• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مردم شماری کے نتائج کی روشنی میں نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے تعین پر سیاسی جماعتوں میں اختلاف کی وجہ سے آئندہ عام انتخابات کے بروقت انعقاد کے حوالے سے ملک بھر میں بجا طور پر سخت تشویش پائی جاتی تھی۔اس اختلاف کے جلد دور نہ ہونے کی صورت میں انتخابات کے غیرمعینہ مدت تک ٹل جانے کے خدشات محسوس کیے جارہے تھے جس کا نتیجہ پورے جمہوری نظام کی بساط لپیٹ دیے جانے کی شکل میں بھی نکل سکتا تھا۔تاہم گزشتہ روز وزیر اعظم کی صدارت میں ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل کے اجلاس میں اس مسئلے کو اتفاق رائے سے حل کرکے ہماری سیاسی قیادت نے اختلافات کو افہام و تفہیم کے جمہوری طریق کار کے مطابق دور کرنے کا خوشگوار اور خوش آئند مظاہرہ کیا۔ اس سے پہلے قومی اسمبلی کے اسپیکر کے بلائے ہوئے پارلیمانی لیڈروں کے اجلاس میں بھی اس بارے میں اتفاق کرلیا گیا تھا لیکن قومی اسمبلی میں منظوری کے لیے آئینی ترمیم کے پیش کیے جانے پر صورت حال تبدیل ہوگئی تھی۔ اس موقع پر پاکستان پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم نے سندھ میں مردم شماری کے نتائج پر عدم اطمینان کا اظہار کیا تھا اور یہ دونوں جماعتیں اس ضمن میں اپنے تحفظات دور کیے جانے سے پہلے نئی حلقہ بندیوں پر راضی نہیں تھیں۔ اس تعطل کو دور کرنے کے لیے وزیر اعظم نے مشترکہ مفادات کونسل کا اجلاس طلب کیا ۔اس اجلاس میں پائے جانے والے تحفظات کے ازالے کا نہایت معقول اور قابل عمل حل تلاش کرلیا گیا جس کے بعد چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ نئی حلقہ بندیوں کے سلسلے میں آئینی ترمیم پر متفق ہوگئے۔ وزیر اعلیٰ سندھ نے مردم شماری کے نتائج کو مشروط طور پر قبول کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ان نتائج پر سندھ کے عوام کے تحفظات دور کرنے کے لیے تجویز پیش کی کہ ایک یا دو فی صد آبادی کی از سرنو آزمائشی طور پر مردم شماری کرائی جائے۔ انہوں نے مردم شماری کے بلاکس کا ڈیٹا جلد جاری کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔وزیر اعظم نے اس تجویز پر رضامندی ظاہر کی اور ایک فی صد آبادی کی آزمائشی مردم شماری کا فیصلہ ہوگیا۔وزیر اعلیٰ پنجاب نے اس عمل کو زیادہ قابل اعتباربنانے کے لیے تجویز دی کہ یہ ایک فی صد مردم شماری بیورو برائے شماریات کے بجائے کسی تیسرے ادارے سے کرائی جائے۔ اجلاس کے بعد وزیر اعظم کے ترجمان نے پریس کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ مشترکہ مفادات کونسل کے اس شاندار فیصلے نے تمام ابہام اور شکوک و شبہات دور کردیے ہیں۔موجودہ مردم شماری کے عبوری نتائج کومؤثر اور تمام جماعتوں اور صوبوں کے واسطے قابل قبول بنانے کی خاطر ملک میں تمام مردم شماری بلاکس میں سے ہر صوبے میں ایک فی صد کو مشین کے ذریعے رینڈم بنیادوں پر منتخب کیا جائے گا اور وہاں فوری طور پر دوبارہ تھرڈ پارٹی مردم شماری کرائی جائے گی۔پھر ان اعداد وشمار کا موجودہ اعداد وشمار سے موازنہ کیا جائے گا، اس عمل کی تکمیل کے لیے تین ماہ کی مدت مقرر کی گئی ہے لیکن آئینی ترمیم اب فوری طور پر منظور ہوجائے گی اور نئی حلقہ بندیوں کا کام شروع کردیا جائے گا تاکہ وقت ضائع نہ ہو اور الیکشن کمیشن وقت پر انتخابات کراسکے۔ بلاشبہ مشترکہ مفادات کونسل نے اپنی اس مثبت کارکردگی سے ملک کو کسی بحران کا شکار ہونے سے بچالیا اور یوں حکمت و ہوشمندی کا اچھا ثبوت دیا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اس ادارے کو تمام بنیادی قومی امور پر اتفاق رائے کے لیے مزید فعال اور متحرک بنایا جائے۔توقع ہے کہ اس فیصلے کی روح کے مطابق نئی انتخابی حلقہ بندیوں کے لیے آئینی ترمیم کی منظوری کے عمل کے دوران اب کسی فریق کی جانب سے بھی پہلے کی طرح کسی نااتفاقی کا مظاہرہ نہیں ہوگا۔ وزرائے اعلیٰ کے اس فیصلے کو ان کی پارٹیاں بھی شرح صدر کے ساتھ قبول کریں گی اور صوبوں کے عوام اور تمام سیاسی جماعتیں بھی تاکہ بروقت انتخابات کی جو راہ ہموار ہوئی ہے اس میں پھر کوئی رکاوٹ پیدا نہ ہو ۔ شفاف، منصفانہ اور غیرجانبدارانہ انتخابات کا انعقاد ہی اب پوری قوم کا مطمح نظر ہونا چاہیے تاکہ جمہوری عمل کے استحکام اور تسلسل کے ذریعے قومی تعمیر و ترقی کا سفر جاری رہ سکے۔

تازہ ترین