• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

 کامیاب افراد کی زندگی کا مطالعہ بتاتا ہے کہ وہ سب سادگی اختیار کرنے والے تھے۔ ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیشہ سادگی اختیار کی اور قناعت اپنائی۔ اپنی امت کو بھی یہی تعلیم دی کہ وہ بھی سادگی اپنائیں اور قناعت اختیار کریں۔ یہ غزوئہ خندق کا واقعہ ہے۔ ایک مرتبہ صحابہ کرامؓ آپﷺ کے گرد حلقہ بناکر بیٹھے ہوئے تھے۔ آپﷺ سے بھوک کا ذکر کیا۔ اور بھوک کی وجہ سے صحابہ کرامؓ نے اپنے پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے تھے۔ یہ سن کر اور دیکھ کر آپﷺ نے اپنے شکم مبارک سے کپڑا اٹھایا تو آپ کے پیٹ پر دو پتھر بندھے ہوئے تھے۔یہ ہوتا ہے قائد جو عوام کے دُکھ درد میں برابر کا شریک ہوتا ہے۔ ایک دن حضرت عمرؓ آپﷺ کے حجرے میں داخل ہوئے۔ آپﷺ ایک چٹائی پر لیٹے ہوئے تھے۔ چٹائی کے کنارے بوسیدہ تھے اور آپﷺ کے پہلو پر چٹائی کے نشان پڑچکے تھے۔ یہ منظر دیکھ کر حضرت عمرؓ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ آنحضرتﷺ نے انہیں روتے دیکھا تو پوچھا اے عمر! کیوں روتے ہو؟ عرض کیا یارسول اللہ! میں کیوں نہ روئوں؟ چٹائی نے آپ کے پہلو پر نشان ڈال دئیے ہیں۔ حضرت عمرؓ نے فرمایا: آپ دونوں جہانوں کے سردار ہیں اور یہ حالت ہے، جبکہ قیصر و کسریٰ کے بادشاہ ریشم کے بچھونوں پر سوتے ہیں۔ تو آپﷺ نے فرمایا: اے عمر! یہ دنیا کی سہولتیں بہت جلد ختم ہوجائیں گی، جبکہ آخرت کی نعمتیں ہمیشہ رہنے والی ہیں۔ اُن کے لیے دنیا کی سہولتیں ہیں جبکہ ہمارے لیے آخرت کی نعمتیں ہیں۔اجتماعی مال میں اس قدر اہتمام فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ آپﷺ کے پاس صدقے کی بہت ساری کھجوریں لائی گئیں۔ حضرت حسنؓ اور حضرت حسینؓ ان کھجوروں سے کھیل رہے تھے۔ اسی دوران ایک کھجور منہ میں ڈال لی تو آپﷺ نے منہ میں انگلی ڈال کر کھجور باہر نکال دی اور فرمایا کہ ہم آلِ محمد کے لیے یہ جائز نہیں ہے۔آپﷺ دونوں جہانوں کے سردار تھے، اس کے باوجود آپﷺ کا طرزِ زندگی انتہائی سادہ تھا۔ مسجدِ نبوی ہی ایوانِ صدر تھی۔ مسجدِ نبوی ہی ایوانِ اقتدار تھی۔ مسجدِ نبوی میں ہی سارے فیصلے ہوتے تھے۔ سب کے لیے انصاف کا ترازو ایک ہی تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم اتنے مصروف ہونے کے باوجود جب گھر پر ہوتے تو اپنا کام خود اپنے ہاتھوں سے کرلیا کرتے تھے۔ کئی کاموں میں گھر والوں کا ہاتھ بٹالیا کرتے تھے۔حضرت عمرؓ کے طرزِ حکمرانی کو دیکھ لیں کہ کس قدر سادگی پسند تھے۔ آپؓ نے عوام کی فلاح و بہبود اور سہولت کے لیے 18 مختلف شعبے اور محکمے قائم کیے۔ خلیفہ دوم راتوں کو بھیس بدل کر گلیوں میں گشت کیا کرتے تھے تاکہ عوام کی اصل صورتِ حال سامنے آسکے۔ اس بڑھیا کا واقعہ تو ہر ایک کو یاد ہوگا جس نے اپنے بچوں کو بہلانے کے لیے ہنڈیا میں پانی ڈال بھر کر چولہے پر چڑھایا ہوا تھا تاکہ بچوں کو تسلی ہوسکے۔ اس کی خبر حضرت عمر فاروق ؓ کو ہوئی تو وہ اپنی کمر پر سامانِ خورونوش اُٹھائے اس بڑھیا کے گھر پہنچے اور اپنی لاعلمی پر معذرت کرتے ہوئے اسے پیش کردیا۔ اسی طرح حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کی اہلیہ کا بیان ہے کہ ایک مرتبہ میں ان کے کمرے میں داخل ہوئی۔ عمر بن عبدالعزیز نماز پڑھ رہے تھے اور نماز پڑھتے پڑھتے ان کی آنکھوں سے آنسو موتیوں کی طرح ٹپک رہے تھے۔ جب نماز پڑھ چکے تو میں نے پوچھا: آپ کیوں رورہے تھے؟ کہنے لگے:’’میں نے خلافت قبول کرکے اپنے اوپر بڑا بوجھ لے لیا ہے۔ اب یہ بات میری ذمہ داری میں داخل ہے کہ میں غریبوں اور مسکینوں کی ضرورتیں اور حاجتیں پوری کروں۔ اگر کسی کی حاجت پوری نہ کرسکوں تو اللہ کے ہاں جواب دہ ہوں گا کہ میں ایسا کیوں نہ کرسکا۔ یہ کتنا بڑا بوجھ ہے۔ یہی خیال مجھے رُلا رہا تھا۔‘‘ دوستو! جب حکمران ایسے خداترس تھے تو عوام خوشحال تھے۔ آج ہمارے حکمران عیاش ہیں تو عوام فاقوں سے مررہے ہیں۔یہ تو چند مثالیں ہم نے مسلمانوں کے سنہرے دور کی پیش کی ہیں۔ اب آجائیں دنیاوی اعتبار سے کامیاب افراد کی طرف۔ غیرمسلم ترقی یافتہ ممالک کے حکمرانوں کو بھی دیکھ لیں کہ وہ بھی کس قدر سادگی پسند ہیں اور سرکاری خزانے کا کس قدر لحاظ کرتے ہیں؟ امانت اور دیانت کی کس قدر پاسداری کرتے ہیں؟امریکا کے سابق صدر ’’ریگن‘‘ کی بیوی وائٹ ہائوس کے پردے تبدیل کرنا چاہتی تھی۔ ایوان صدر سے اخراجات کی پیشگی منظوری کے لیے سمری جب ایوان نمائندگان میں گئی تو ایوان نے خرچ کی منظوری دینے سے انکار کردیا کہ موجودہ پردوں کو تبدیل کرنے کی منظوری کا مطلب عوام کے پیسوں کا ضیاع ہوگا۔اسی طرح بھارت کو دیکھ لیں۔ بھارت کے سابق وزیراعظم من موہن سنگھ کی بیٹی اپنی ہم جماعت لڑکی کی اس درخواست پر کہ ’’مجھے فلاں سوال کا جواب فیکس کردو۔‘‘ یہ کہہ کر معذرت کرلیتی ہے:’’وزیراعظم ہائوس میں فیکس مشین سرکاری ہے، اس کا پرائیویٹ استعمال امانت میں خیانت ہوگا۔‘‘برطانیہ کے وزیراعظم کو دیکھ لیں! سابق برطانوی وزیراعظم ڈیوڈ کیمرون دو کمروں کے فلیٹ میں رہائش پذیر تھا۔ ر جس دن اس نے اقتدار چھوڑا، اگلے دن پوری دنیا نے یہ تصویر دیکھی کہ وہ اپنے ہاتھ سے اپنے گھر کا سامان باندھ رہا تھا۔ ٹیکسی منگوائی اور سامان لادکر گھر رخصت ہوگیا۔ ’’یوروگوئے ‘‘کے سابق صدر ’’جوزے موجیکا‘‘ جو یکم مارچ 2010ء سے یکم مارچ 2015ء تک صدر رہے، اپنے ذاتی گھر میں رہائش پذیر رہے۔ یہ سادہ ترین زندگی گزارتے تھے۔ اپنے ہاتھوں سے سبزیاں کاشت کرتے تھے۔ یوںاپنا بوجھ قومی خزانے پر ڈالنے کی بجائے اپنے ہی کاندھوں پر اٹھائے رہے۔آپ دینی اور دنیاوی دونوں اعتبار سے کامیاب افراد… یا صرف دنیاوی اعتبار سے کامیاب افراد کی داستانیں سنیں۔ کامیاب افراد کی زندگی کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ وہ سب سادگی پسند تھے۔ امانت و دیانت کا خیال رکھنے والے تھے… لیکن آپ ہمارے مسلم حکمرانوں کے طرزِ زندگی پر ایک نظر ڈال لیں تو کس قدر پرتعیش زندگی گزار رہے ہیں۔ سرعام قومی خزانہ لوٹ لوٹ کر آسمانوں کو چھوتے ہوئے محلات بنارہے ہیں۔یہ بات یار رکھیں کہ کفن کی جیبیں نہیں ہوا کرتیں۔ ہر انسان کو دنیا سے خالی ہاتھ جانا ہے، صرف اس کے اعمال ہی اس کے ساتھ جائیں گے۔ کاش! ہمارے حکمران یہ سمجھ لیں۔یاد رکھیں! سادگی ہمیشہ اوپر سے شروع ہوتی ہے۔ اگر ہمارے حکمران سادگی شروع کردیں اور قناعت اختیار کرلیں۔ کم از کم کرپشن اور بدعنوانی سے ہی توبہ تائب ہوجائیں تو آج پاکستان کا ہر شہری 84ہزار 890روپے کا مقروض بن گیا، وہ آزاد ہوجائے گا۔ ملک قرضوں کی دلدل سے نکل آئے گا۔

تازہ ترین