہو ،وہ فاسق ہو اور ایماندار اور امین نہ ہو وغیرہ وغیرہ۔ ان آئینی حدود کے تناظر میں اگر موجودہ پارلیمنٹ کے اراکین اور حکمرانوں کو پرکھا جائے تو ایک اچھی خاصی تعداد پارلیمنٹ میں بیٹھنے کی اہل نہیں۔ آئینِ پاکستان مسلمان اراکین پارلیمنٹ کو اسلام کے مقرر کردہ فرائض کی پابندی کرنے کا حکم دیتا ہے مگر ہمارے کتنے اراکین اسمبلی فرض نماز کی پابندی کرتے ہیں۔ اگر وہ نماز جیسے اہم فریضہ کو ادا نہیں کرتے تو کیا وہ پاکستان کے آئین کے مطابق پارلیمنٹ کی رکنیت کی اہلیت رکھتے ہیں؟؟ ن لیگ اور تحریک انصاف کے لیے بہتر یہ ہوتا کہ پریس کانفرنس میں ایک دوسرے کے خلاف الزامات لگانے کی بجائے دونوں فریق عدالت میں ثبوت کے ساتھ اپنا اپنا الزام ثابت کرتے۔ اگر ثبوت نہیں تو لگائے جانے والے الزامات ماسوائے بہتان کے کچھ نہیں ۔ دونوں صورتوں میں یہ رویّہ سیاسی رہنماوٴں کے اُس اعلٰی کردار کے مطابق نہیں جس کا آئین پاکستان تقاضا کرتا ہے۔
مگر پاکستان کی بدقسمتی یہ رہی کہ ہم نے آئین اور قانون میں لکھ تو بہت کچھ دیا مگر جب عمل کا وقت آتا ہے تو ہم سب زیرو کے زیرو۔ بجائے اس کے کہ دونوں جماعتوں کے رہنما ایک دوسرے پر الزامات لگاتے اور بہتان تراشی کرتے یہ زیادہ مناسب تھا کہ وہ آئین کی روح کے مطابق ایک ایسے نظام کو وضع کرنے کی جدوجہد کریں جو پاکستان کو صاف ستھری قیادت دے۔ کرپٹ، بدکردار اور اسلام سے شرمانے شرمانے والی سیاسی قیادت سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جان چھڑانے کے لیے کیا یہ ضروری نہیں کہ ایک ایسا میکنزم بنایا جائے تاکہ صرف اچھے کردار کے حامل، اسلامی تعلیمات سے بہرہ ور، نیک اور پارسا لوگ ہی الیکشن لڑ سکیں۔ اس سلسلے میں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے گزشتہ سال سیاسی جماعتوں سے ایک دو میٹنگز بھی کیں، جس میں یہ بات رکھی گئی کہ پارلیمنٹ کے ممبرز کے متعلقہ آئینی شرائط کے من و عن نفاذ کے لئے ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں اور الیکشن کمیشن مل کر ایک ایسا نظام وضع کریں کہ کوئی بدکردار فرد اسمبلی میں داخل ہی نہ ہو سکے۔ مگر افسوس کہ اس سلسلے میں ابھی تک کوئی خاص پیش رفت نہ ہوسکی۔ بے شک اس سلسلے میں رکاوٹیں کھڑی کی جائیں گی خصوصاً ایک ایسے طبقہ کی طرف سے جو آئین پاکستان کے اسلامی رنگ سے چڑتا ہے اور اس کوشش میں ہے کہ پاکستان کو ایک سیکولر اسٹیٹ بنا دیا جائے۔ مگر جب تک نیک، صالح اور باکردار مسلمان ہماری رہنمائی نہیں کریں گے، اُس وقت تک ہم بار بار دھوکہ ہی کھاتے رہیں گے۔ جو نام نہاد رہنما اپنے اللہ کے احکامات سے وفاداری نہیں کرتا تو وہ عوام سے کسی طور بھی مخلص نہیں ہو سکتا۔ اس سلسلے میں حال ہی میں مقرر کیے گئے چیف الیکشن کمشنر جسٹس فخر الدین ابراہیم صاحب کی بھی اہم ذمہ داری ہے۔ فخروبھائی صاف شفّاف الیکشن کرانے کا مکمل ارادہ رکھتے ہیں مگر میری اُن سے گزارش کہ صاف شفّاف الیکشن کے ثمرات عوام کو اُس وقت تک نہیں مل سکتے جب تک آئین کے مطابق صرف صاف ستھرے اور باکردار افراد ہی کو الیکشن لڑنے کی اجازت نہ دی جائے۔ ایک بات یاد رکھیں جب نظام صرف باکردار نیک مسلمانوں کو ہی الیکشن لڑنے کی اجازت دے گا تو پھر جو پارٹی مرضی جیتے، ہماری پارلیمنٹ اور حکومت اسلام، عوام اور پاکستان سے مخلص رہیں گے۔ اگر ایسا نہیں ہو گا تو پھر جمہوریت کے نام پر فراڈ جاری رہے گا۔نوٹ: میرے گذشتہ کالم ”اللہ کو کون کون قرضِ حسنہ دے گا“ کے نتیجے میں لاتعداد قارئین نے مجھ سے رابطہ کیا اور بلوچستان کے عوام کے لیے فلاح انسانیت فاونڈیشن کو عطیات دینے کا ارادہ ظاہر کیا۔ اس پر میں نے فاوٴنڈیشن کے چئیرمین اور بلوچستان پروجیکٹ کے انچارج حافظ عبدالرؤف صاحب سے رابطہ کیا، جن کا کہنا تھا کہ عطیات فلاح انسانیت فاوٴنڈیشن کے قریبی دفاتر میں جمع کرانے کے علاوہ چیک اور بنک ڈرافٹ بنام ”فلاحِ انسانیت فاونڈیشن“ 4 ۔لیک روڈ چوبرجی لاہور کے پتہ پر ارسال کیے جا سکتے ہیں۔ مزید معلومات کے لیے 03218444992 پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔ فاونڈیشن کی ویب سائٹ www.fif.org.pk کو بھی وزٹ کیا جا سکتا ہے۔
تازہ ترین