• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مسلم لیگ ن کے گرد شکنجہ بڑھتا جارہا ہے، اقتدار کی رعنائیاں حکمران جماعت سے روٹھتی ہوئی نظر آرہی ہیں، مزاحمت یا پھر مفاہمت کی بحث طویل ہوچکی، سابق وزیر اعظم نواز شریف اب تک فیصلہ نہیں کرپا رہے کہ مکمل جنگ کرنی ہے یا پھر مفاہمت کا راستہ اپنانا ہے۔ بیرونی ثالث روٹھ چکے ہیں۔ نواز شریف مضبوط گارنٹی چاہتے ہیں۔ اداروں پر مزید اعتبار کرنے کو تیار نہیں۔ پاناما کیس میں جو کچھ انہیں باور کرایا گیا، فیصلے میں سب کچھ الٹ ہوگیا۔ مسلم لیگ ن کے سربراہ اس مرتبہ مضبوط بیرونی گارنٹر چاہتے ہیں مگر کوئی اس معاملے میں پڑنے کو تیار نہیں ہے۔ مسلم لیگ ن کا مفاہمتی گروپ چاہتا ہے کہ مارچ تک معاملات کو نکال لیا جائے۔ پھر جارحانہ سیاست کا آغاز کرکے عام انتخابات کی تیاری کی جائے۔ مگر اسٹیبلشمنٹ اس چال کو بھانپ چکی ہے۔ مقتدر قوتیں چاہتی ہیں کہ مسلم لیگ ن سےتمام معاملات ابھی طے کرلئے جائیں وگرنہ دوسری صورت میں انہیں سینیٹ انتخابات تک نہ جانے دیا جائے۔ وفاقی دارالحکومت میں ان دنوں چہ میگوئیاں عروج پر ہیں۔ نواز شریف اداروں سے کھینچا تانی میں سینیٹ انتخابات تک جانا چاہتے ہیں۔ جبکہ ادارے کسی ڈیل کے بغیر یہ سب نہیں ہونے دیں گے۔ مسلم لیگ ن کی میٹنگز میں جو کچھ ہوتا ہے، میٹنگز کے بعد چند افراد کی جو بھی بیٹھک ہوتی ہے۔ اداروں کے پاس من و عن اطلاعات پہنچ جاتی ہیں۔ یہ بات درست ہے کہ نوازشریف کی نااہلی کے فیصلے کے بعد پلان بی موجود نہیں تھا۔ مگرا ب پلان بی کے ساتھ ساتھ پلان سی بھی تیار ہوچکا ہے۔ موجودہ حالات برقرار رہے تو کسی بھی قیمت پر سینیٹ الیکشن نہیں ہوسکے گا۔ 2018کے انتخابات کے بعد ایوان زیریں میں اکثریت کا خواب دیکھنے والی مسلم لیگ ن کو ایوان بالا میں اکثریت حاصل نہیں کرنے دی جائے گی۔
حالات بگڑتے جارہے ہیں۔ خیبر پختونخوا سمیت دیگر صوبوں کی صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل کراکے سینیٹ انتخابات کا رخ موڑا جاسکتا ہے۔ عام انتخابات کا فوری اعلان کرنے کے بعد عبوری حکومت قائم کی جاسکتی ہے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان تحریری طور پر آگاہ کردے گا کہ آئندہ تین ماہ میں انتخابات کی تیاری کرنا ممکن نہیں ہے۔ انتخابات مقررہ وقت یعنی 2018جون کے بعد ہی ممکن ہیں۔ اس لئے آئندہ چند ہفتوں میں قائم ہونے والی عبوری حکومت مزید چند ماہ قائم رہے گی۔ حالیہ حالات میں سابق وزیراعظم نوازشریف کے لئے ریلیف ملتا نظر نہیں آرہا۔ عدالتیں مسلم لیگ ن کے سربراہ سے روٹھ چکی ہیں۔ قانونی جنگ لڑنے کاا صول ہوتا ہے کہ عدالتوں کو اپنے خلاف نہ کیا جائے۔ جو وکیل یا موکل عدالتوں کو اپنے خلاف کردیتا ہے، وہیں سے اس کی ناکامی کا آغاز ہوجاتا ہے۔ بھٹو صاحب نے بھی یہی کیا تھا۔ انتہائی کمزور مقدمے میں پھانسی کو اپنی انا اور اداروں سے ٹکراؤ کی وجہ سے گلے لگا لیا۔ سپریم کورٹ کے معزز بنچ کے سامنے سماعت سے پہلے خط لکھ ڈالاکہ انہیں انصاف کی توقع نہیں ہے۔ نتیجہ سب کے سامنے تھا۔ نوازشریف کے بھائی اور پنجاب کے وزیراعلیٰ شہباز شریف کا سپریم کورٹ کے حوالے سے رویہ مجھے ذاتی طور پر پسند آیا۔ حدیبیہ کیس کی سپریم کورٹ میں سماعت سے ایک روز قبل ان سے اس خاکسار کی تفصیلی گفتگو ہوئی۔ شہباز شریف کا واضح موقف تھا کہ کہ مضبوط اور موثر قانونی جنگ لڑوں گا مگر سپریم کورٹ کی بالادستی اور آئین کی حکمرانی پر حرف نہیں آنے دوں گا۔ اپنا مقدمہ میڈیا ٹاکس یا سڑکوں کے بجائے سپریم کورٹ کے معزز بنچ کے سامنے سرنگوں ہوکر لڑوں گا۔ شہباز شریف کا موقف تھا کہ سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان سے انہیں انصاف کی توقع ہے اور عدالتی احترام برقرار رکھتے ہوئے اپنا کیس عوام کو بیان کروں گا۔ وہ تو جسٹس آصف سعید کھوسہ صاحب کی معذرت کے بعد بنچ ہی ٹوٹ گیا۔ اگر بنچ نہ بھی ٹوٹتا اور کیس کی سماعت شروع کرتا تو شہباز شریف کے ایسے مثبت رویے کو ضرور سراہاجاتا۔ ذاتی رائے ہے کہ سابق وزیراعظم نوازشریف نے عدالتوں کے حوالے سے جارحانہ ہو کر اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔ نظر ثانی کی درخواست میں ایسا بہت کچھ لکھا گیا ہے جو نہیں لکھا جانا چاہئے تھا۔ مگر مسلم لیگ ن کی پریس ریلز کا کسی بھی صورت دفاع نہیں کیا جاسکتا۔ ہمیشہ سپریم کورٹ کی بالادستی اور آئین کی حکمرانی پر لکھتا رہا ہوں۔ سابق وزیراعظم نوازشریف کا بھی بطور وزیراعظم ہمیشہ دفاع اس لئے کیا کہ سویلین بالادستی کا خواب شرمندہ تعبیر ہوجائے۔ عدالتوں کے رویے اور فیصلوں پر تو مورخ ہی بہتر روشنی ڈالے گا۔ مگر کسی بھی شخص کو سپریم کورٹ پر براہ راست تنقید کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ عین ممکن ہے آج جو صاحبان موجود ہیں، کل ان کی ریٹائرمنٹ کے بعد جو لوگ آئیں، وہ آپ کو ریلیف فراہم کردیں۔ طیارہ سازش کیس میں آٹھ سال بعد آپکو اسی سپریم کورٹ نے ریلیف دیا۔ لیکن اگر ہم نے ایک ادارہ ہی تباہ کردیا تو پھر کوئی بھی محفوط نہیں رہے گا۔ نوازشریف کو بھرپور سیاسی جنگ لڑنی چاہئے۔ مگر عدالتی فیصلوں اور ریمارکس پر بالکل تبصرہ نہیں کرنا چاہئے۔ پارٹی رہنماؤں کو اداروں کے حوالے سے ہر طرح کے بیانات دینےسے مکمل روک دیں۔ کسی اسٹیج پر اداروں کے حوالے سے کوئی بیان دینا ضروری بھی ہو تو نوازشریف پارٹی شرکاء سے مشاورت کے بعد خود بیان جاری کریں۔ سویلین بالادستی اور آئین کی حکمرانی میری رگوں میں بہتی ہے۔ مگر جو راستہ نوازشریف صاحب اختیار کررہے ہیں۔ اس سے یہ خواب ہمیشہ ہمیشہ کے لئے دفن ہوجائے گا۔ طیب اردوان سے لے کر چیئرمین ماؤ تک کسی نے بھی اداروں سے براہ راست ٹکر مول نہیں لی۔ طیب اردوان نے ایکشن کیا اور اداروں کو بہتر کیا۔ مگر آج آپ ایکشن کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ ادارے آپ سے زیادہ بہتر پوزیشن میں ہیں۔ سپریم کورٹ آف پاکستان کے حوالے سے تلخی بھلا کر قانونی جنگ کو بہتر بنانا ہوگا۔ جو لوگ آج ٹکراؤ اور اداروں پر کھل کر تنقید کا مشورہ دیتے ہیں۔ مزید چند ماہ میں ان میں سے کوئی آپکے ساتھ نہیں ہوگا۔ آپکی اور جماعت کی بقاکے لئے ضروری ہے کہ برداشت اور حکمت سے کام لیں۔ جو بھی فیصلے دئیے گئے ہیں، ان پر ریلیف انہی عدالتوں نے فراہم کرنا ہے۔ عدالتوں کو اپنے خلاف مت کریں۔ پاکستان کی مضبوطی کے لئے ضروری ہے کہ سپریم کورٹ کے ججز پر کوئی تنقید نہ کی جائے۔ اگر اگلے چند ہفتے یہ سلسلہ جاری رہا تو اس مرتبہ Eliminationہوگی۔ سینیٹ انتخابات ایک خواب ہی رہیں گے اور آج جو کام ادارے کررہے ہیں کل وہ آنے والی عبوری حکومت کرے گی۔

تازہ ترین