• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان کے فوجی حکمران جنرل ضیاء الحق کی کابینہ کی اہم شخصیت الطاف گوہر کے ایک بھائی اور میرے دوست تجمل حسین بھی تھے، جو میرے خیال میں اپنے بھائی سے زیادہ بڑا حلقہ احباب رکھتے تھے۔ وہ ملائیشیا میں پاکستان کے سفیر تھے ۔ میں جب ملائیشیا گیا تو وہ ائر پورٹ پر مجھے ریسیو کرنے والوں میں شامل تھے۔ میں نے بھٹو صاحب کے انداز میں پوچھا ’’ایمبیسیڈر! کام کیسے چل رہا ہے؟‘‘ انہوں نے کہا کہ ’’ملائیشیا ایک عجیب ملک ہے، یہاں درخت اور کھمبے رات کو چلنے لگتے ہیں‘‘۔ میں سمجھ گیا کہ ان کا کیا مطلب ہے۔ ایک مرتبہ میں اپنے گھر راولپنڈی کے آریہ محلہ کی طرف جارہا تھا تو تجمل حسین نے میرے پاس آکے گاڑی روک لی اور مجھے گاڑی میں بٹھا کر میرے گھر اتاردیا اور کہنے لگے’’یار! تیرا گھر تلاش کرنے میں مجھے اکثر دقت پیش آتی ہے، حالانکہ مجھے اس گھر کا اچھی طرح معلوم ہے، مگر میری دانست میں لیاقت باغ کے سامنے دو لیٹر باکس ہیں، جہاں سے تمہارے گھر کو راستہ جاتا ہے، مگر میں جب بھی آتا ہوں، تو مجھے یہاں پہ ایک ہی لیٹر باکس دکھائی دیتا ہے اور میں پریشانی کے عالم میں تمہارے گھر کی طرف نہیں مڑتا، میں اس بات کا مطلب بھی سمجھ گیا۔تجمل حسین کے دوستوں میں جمیل الدین عالی، مختار صدیقی، ممتاز مفتی اور اشفاق احمد جیسے شاعر اور ادیب شامل تھے۔ جمیل الدین عالی کا ایک دوہا ہے؎عالی اب تو کٹھن پڑا، یہ ہولی کا تہوارہم تو گئے تھے چھیلا بن کے، بھیا کہہ گئی نارپورب کی ابلا، پچھم کی ابلا، یا پنجاب کی نارعالی اپنے دل پر سب کے ،گہرے گہرے واراے وطن کے سجیلے جوانو، جیوے جیوے پاکستان اور میرا پیغام پاکستان جیسے ترانوں کے خالق جمیل الدین عالی کی شاعری تقریباً سارے پاکستانیوں نے سنی یا پڑھی ہوگی وہ جب بھی لاہور آتے مجھے ضرور یاد فرماتے، ان کا ایک اور دوہا ہے ؎پیار کرے اور سسکی بھرے اور پھر سسکی بھر کر پیارکیا جانے کب، اک اک کرکے بھاگ گئے سب یارتجمل کے بڑے بھائی الطاف گوہر نے ہوٹل انٹرکانٹینیٹل میں نائیجیریا کے ایک وفد کو جو پاکستان آیا ہوا تھا، دعوت پر بلایا۔ وہاں پر میرے ساتھ اور بھی پاکستانی صحافی موجود تھے۔ نائیجیریا کے وفد نے اپنے ملک کا قومی ترانہ گایا۔ اس وقت تک پاکستان کا قومی ترانہ نیا نیا منظر عام پر آیا تھا۔ الطاف گوہر نے پوچھا تم میں سے کسی کو پاکستان کا قومی ترانہ آتا ہے؟ میں نے کہا’’مجھے آتا ہے۔ آپ سب میرے کہے ہوئے مصرعوں کو دہرائیں‘‘۔ نائیجیریا کا ترانہ ختم ہونے کے بعد میں نے پاک سرزمین شادباد، قوت اخوت عوام....اور باقی کا پورا ترانہ گایا اور اس کے ہر مصرعے کو میرے ساتھ باقی پاکستانیوں نے دہرایا، مگر میں آخری بول بھول گیا اور میں نے کہا’’باں باں، بباں باں.....باں باں بباں’’باقی سب نے الطاف گوہر سمیت اسی کو دہرایا اور یوں ہم نائیجیریا کے قومی ترانے کا جواب دینے میں کامیاب ہوئے۔ تجمل حسین کے بارے میں میرا ایک شعر بھی ہے، جس میں اشارہ ضیاء الحق کی طرف تھا، میرا شعر تھاوہ تو اس قوم کو لاحق ہے، سحر ہونے تکجانے کیا گزرے، تجمل کے گوہر ہونے تک۔

تازہ ترین