• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
Coastal Settlements Change In Drug Bases

رپورٹ: آغاخالد...پولیس رپورٹ کے مطابق کراچی کے تعلیمی اداروں میں منشیات سپلائی کرنے والوں کے زیادہ اڈے ساحل سمندر سے متصل آبادیوں ابراہیم حیدری ، ریڑھی گوٹھ اور چشمہ گوٹھ میں واقع ہیں اور ان اڈوں سے شہر کے تعلیمی اداروں سمیت مختلف مقامات پر ہیروئن دیگر منشیات یومیہ بنیاد پرسپلائی کی جارہی ہیں۔

جس نےنواحی بستیوں میں تباہی مچا کر رکھ دی ہے ۔ سی پی ایل سی اور پولیس ریکارڈ کے مطابق ان بستیوں میں دس سالوں میں 2500سے زیادہ لوگ منشیات کی زیادتی کی وجہ سے ہلاک ہوئے اور چیئر مین ڈسٹرکٹ کونسل ملیر کی جانب سے کمشنر کراچی کو خط لکھے جانے اور بار بار یاد دہانیوں کے باوجود کوئی سخت ایکشن نہ لیا گیا ۔

جس کی وجہ سے یہ موت کدے نہ صرف طاقتور ہوتے جارہے ہیں بلکہ وسیع تر انسانی اموات کا سبب بن رہے ہیں۔

جنگ کے پاس موجود دستاویزات،ویڈیو اور تصاویر کے مطابق منشیات فروشوں کی مخالفت کرنے والوں کو دن دیہاڑے بے دردی سے قتل کردیا جاتا ہے اور ان کی لاشیں جلادی جاتی ہیں اور مخالف ماہی گیروں کی لانچوں کو بھی آگ لگادی جاتی ہے ۔ ایسا کرنے والوں کے خلاف عدالتی احکامات کےباوجود پولیس کارروائی کرنے سے بے بس نظر آتی ہے

جبکہ یہ ساحلی بستیاں سندھ کی حکمراں جماعت کا مضبوط گڑھ ہیں اور یہاں 35 سالوں سے ان کےحمایت یافتہ نمائندے جیت رہے ہیں اس سلسلے میں اس نمائندے نے منشیات کے خلاف سرگرم ملکی ادارے اینٹی نارکوٹیکس کنٹرول بورڈ، ایکسائز ، ڈسٹرکٹ پولیس، سی آئی ڈی اور دیگر اداروں سے رابطہ کرکے نقطہ نظر معلوم کیا تو علاقہ تھانہ سمیت تمام اداروں نے ساحلی علاقوں میں منشیات فروشوں کے مضبوط نیٹ ورک کے الزام کو تسلیم کرتے ہوئے اپنی بھرپور کارروائیوں کی مثال دی۔

مگر علاقہ لوگوں کے تاثرات اس کے برعکس نکلے ان کا کہنا ہے کہ آج تک یہ ادارے منشیات فروشوں کی کمر نہیں توڑسکے اور نہ ہی ان کی سرگرمیوں کو کم کیا جاسکا جس کی وجہ سے علاقہ کے لوگوں میں خلاف خوف و ہراس پایا جاتا ہے

وہ سمجھتے ہیں کہ قانون نافذ کرنے والے اداروں سے زیادہ طاقتور ہونے کی وجہ سے ان کی مخالفت ان کی زندگیاں خطرے میں ڈال سکتی ہے جبکہ ایک حساس ادارے کی ایک رپورٹ کے مطابق

کراچی کی ان ساحلی بستیوں میں منشیات سپلائی کرنے والوں میں ائرپورٹ کے نزدیک ایک سرکاری بینک اور فشری میں تعینات دو الگ الگ سرکاری ملازمین اہم کردار ادا کرتے ہیں جن کا ریکارڈ منشیات کے خلاف سرگرم وفاقی اور صوبائی اداروں کے پاس موجود ہے مگر وہ نامعلوم وجوہ کی بنا پر ان کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہیں۔

منشیات فروشوں کے خلاف جنگ کو ملنے والی تفصیلات کے مطابق سی پی ایل سی کے پاس چھیپا اور ایدھی کے ریکارڈ کے مطابق صرف منشیات کی وجہ سے 2015میں 12افراد ہلاک ہوئے۔

جبکہ 2016میں 362 اور 2017 میں 206ہلاک ہوچکے ہیں جن میں سے 337کی تدفین ایدھی یا چھیپا لاوارث قرار دیکر کی ۔جبکہ 243لاشیں ورثاءکے حوالے کی گئیں واضح رہےکہ یہ اعداد و شمار ابراہیم حیدری ، ریڑھی گوٹھ اور چشمہ گوٹھ کے ہیں صرف تین ساحلی آبادیوں میں منشیات کے آٹھ سے دس چھوٹے اور تین بڑے اڈے بتائے جاتے ہیں۔

محکمہ ایکسائز کے حال ہی میں اس علاقے می تعینات ہونے والے افسر کرم اللہ کلوڑ نے جنگ کو بتایا کہ زیادہ تر منشیات بلوچستان کے علاقے سے ان ساحلی بستیوں میں لانچوں اور مسافر بسوں اور مال بردار ٹرکوں کے ذریعے لائی جاتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اپنی تعیناتی کے بعد انہوں نے چار بڑے آپریشن کرکے چھے منشیات فروشوں کو گرفتار کیااور ان کے مقدمات عدالتوں میں چالان کئے جبکہ اینٹی نارکوٹیکس بورڈ کے غلام شبیر نے بھی اس طرح کے متعدد دعوے کئے تاہم انہوں نے اس سلسلے میں متعدد بار رابطے کے باوجود اپنے افسران سے رابطہ قائم نہیں کروایا۔

بہت زیادہ اصرار پر انہوں نےایک مقامی اخبار کا حوالہ دیا ااور کہا کہ اس میں ان کی پورے صوبے میں کی جانے والی کارروائیوں اورکارکردگی کی رپورٹ چھپی ہے اس سے مدد لےلیں ۔

جبکہ ڈپٹی کمشنر ملیر سید محمد علی شاہ نے کہا کہ دو ہفتے قبل کمشنر کراچی کی صدارت میں اس سلسلے میں ایک الگ سے اجلاس ہوا ہے جس میں منشیات فروشوں کے خلاف بھرپور کارروائی کا فیصلہ کیا گیا ہے اور مختار کار اور علاقہ پولیس اپنی زیر نگرانی دو کارروائیاں کرکے متعدد ملزمان کو گرفتار اور منشیات کے کئی اڈے بند کرواچکے ہیں

علاقہ مختار کار اعجاز احمد نے دعوی کیا کہ یہ سلسلہ منشیات کے آخری اڈے کےبند ہونےتک جاری رہے گا انہوں نے بھی اس بات کو تسلیم کیا کہ سب سے زیادہ منشیات کے اڈے ریڑھی گوٹھ میں پائے جاتے ہیں اور اس کے بعد ابراہیم حیدری کا نمبر آتا ہے جہاں علاقہ پولیس نے بھی فوکس کیا ہوا ہے

اس طرح ڈسٹرکٹ ملیر کے چیئر مین سلمان عبداللہ مراد نے کمشنر کراچی کے نام 17اگست 2017کو لیٹر نمبر No.DCK/Chairman/81/2017میں سکھن تھانے کی حدود ریڑھی گوٹھ میں منشیات کے اڈوں کے خلاف کارروائی کی استدعا کی ہے

انہوں نے اپنے لیٹر میں نشاندہی کی ہے کہ صرف اس ایک یوسی میں تین ہزار سے زائد لوگ منشیات سے متاثر ہیں جن کے گھروں کا مستقبل تاریک ہوچکا ہے ان گھروں کو بچانے کیلئے فوری طورپر کارروائی کی جائے ۔


ڈسٹرکٹ ملیر کے وائس چیئر مین رفیق جت نے جنگ کو بتایا کہ ان کو منشیات فروشوں کی مخالفت کرنے پر جان لیوا حملوں کا سامنا کرنا پڑا وہ ریڑھی گوٹھ میں علاقہ کے لوگوں کے
مسائل کے حل کیلئے دورے پر تھے کہ ان کی گاڑی پر اندھا دھند فائرنگ کی گئی وہ بال بال بچ گئے جس کی براہ راست خبریں ٹی وی پر بھی نشر ہوئیں ۔

مگر سکھن تھانے نے آج تک مقدمہ درج نہیں کیا ،اس سے منشیات فروشوں کی طاقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ریڑھی گوٹھ میں ایک خصوصی عدالتی اسپیشل کیس نمبر 890/2016 کے مطابق 2009میں منشیات فروشوں کی مخالفت پر اسماعیل کو قتل کرکے اس کی لاش سمندر میں بہادی گئی جس پر اس کا بیٹا یونس اپنے والد کے قتل کا مقدمہ درج کرانے کیلئے آٹھ سال تک دھکے کھاتا رہا۔

مگر منشیات فروشوں کے اثر و رسوخ نے اسے کامیاب نہیں ہونے دیا اور اسی دوران اس پر متعدد قاتلانہ حملے کئے گئے مگر وہ اپنے عزائم سے باز نہ آیا اور مسلسل پولیس کو مدد کیلئے بلاتا رہا تو مشتعل ہوکر15جون 2016کو منشیات فروشوں نے اسے پکڑ کر باندھا اور پیٹرول چھڑک کر آگ لگادی۔

اور یہ سب کچھ ریڑھی گوٹھ کے خاصخیلی محلہ کے مین بازار میں کیا گیا اسے زخمی حالت میں علاقہ کے لوگوں نے سول اسپتال پہنچایا جہاں پولیس دستاویزات کے مطابق ایم ایل او نور احمد نے اس کا نزاعی بیان ریکارڈ کیا۔

سکھن تھانے میں اس کا مقدمہ 94/2016 درج کیا گیا۔ 15جون 2016کو اینٹی ٹیررازم کورٹ میں چالان اور ایک گرفتار ملزم بدنام منشیات فروش اسماعیل لشکری کو بھی پیش کیا گیا جس پر عدالت میں کیس چلا اور جج جاوید عالم نے ملزم کو 24اگست 2017 کو عمر قید اور ڈیڑھ لاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی۔

عدالتی فیصلےمیں اس کے والد کے قتل اور لاش کو سمندر میں بہانے کا بھی حوالہ دیا گیا ہے ۔

 

تازہ ترین