• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 وہ شخص جس نے بانوے سال کی عمر میں بھی بڑھاپے کو اپنے اوپر سوار نہیں ہونے دیا اور آخری عمر تک جوانوں کا جوان نظر آتا رہا، کل ہم میں نہیں رہا۔ خبر پڑھی تو یقین نہیں آیا۔ ہنستا مسکراتا اور ادھر ادھر چوٹیں کرتا اس کا چہرہ سامنے آ گیا۔ خوش پوشاک، خوش مزاج، خوش گفتار بلکہ بذلہ سنج اور قلم کے دھنی۔ یہ تھے مشکور حسین یاد۔ جب بھی ملے ہمیشہ سوٹ بوٹ اور ٹائی میں۔ ملتے ہی کوئی ایسی پھلجھڑی چھوڑتے کہ ہنسی سے سننے والے کی باچھیں چر جاتیں۔ کبھی چھوٹے بڑے کی پروا نہیں کی جو بھی اچھا برا کہنا چاہا کھل کر کہہ دیا۔ اب ان کی بلا سے کوئی شرم سے منہ چھپا رہا ہے یا نہیں۔ یہ کل کی ہی بات لگتی ہے۔ نیرنگ گیلری میں نیر علی دادا کی ماہانہ بیٹھک میں آئے۔ اپنے خاص کھردرے مردانہ انداز میں غزل بلکہ غزلیں سنائیں اور میزوں کے گرد بیٹھے سامعین کو گھور کر دیکھا کہ ’’کسی میں ہمت ہے تو ایسی شاعری کر کے دکھا دے۔‘‘ انہوں نے خوب شاعری کی، خوب تنقید لکھی اور خوب انشائیے لکھے۔ انشائیے ان کا وہ تیز دھار ہتھیار تھے جن سے وہ وزیر آغا گروپ کے انشائیہ لکھنے والوں کا مقابلہ کرتے تھے۔ یہاں بھی ان کا وہی انداز تھا۔ ایک للکار ’’دیکھو یہ ہوتا ہے انشائیہ، کسی میں ہمت ہے تو ایسا انشائیہ لکھ کر دکھا دے۔‘‘ ان کا ساتھ دیتے تھے ڈاکٹر سلیم اختر (خدا انہیں صحت عطا فرمائے)۔ یہ معرکہ رسالہ فنون کے دفتر یا انجمن ترقی ٔ ادب کے دفتر میں احمد ندیم قاسمی صاحب کے سامنے سر ہوتا تھا۔
مشکور حسین یاد نے کتنی کتابیں لکھیں؟ ہم تو ان کی گنتی نہیں کر سکتے۔ عقیل عباس جعفری نے اپنے تعزیتی بلاگ میں ان کی کتابوں کے نام لکھے ہیں۔ بلاشبہ عقیل عباس جعفری انسائیکلوپیڈک یادداشت رکھتے ہیں، اور اپنے دوستوں کو بھی اس یادداشت میں شریک کرتے رہتے ہیں، لیکن ہمارا خیال ہے کہ ان کی فہرست میں بھی ایک دو کتابیں ضرور رہ گئی ہوں گی۔ ان کتابوں کے سلسلے میں انتظار حسین کے ساتھ مشکور حسین کی نوک جھونک چلتی رہتی تھی۔ ہر چھٹے مہینے نئی کتاب آ جاتی تھی۔ انتظار حسین کتاب دیکھتے اور ہنستے ہوئے کہتے ’’بس مشکور حسین، بہت ہو گئی، اب اتنا بوجھ نہ مارو‘‘۔ اور مشکور حسین اپنے خاص جھنجھلائے ہوئے انداز میں کہتے ’’پڑھ کے تو دیکھو، پسینے چھوٹ جائیں گے‘‘۔ اور انتظار حسین زچ ہو کر ان کی کسی کتاب پر کالم لکھ دیتے۔ اب آپ خود ہی غور فرمائیے، کونسا ایسا موضوع ہے جس پر انہوں نے کتاب نہیں لکھی۔ اور تو اور ’’قرآن آسان‘‘ کے نام سے بھی کتاب لکھ دی۔ یہ کتاب وہ جسے بھی دیتے اس سے کہتے ’’اسے پڑھو، تمہیں معلوم ہو جائے گا کہ یہ قرآن جسے تم مشکل سمجھتے ہو کتنا آسان ہے۔‘‘ وہ جتنے خوش مزاج اور بذلہ سنج تھے اتنے ہی غصے والے بھی تھے۔ ادھر کسی نے ان سے ذرا سا بھی اختلاف کیا، یا کسی موضوع پر ان سے بحث کی ادھر ان کا پارہ چڑھ گیا۔ پھر وہ اگلا پچھلا نہیں دیکھتے تھے۔ بحث کرنے والے کو بھگا کر ہی دم لیتے تھے۔
حیرت تو اس بات پر ہوتی ہے کہ تقسیم کے وقت جس قیامت کا انہوں نے سامنا کیا اس کے باوجود انہوں نے اپنی حس مزاح کو زندہ رکھا۔ ایسے حالات میں تو انسان ہمیشہ کے لئے بجھ جاتا ہے۔ مایوس ہو جاتا ہے۔ اس قیامت کا حال انہوں نے اپنی سب سے زیادہ پسند کی جانے والی کتاب ’’آزادی کے چراغ‘‘ میں لکھا ہے۔ آزادی کے وقت جو فسادات ہوئے ان میں مشکور حسین کے والد، ان کی والدہ، ان کی بیوی بیٹی، بھائی اور دوسرے کئی عزیز شہید ہو گئے تھے۔ ان کی یہ کتاب اب تک بڑے شوق سے پڑھی جاتی ہے۔ اس کتاب کے ایڈیشن پر ایڈیشن شائع ہوتے رہتے ہیں۔ یہ کتاب ایک اعتبار سے قیام پاکستان کے وقت ہونے والے فسادات، اور ان فسادات میں انسانی خون کی ارزانی کی معتبر اور مستند تاریخ ہے۔ یہ شاید ان کی پہلی کتاب تھی۔ اس کے بعد تو وہ کتابوں پر کتابیں لکھتے چلے گئے۔ کتابوں کے نام رکھنے میں بھی ان کی اختراعی طبیعت ہی کام کرتی نظر آتی ہے۔ ان کے شعری مجموعوں کے نام ہی دیکھ لیجئے۔ پرستش، پرداخت، برداشت، عرض داشت اور نگہداشت۔ ہم نے کہا یہ برداشت کہاں سے آ گئی یہاں؟ تو ہمیں ڈانٹا۔ ’’یہ برداشت وہ نہیں ہے جو تم سمجھ رہے ہو۔ یہ فصل پکنے کے بعد اسے اٹھانا ہے، جسے برداشت کرنا کہتے ہیں‘‘۔ ہم خاموش ہو گئے۔
مشکور حسین نواز شریف کے استاد بھی تھے۔ جب وہ گورنمنٹ کالج لاہور میں پڑھاتے تھے تو نواز شریف وہاں پڑھتے تھے۔ کالج کے زمانے کے نواز شریف کی ایک تصویر بھی ان کے پاس تھی۔ ہم نے بھی وہ تصویر دیکھی ہے۔ سعادت مند شاگردوں کی طرح نواز شریف مشکور حسین کا اب بھی احترام کرتے تھے۔ اب یہ مشکور حسین کی اپنی زبان سے ہی ہم نے سنا کہ اپنی دوسری حکومت میں نواز شریف نے انہیں گورنر پنجاب بنانے کی خواہش بھی ظاہر کی تھی لیکن مشکور حسین نے معذرت کر لی تھی۔ البتہ نواز شریف نے اردو پڑھانے کے لئے مشکور حسین کو ایران بھیجا تھا۔ لیکن مشکور حسین کا وہاں دل نہیں لگا۔ اور وہ جلد ہی وہاں سے واپس آ گئے تھے۔ شاید ایک سال بھی نہیں رہے وہاں۔ کیوں واپس آئے؟ یہ انہوں نے کبھی نہیں بتایا۔ ہم تو یہی سمجھتے رہے کہ وہاں ان کا دل نہیں لگا۔
اب یہ کہنا کہ فلاں شخص اپنی ذات میں ایک انجمن تھا، گھسی پٹی بات ہو گئی ہے۔ لیکن مشکور حسین یاد واقعی ایک انجمن تھے۔ ان کی صحبت میں کوئی انسان بیزار نہیں ہو سکتا تھا۔ ہنسی مذاق، نوک جھونک اور ادھر ادھر چوٹیں کسی کو بیزار ہی نہیں ہونے دیتی تھیں۔ ہم تو یہی کہہ سکتے ہیں کہ 1947میں وہ جس قیامت خیز حالات سے گزرے اپنی کتاب میں ان کی تفصیل بیان کرکے انہوں نے گویا اپنا کتھارسس کر لیا تھا۔ اور اس المیے کو اپنے تخلیقی وفور کی طرف موڑ دیا تھا۔ پاکستان آ کر انہوں نے اپنے بل بوتے پر ہی نئی زندگی کا آغاز کیا۔ اور آخر عمر تک اپنی مرضی کی زندگی گزارتے رہے۔

تازہ ترین