• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ن لیگ کے اجلاس میں مزاحمت یا مفاہمت کی بات نہیں ہوئی،رانا ثناء

Todays Print

کراچی(ٹی وی رپورٹ)مسلم لیگ ن کے رانا ثناء اللہ نے جیو کے پروگرام’’آپس کی بات‘‘میں مزاحمت یا مفاہمت کے حوالے سے کہا ہے کہ ایسی کوئی بات نہیں ہوئی،ایسی بات تب ہو جب آپ یہ کہتے ہیں کہ مزاحمت نہیں کرنی اس کا مطلب ہے مزاحمت ہو رہی ہے جب مزاحمت ہو ہی نہیں رہی۔ اگر میں سمجھتا ہوں کہ میرے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے تو دو چیزیں ہیں ایک تو میں کھڑا ہوجاؤں اسے آپ کہہ لیں مزاحمت ہے ،دوسرا یہ کہ میں اس کو تسلیم کروں لیکن یہ بات ضرور کروں کہ میرے ساتھ ناانصافی ہو رہی ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز نے ہمیشہ نشاندہی کی ہے ناانصافی کے معاملات کی۔

وہ جیو نیوز کے پروگرام ’’آپس کی بات ‘‘میں میزبان منیب فاروق کی جانب سےپیر کو منعقدہ ن لیگ کے مشاورتی اجلاس کے حوالے سےان کے تجزیے کہ لوگ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ پالیسی کیا پرویل کرے گی،مزاحمت یا مفاہمت؟پر اپنا ردعمل دے رہے تھے۔پروگرام میں سینئر تجزیہ کار احمد بلال محبوب،اکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی،پیپلزپارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ ، ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما کنور نوید جمیل،پی ایس پی رہنما وسیم آفتا ب،سینئرتجزیہ کار مظہر عباس اورممتاز سماجی کارکن ریحام خان نے بھی پروگرام میں حصہ لیا۔پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے خیال میں فیصلوں کو صرف قانون کی زبان میں قانون کی تشریح کرنی چاہیے،کمنٹ نہیں کرنے چاہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن کے لیڈر میاں نواز شریف محاذ آرائی کر رہے ہیں، ان کے بیانات، ان کی بیٹی اور داماد کے بیانات،ان کی تقریریں صاف پتہ دے رہی ہیں کہ محاذ آرائی کر رہے ہیں،اسے محاذ آرائی نہ کہیں تو کیا کہیں۔ پیپلزپارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ریاستی اداروں کو اپنا کام ، انٹیلی جنس اداروں کو اپنا کام کرنا چاہئے، سیاسی جماعتوں کو توڑنا بنانایا ان کے درمیان اتحاد بنانا یہ کام جب بھی اسٹیبلشمنٹ نے کیا اس سے پاکستان کے جمہوری نظام کو نقصان پہنچا ہے۔

کنور نوید جمیل نے کہا کہ ہم پر جو دباؤ تھا وہ انضمام کرنے سے متعلق تھا لیکن ہم نے ایسا راستہ نکالا جس سے ہماری بچت ہو سکے اور جن کی طرف سے ہم پردباؤ تھا اس میں بھی تھوڑی بہت کمی آ سکے۔ وسیم آفتاب کا کہنا تھا کہ کنور نوید ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے ڈی جی رینجرز زندہ باد کے نعرے لگائے تھے تو کیا اس وقت ان کی آنکھوں پر پٹی بند ھی ہوئی تھی ، یہ کہتے ہیں ہم پر پریشر ہیں لیکن بتاتے نہیں ہیں کہ پریشر کس کا ہے۔سینئرتجزیہ کار مظہر عباس نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نظریاتی سیاست ختم ہوچکی ہے، ہر الیکشن سے پہلے ٹینڈر کھلتا ہے، جس طرح پی ایس ایل میں بڈنگ ہورہی ہے اس طرح سیاستدانوں کی بھی بڈنگ ہونی چاہئے ، پی ایس پی ایم کیو ایم سے ملتی ہے تو وہ ان کا کام ہیں اور انہی کو زیب دیتا ہے، جس کا دہشتگرد پکڑنے کا کام ہے وہ اپنا کام کرے۔

ممتازسماجی کارکن ریحام خان نے پروگرام میں ڈی آئی خان میں لڑکی کے ساتھ پیش آئے افسوسناک واقعے کے حوالے سے بتایا کہ جو اپنے نام کے ساتھ قاری لگا تا ہے اور شرمنا ک ویڈیو لگائی ہے،وہ دونوں مفرور ہیں۔ ان کی ایف آئی آر بھی نہیں کٹی اور اگر سیاسی نمائندے پشت پناہی نہیں کر رہے تو کیوں انہیں اتنی مشکل ہوئی۔رانا ثناء اللہ کا مزید کہنا ہے کہ اگر نواز شریف کہیں کہ میں لوک ڈاؤن کروں گا، احتجاج کروں گا وہ مزاحمت ہوتی ہے وہ بالکل نہیں کر کے دیکھاہم پیش ہوئے ہیں ۔نواز شریف نے جو اپنا موقف لوگوں کے سامنے رکھا ہے اٹھائیس جولائی کے فیصلے کے بعد اس کو لوگوں نے تسلیم کیا ہے جو ہمارا ووٹ بینک ہے وہ برقرار ہے۔

پارٹی نے اگر الیکشن میں جانا ہے تو پارٹی نے ایک ایسے موقف کے ساتھ جانا ہے جو لوگوں کوقابل قبول ہو اگر آپ لوگوں کے پاس اس طرح سے جائیں کہ ہمارے ساتھ جو ہوا ہے وہ درست ہوا ہے اور ہمارا اس بارے میں کوئی موقف کوئی سوچ نہیں ہے تو پھر میں نہیں سمجھتا اس چیز کو عوامی سطح پر پذیرائی مل سکتی ہے۔اسحاق ڈار کے حوالے سے رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے اُن کی صحت کا مسئلہ ہے،اللہ انہیں صحت دے ،وہ واپس آ کر ذمہ داری سنبھالیں اگر وہ یہ سمجھیں گے کہ وہ نہیں سنبھال سکتے تو وہ خود پارٹی سے درخواست کریں گے۔

سنیئر تجزیہ کار احمد بلال محبوب نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ نہ مزاحمت ہے نہ احتجاج ہے،یہ تو دفاع ہے جب بھی اُن کے بارے میں کوئی کمینٹ کیا گیا اس کے جواب میں انہوں نے ایک جواب دیا ہے،پہلے بھی جب سسلین مافیا کی بات ہوئی تھی اس کے جواب میں حکومت کی طرف سے بیان جاری ہوا تھا اب بھی جب یہ فیصلہ آیا ہے تو اس کے جواب میں ان کی طرف سے بیان آیا،میں سمجھتا ہوں اگر فیصلوں میں اس طرح کی زبان استعمال کی جائے گی اس سے لازماً مشتعل ہوں گے ۔فیصلوں کو صرف قانون کی زبان میں قانون کی تشریح کرنی چاہیے،کمینٹ نہیں کرنے چاہیں میرے خیال میں۔

جوڈیشری کا معاملہ ہو یا دوسرے اداروں کی طرف سے کمینٹ کئے گئے ہوں اُن کے جواب میں حکومت کی طرف سے جواب آیا ہے تو ایک فضا میں ایک محاذ آرائی کی کیفیت موجود ہے۔اداروں کو اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما فیصل کریم کنڈی نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مسلم لیگ ن کا جو ایک گروپ ہے جو نہیں چاہتے محاذ آرائی ہو۔ لیکن ان کی پارٹی کے لیڈر ہیں میاں نواز شریف محاذ آرائی کر رہے ہیں، ان کے اسٹیٹمنٹ ان کی بیٹی اور داماد کے اسٹیٹمنٹ ان کی تقریریں صاف پتہ دے رہے ہیں کہ محاذ آرائی کر رہے ہیں،اسے محاذ آرائی نہ کہیں تو کیا کہیں۔

فیصل کریم کنڈی نے کہا کہ ماضی میں مسلم لیگ ن ڈکٹیشن لیتی رہی ہے،کالا کورٹ پہنتے رہے ہیں،لانگ مارچ کرتے رہے ہیں آج اُنہوں نے ان کو ڈیس آن کرلیا ،یہ سمجھتے ہیں کہ وہ شاید ہماری طرف آگئے ہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔پیپلزپارٹی کے رہنما قمر زمان کائرہ نے کہا ہے کہ ریاستی اداروں کو اپنا کام ، انٹیلی جنس اداروں کو اپنا کام کرنا چاہئے، سیاسی جماعتوں کو توڑنا بنانایا ان کے درمیان اتحاد بنانا یہ کام جب بھی اسٹیبلشمنٹ نے کیا اس سے پاکستان کے جمہوری نظام کو نقصان پہنچا ہے، ان کا کہنا تھا کہ پی پی پی کے ساتھ تو یہ معاملہ1977کے بعد سے بہت دفعہ ہو اہے ، کبھی ہمیں حکومت میں نہیں آنے دیا گیا تو کبھی ہمارے لوگوں کی وفاداریاں تبدیل کرائی گئیں اور کبھی ہماری لیڈر شپ پر الزام لگایا گیا ، اسٹیبلشمنٹ نے کبھی جمہوریت کو سپورٹ نہیں کیا۔قمر زمان کائرہ نے کہا کہ آج ان کے اپنے گھر میں آگ لگی تو میں کہنا چاہوں گا کہ ان کو اب ادراک ہوجانا چاہئے۔

جب مشرف نوا زشریف کی جان کے درپے تھے جب بھی ہم نے جی ڈی اے کے فورم سے ان کی رہائی کیلئے کوشش کی تھیں۔ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما کنور نوید جمیل نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ مصطفی کمال نے جو باتیں کی ہیں اس میں آدھا سچ تھا اور اب یہ باتیں بھی سامنے آگئی ہیں کہ اس میں خواہش کا عنصر بھی شامل تھا، ان کا کہنا تھا کہ ہمارا نہ تو کسی انضمام کرنے کا ارادہ تھا اور نہ ہی کسی سیاسی اتحاد کا پروگرام بنا یا گیا تھا، کنور نوید جمیل نے کہا کہ ہم پر جو دباؤ تھا وہ انضمام کرنے سے متعلق تھا لیکن ہم نے ایسا راستہ نکالا جس سے ہماری بچت ہو سکے اور جن کی طرف سے ہم پردباؤ تھا اس میں بھی تھوڑی بہت کمی آ سکے، ان کا کہنا تھا کہ فاروق ستار پر جس قسم کا دباؤ تھا انہوں نے اس وجہ سے سیاسی اتحاد کیلئے رضا مندی کا اظہار کیا اور وہ اتحاد سیاسی اتحاد کے طور پر تھا اور یہ کرنے کی وجہ صرف دباؤ کم کرنے کیلئے تھی۔

کنور نوید جمیل کا کہنا تھا کہ اگر ہمارے اسٹبلشمنٹ سے اچھے تعلقات ہوتے تو ہمارے تمام آفیسز بند نہ ہوتے،ہمارے خریدے ہوئے آفس بھی ابھی تک اسٹیبلشمنٹ نے واپس نہیں کئے، ہمارے ورکرز کے گھروں پر چھاپے پڑ رہے ہیں،گرفتاریاں بھی ہورہی ہیں،1992میں میری بھی وفاداری تبدیل کرانے کی کوشش کی گئی تھی، علی رضا عابدی سے متعلق سوال کے جواب میں کنور نوید نے کہا کہ میری ان سے کوئی بات نہیں ہوئی اس لئے میں ان کے بارے میں بتا نہیں سکتا۔پی ایس پی رہنما وسیم آفتا ب نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب تک ایم کیو ایم نام کی جماعت کراچی میں کام کرتی رہے گی تو الطاف حسین اور ’را‘ کی موجودگی سے انکار نہیں کیا جاسکتا کیونکہ سب کو پتا ہے ایم کیو ایم الطاف حسین کی ہے۔

وسیم آفتاب کا کہنا تھا کہ کنور نوید ان لوگوں میں شامل تھے جنہوں نے ڈی جی رینجرز زندہ باد کے نعرے لگائے تھے تو کیا اس وقت ان کی آنکھوں پر پٹی بند ھی ہوئی تھی ، یہ کہتے ہیں ہم پر پریشر ہیں لیکن بتاتے نہیں ہیں کہ پریشر کس کا ہے۔سینئرتجزیہ کار مظہر عباس نے پروگرام میں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ نظریاتی سیاست ختم ہوچکی ہے، ہر الیکشن سے پہلے ٹینڈر کھلتا ہے، جس طرح پی ایس ایل میں بڈنگ ہورہی ہے اس طرح سیاستدانوں کی بھی بڈنگ ہونی چاہئے ، پی ایس پی ایم کیو ایم سے ملتی ہے تو وہ ان کا کام ہیں اور انہی کو زیب دیتا ہے، جس کا دہشتگرد پکڑنے کا کام ہے وہ اپنا کام کرے ،1992میں بھی زبردستی وفاداریاں تبدیل کی گئیں، ان دونوں جماعتوں کے درمیان کچھ کامن پوائنٹس ہیں لیکن پی ایس پی یہ بھی کہتی ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان کا الطاف حسین سے بھی تعلق ہے۔

تازہ ترین