• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلامی جمہوریہ پاکستان جنوبی ایشیا کے شمال مغرب وسطی ایشیااور مغربی ایشیا کیلئے دفاعی طور پر اہم حصے میں واقع ایک خود مختار اسلامی ملک ہے تقریباً 22کروڑ آبادی کے اعتبار سے یہ دُنیا کا چھٹا بڑا ملک شمار ہوتا ہے۔ 796096مربع کلو میٹر یعنی 307,374مربع میل کے ساتھ پاکستان دُنیا کا رقبے کے اعتبار سے 36واں بڑا ملک ہے۔ اِسی ملک یعنی پاکستان کے شہر لاہور سے ایک سڑک’’ موٹر وے‘‘ کے نام سے اسلام آباد جاتی ہے، 367کلو میٹر کی اِس سڑک پر پاکستان کا قانون لاگو نہیں ہوتا، اب میرا یہ کالم پڑھنے والے سوچیں گے کہ ایسا کیسے ممکن ہے کہ پاکستان کی سڑک ہے اور اُس پر پاکستان کا قانون لاگو نہیں ہوتا؟ اِس سوال کا جواب میں کچھ واقعات کی صورت میں دینا چاہوں گا۔ موٹر وے پر حد رفتار 120کلو میٹر ہے اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق 150کلو میٹر کی رفتار پر جب خانقاہ ڈوگراں کے قریب پہنچتے ہیں تو تیز رفتاری کی وجہ سے اُن کا چالان ہوتا ہے، وہ چالان کی رقم ادا کر دیتے ہیں، چیئر مین این ایچ کے شاہد اشرف تارڑ کی گاڑی نمبری جی ڈبلیو 971برہان انٹر چینج کے پاس ڈیوٹی آفیسر کے اشارہ کرنے پر نہیں رُکتی، جرمانہ کر دیا جاتا ہے، جرمانہ کے بعد وہی گاڑی جب رشکائی انٹر چینج کے پاس پہنچتی ہے تو تیز رفتاری کی وجہ سے اُسے دوبارہ جرمانہ کر دیا جاتا ہے۔ پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی 546نمبر والی سیاہ لینڈ کروزر 132کلو میٹر کی رفتار سے چلاتے ہوئے چالان کروا بیٹھتے ہیں، موٹر وے پولیس چالان کرتی ہے سابق گورنر پنجاب اور موجودہ رہنما تحریک انصاف چوہدری سرور کا جب وہ’’کالا شاہ کاکو‘‘ کے قریب تیز رفتاری کرتے کیمرے کی آنکھ سے پکڑے جاتے ہیں ۔ موٹر وے پر لاہور سے فیصل آباد جاتے ہوئے پنڈی بھٹیاں انٹر چینج کے قریب 130کلو میٹر کی رفتار سے گاڑی چلاتے ہوئے قومی کرکٹر کامران اکمل کا چالان ہوتا ہے۔ خیبر پختون خوا کے مشیر اطلاعات مشتاق غنی 150کلو میٹر رفتار سے گاڑی چلاتے ہوئے موٹر وے پر چالان وصول کرتے ہیں۔ سینیٹر سلیم مانڈی والا موٹر وے پر تیز رفتاری کرتے ہوئے پولیس کے ہتھے چڑھتے ہیں اور چالان کے پیسے ادا کرتے ہیں۔ اسی طرح محمد عدنان نامی ایک نوجوان دِن کے وقت موٹر وے پر ہیڈ لائٹس جلاتا ہے تو اِس غیر قانونی فعل پر اُسے جرمانہ ادا کرنا پڑتا ہے، وزراء یا پاکستان کے بڑے موٹر وے پر قانون کی پاسداری کرتے ہیں، اگر کوئی پاسداری نہ کرے تو اُس کا چالان ہوتا ہے چالان کے پیسے ادا کرتے وقت کسی قسم کی بدتمیزی یا رکاوٹ نہیں ڈالی جاتی، بغیر چُوں چراں کئے چالان کی رقم جمع کرا دی جاتی ہے، اگر چیئر مین نیشنل ہائی وے اتھارٹی شاہد اشرف تارڑ کا چالان ہوا تو چالان کرنے والے افسران امجد علی، ذوالفقار علی اور ضیاء اللہ کے تبادلے کر دیئے گئے لیکن عدالت عالیہ نے اُن تبادلوں کو روک دیا۔ اب آپ ہی بتائیں کہ موٹر وے پر پاکستان کا قانون لاگو ہوتا ہے کیا؟ اگر ایسا ہوتا تو وزراء، اسپیکرقومی اسمبلی، چیئر مین نیشنل ہائی وے، سینیٹر ز اور دوسرے حکومتی مشیران اپنا چالان ہونے دیتے، یہ لوگ تو اپنے واقف کار جرائم پیشہ افراد کا چالان نہیں ہونے دیتے تو پھرآپ ہی بتائیںکہ کسی کی جرات ہے کہ وہ موٹر وے پر پاکستان کے اِن بڑوںکو قانون کی پاسداری کروا سکے، میں سمجھتا ہوںاِس 400میل کی سڑک پر قانون ہے، لیکن جس ملک میں یہ سڑک ہے وہاں قانون کیوں نہیں ؟اگر پاکستان میں لا اینڈ آرڈر کی کمزور پوزیشن کو سہارا دینا مشکل ہے تو کیوں نہ موٹر وے پولیس کے ہاتھ میں ملک کی باگ ڈور دے دی جائے ؟ کیوں کہ اِن پولیس والوں کو کسی کے عہدے یا اُس کے اختیارات کا کوئی ڈر نہیںہے۔ موٹر وے کے ذریعے اسلام آباد پہنچنے والے جب متعلقہ انٹر چینج سے اسلام آباد شہر میں داخل ہوں تو ایک لنک روڈ قومی اسمبلی کی طرف جاتا ہے، اُس قومی اسمبلی کی طرف جاتا ہے جہاں کچھ دِن پہلے حکومتی پارٹی کی جانب سے قرارداد پیش ہوئی کہ نا اہل وزیر اعظم اپنی سیاسی پارٹی کا صدر بن سکتا ہے، پلک جھپکتے یہ قرارداد ایک قانون کی شکل میں منظور کر لی گئی، اب دیکھنا یہ ہے کہ موٹر وے اور اُس سے ملحقہ سڑک کی منزل یعنی قومی اسمبلی میں قانون بننے اور اُس کی پاسداری کرانے کی رفتارکس قدر تیز ہے؟جس اسمبلی میں ایک نااہل وزیر اعظم کو اپنی پارٹی کا صدر بنانے کا قانون چند منٹوں میں منظور کر لیا جاتا ہے تو اُسی اسمبلی میں پاکستان سے غربت اور مہنگائی ختم کرنے کی قرارداد کیوں منظور نہیں ہو سکتی؟ پاکستان کی جیلوں میں جرائم پیشہ افراد پھانسیوں کے آرڈرز لئے کئی سال سے محفوظ زندگی گزار رہے ہیں اُن کو پھانسی دینے کا قانون تاخیر کا شکار کیوں ہے ؟فوری پھانسیوں سے جنم لینے والا ڈراور خوف پاکستان میں امن و امان کی بہتر صورت حال پیدا کر سکتا ہے، جرم ثابت ہو گیا، گواہان نے بیانات دے دیئے، پھر پھانسی میںتاخیر کی وجہ مجرم کا کسی ایم پی اے یا ایم این اے سے واقف ہونا ہی ہو سکتا ہے، عدالتی نظا م اور فیصلوں میں سست روی جرائم کو پنپنے میںمدد دیتی ہے اِس لئے پاکستان کی عدالتوں کو یکساں اور فوری انصاف دینے میں تاخیر نہیں کر نی چاہئے۔ بات کسی دوسری جانب چلی گئی میرا کہنے کا اصل مقصد یہ ہے کہ امیر اور غریب کیلئے ایک جیسا قانون ہونا ضروری ہے، ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ کسی غریب کے پاس میٹرک کی جعلی سند ہو تو اُسے سزا دے دیں اور جن وزراء کے پاس جعلی ڈگریاں تھیں انہیں کچھ نہ کہا جائے، عام اور خاص افراد کو عدالتی فیصلوں کو ماننا چاہئے، اب اگر ہماری موجودہ حکومت عدالتی فیصلوں کو نہیں مان رہی اور وہ اِن فیصلوں کو انتقام کا نام دے رہی ہے تو عام آدمی عدالتی فیصلے کی قدر کیسے کرے گا ؟اس نظام کو بدلنے کی بھی ضرورت ہے کہ جس کے تحت غریب کو سزا اور امیر کو جرم کے بدلے سیلوٹ کئے جاتے ہیں۔ آئے دن قانون کی گرفت میں غریب بندے تشدد سے مرتے ہیں جبکہ آج تک کسی امیر بندے کی موت واقع نہیں ہوئی۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ ہمارے ہاں بہت سے مسائل کا حل قانون کی پاسداری میں ہے جب تک قانون کی حکمرانی نہیں ہو گی اور قانون کی نظر میں صدر، وزیر اعظم اور عام شہری یکساں حیثیت کے حامل نہیں ہوں گے اس وقت تک وطن عزیز کی ترقی اور فلاح و بہبود ایک خواب ہی رہے گا، اِس لئے حکومت پاکستان کو مشورہ ہے کہ وہ پاکستان بھر میں قانون کی پاسداری کو یقینی بنائیں، امیر اور غریب کیلئے ایک جیسا قانون ہو، اگر وہ ایسا نہیں کر سکتے تو پاکستان کے تمام گلیوں، محلوں، سڑکوں، کھیتوں، کھلیانوں، اسکولوں، کالجز، یونیورسٹیز، حکومتی ایوانوں اور سرکاری اداروں پر بلڈوزر چلا کر یہاں موٹر وے ہی موٹر وے بنا دیں تاکہ پورے پاکستان میں سب کیلئے یکساں قانون نافذ ہو سکے اور پاکستانی عوام بے خوف اور سُکھ کی نیند سویا کریں۔

تازہ ترین