• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سائیں ہرے سے شہزاد شفیع تک کسے خبر تھی کہ وہ پارٹی پاکستان پیپلزپارٹی جسے اسکے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے آج سے نصف صدی قبل لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر اپنے ساتھیوں کے ساتھ قائم کیا تھا وہ پارٹی اسی لاہور میں پچاس برسوں بعد انتخابات میں محض پندرہ سو ووٹ حاصل کر کےبری طرح ہار جائیگی۔
وہ پارٹی جس کیلئے اسکے انتہائی بحرانوں کے دنوں میں جب دائیں بازو کے نو ستاروں کے اتحاد کی تحریک زوروں پر تھی بلکہ خون خرابےکی شکل اختیار کر چکی تھی تب بھی قومی اسمبلی کے فلور پہ کھڑے ہو کر وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کہا تھا’’ شکاری کتے میرے خون کے پیاسے ہیں۔ وہ ٹیلیفون پر کہہ رہے تھے پارٹی ختم ہو چکی ہے میں کہتا ہوں ُپارٹی ابھی ختم نہیں ہوئی‘‘ یہ مئی انیس سو ستتر تھا اور یہ نومبر دو ہزار سترہ ہے۔ بھٹو کی پارٹی کبھی ختم ہوئی نہیں ایک کمزور پڑتی رائے اب بھی ہے ۔ بھٹو کی پارٹی ختم ہو چکی ایک مضبوط جڑتی ہوئی رائے ہے۔
لیکن میرے دوست اور پاکستان پیپلزپارٹی کے عاشق پروانے کی حد تک جیالے شہزاد شفیع اس بات کو نہیں مانتے اور اپنے اس نہ ماننے کے ثبوت میں انکے پاس کئی دلائل اور گواہیاں موجود ہیں۔ سرائیکی وسیب سے تعلق رکھنے والے نوجوان شہزاد شفیع لمز یونیورسٹی سےآئی ٹی گریجویٹ ہونے باوجود پڑھے لکھے پنجاب میں تا حال بیروزگار ہیں لیکن محنت مزدوری کو عیب نہیں سمجھتے۔ غم روزگار سے زیادہ غم جاناں اور غم دوراں کی انہیں فکر رہتی ہے۔ غم جاناں اورغم دوراں انکے پاکستان پیپلزپارٹی اور اسکی قیادت سے عشق اور پاکستان کے حالات ہیں۔ شہزاد شفیع سدا کے سیلانی اور سفر میں ہوتے ہیں۔ وہ سفر میں ہوتے ہیں وہاں وہاں جہاں جہاں پیپلزپارٹی کی بڑی ریلیاں ہوتی ہیں۔ پھر وہ آصف علی زرداری کی ہوں کہ بلاول بھٹو زرداری کی کہ کسی اور لیڈر کی۔ سندھ میں کراچی میں ریلیاں ہوں کہ لاڑکانہ کی (تازہ وہ حیدرآباد میں بلاول بھٹو کی ریلی میں شریک تھے) پنجاب میں لاہور کی ریلی ہو کہ سرائیکی بیلٹ کی پی پی ریلیاں ہوں کہ پختون خوا میں چترال ہو کہ پشاور یا چارسدہ شہزاد شفیع اپنے ساتھیوں کے ہمراہ چاہے تن تنہا پہنچا ہوا ہوتا ہے۔ میں اس دن شہزاد سے کہہ رہا تھا کہ وہ پنجاب میں تھیٹر کے عروج کے زمانوں کی اداکارہ بالی جٹی کے مداحوں کی طرح ہے کہ جہاں جہاں بالی جٹی کا تھیٹر پہنچا ہوا تھا وہاں وہاں اس کے مداح پہنچے ہوئے سب سے اگلی کرسیوں پر بیٹھے ہوتے تھے۔ یا پھر مجھے اب یاد آیا کہ لکی ایرانی سرکس کے شائقین بھی اسی طرح ہوتے تھے۔ لیکن شہزاد شفیع تماشائی تو نہیں ایک پروانہ ہے۔ اگلی کرسیوں میں جگہ ملنے سے بےنیاز۔ میرے گائوں کا کلاسیکل جیالا علم دین جسکے سر پر بینظیر بھٹو جب ہاتھ گھماتی تو وہ کہتا ’’ادی ایک بار پھر‘‘کیا کوئی جیالا آج کے دور میں زرداری سے یہ فرمائش کرسکتا ہے؟
بلکہ شہزاد شفیع پیپلزپارٹی کے جیالوں کی اس نسل سے تعلق رکھتا ہے جو پیپلزپارٹی میں اکثر شامل ہی بینظیر بھٹو کی آخری دفعہ جلاوطنی سے وطن واپسی پر ہوئےہیں ۔ یہ پرانے کلاسیکل قسم کے جیالوں سے مختلف نسل ہے۔ انٹرنیٹ اور سوشل میٖڈیا کے زمانے کی۔
شہزاد شفیع کی پی پی پی کی کسی بھی بڑی ریلی میں شاید یہ پہلی بار شرکت تھی کہ جب بینظیر بھٹو اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو کراچی پہنچی تھیں اور کارساز پر ان پر خودکش دہشت گردانہ حملہ ہوا تھا۔ جس حملے میں سو سے زائد افراد جان سے گئے تھے جن میں بڑی تعداد پیپلزپارٹی کے جیالوں کی، وہ بھی اکثریت لیاری اور ملیر والوں کی تھی۔ سنگھو لین لیاری کے لڑکے بھی اس میں شامل تھے۔ یوں کہیے کہ وہ ریلی جس میں لنڈی کوتل سے لیاری تک کے لوگ شامل تھے۔
وہ پارٹی جو بہت سوں کا خیال ہے کہ ستائیس دسمبر والے دن راولپنڈی میں قتل ہو کر گڑھی خدا بخش میں دفن ہو گئی۔ لیکن شہزاد شفیع اور اس جیسے جیالوں کا خیال اس سے مختلف ہے۔ دوسرے لفظوں میں انکے تئیں پارٹی ابھی ہی شروع ہوئی ہے۔
لیکن میرے دوست مسعود منور جو کہ ذوالفقار علی بھٹو کے زمانے میں ایکٹو صحافت و سیاست مین تھے اور جو فوجی آمر ضیا کی آمریت میں سیاسی جلاوطنوں کی پہلی نسل ہیں انکا کہنا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کے ساتھ ہی پھانسی پا گئی تھی۔
لیکن اس پارٹی کی بڑی بدقسمتیوں میں سے ایک یہ ہےکہ پارٹی میں نہ اندرونی جمہوریت رہی ہے اور نہ اسکے اندر کبھی انتخابات ہوئے ہیں، دوسرا یہ کہ پارٹی اپنے ہر دور میں موقع پرست وڈیروں، جاگیرداروں، سرداروں ریٹائرڈ سول اور بیوروکریٹس کیلئے بڑا بیڑا رہی ہے۔ جب اس پر برا وقت آیا تو موقع پرستوں نے طوفان کو بھانپ کر جہاز سے چوہوں کی طرح جمپ لگائے ۔ اچھے زمانوں میں پھر واپس اسی جہاز پر آکر چڑھے ہیں۔
یہاں تک کہ ممتاز بھٹو اور حفیظ پیرزادہ جیسے کئی لوگ پارٹی کو اسکے برے دنوں میں چھوڑ گئے ۔ ٹکا خان نے نہیں چھوڑا وڈیرے اور بیرسٹر چھوڑ کر چلتے بنے۔ یہاںتک کہ حاکم علی زرداری۔
وہ پارٹی جسکا آج بھی ایک نیم انقلابی منشور تو موجود ہے جسے جے اے رحیم اور ڈاکٹر مبشر جیسے دماغوں نے لکھا تھا ( یہ اور بات ہے کہ محض پارٹی چیئرمین سے اختلاف رائے یا پالیسی پر اختلاف کرنے پر انہیں بری طرح انتقام کا نشانہ بنایا گیا کہ بھٹو کے اندر ایک انتہائی خراب سندھی وڈیرہ بھی بیٹھا تھا) اس پر بھٹو حکومت کے دوران تھوڑا بہت عمل بھی کیا گیا۔ لیکن بینظیر بھٹو کے دونوں ادوار حکومت چاہے اسکے بعد والا زرداری دور حکومت، کبھی بھی عمل نہیں ہوا۔
بلکہ بھٹو دور حکومت میں جو زرعی اصلاحات خود بھٹو کی طرف سے نافذ کی گئیں انکے اعلان سے قبل ہی سندھ اور ملک کے باقی جاگیرداروں کی طرح بھٹو خاندان نے بھی اپنی زمینیں بچانے کیلئے اپنے نوکروں ہاریوں یا خاندان کے افراد کے نام ’’تقسیم‘‘ کر دی تھیں۔ اسی لیے تو بھٹوکے بعد بھی بھٹو خاندان کے پاس بارہ ہزار ایکڑ زمین موجود رہی۔ دوسرا موقف اس پہ یہ ہے کہ درحقیقت بھٹو کی زرعی اصلاحات میں خود بھٹو خاندان کی زمینوں کا کافی حصہ بے زمین ہاریوں میں چلا گیا۔ لیکن ایسی بہت کمزور روایت ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھٹو کی بیٹی تھی کہ بھٹو خاندان یا اب زرداری خاندان نے پی پی پی کو اپنی جاگیر کی طرح چلایا۔ حالانکہ یہ ’’شہیدوں کی پارٹی‘‘ کہلاتی ہے۔ ۔ کبھی بھٹو کے فرشتوں نے بھی نہیں سوچا ہوگا کہ اس پارٹی کے سفید و سیاہ کا مالک حاکم علی زرداری کا خاندان ہوگا۔ اور بھٹو خاندان کا بیانوے فی صد گڑھی خدا بخش کی زمین کے نیچے۔
اگر سائیں ہرے کی پارٹی سے شہزاد شفیع کی پارٹی بننے تک پہنچتے ہوئےوہ پارٹی جو ایک ’’اسٹیبلشمنٹ‘‘ مخالف چہرہ اور مزاج رکھتی تھی اب اس پر کنونشن مسلم لیگ ہونے کے نئے جنم کا گمان ہوتا ہے۔ بس ایک پاور بروکر پارٹی۔ سندھ کو ہی لے لو جہاں پارٹی کی حکومت ہے اور وہ سندھ میں بدترین انداز حکمرانی کی تاریخ میں اپنا ثانی نہیں رکھتی۔ سوائے جام صادق علی حکومت کے جو سندھ پر بہرحال دور پر آشوب تھا۔ لیکن ایک بار پھر یہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کی ایک بڑی بدقسمتی ہوگی کہ پاکستان پیپلزپارٹی غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھوں نواز شریف اور اسکی پارٹی پاکستان مسلم لیگ کو پٹتے دیکھے اور بجائے جمہوری کلچر اور اداروں کو مضبوط کرنے کے انکے خاتمے کے ٹینڈر بھرنے کو آستینیں چڑھائے بولیاں لگاتی رہے۔ یاد رکھو کہ چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں۔

تازہ ترین