• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے پی ایس پی سے قربت کے چند ہی گھنٹوں بعددوبارہ فاصلے قائم کرلینا اِس حقیقت کا واضح عندیہ ہے کہ شہری سندھ اور خاص طور پر کراچی کے سیاسی ماحول میں ایک بار پھر مہاجر قوم پرستی کے رجحانات تیزی سے پروان چڑھ رہے ہیں۔ اِس سوال سے قطع نظر کہ قوم پرستی کی بھرپور انداز میں یہ بحالی اور مستقبل قریب میں اس کا ممکنہ بڑھاوا شہر، صوبے، ملک اور خود اردو بولنے والوں کے لئے کتنا سود مند یا نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے، یہ تبدیلی پچھلے چند برسوں میں بتدریج پیش آنے والے واقعات کاناگزیر پیش خیمہ ہے۔
دوسری جانب ایم کیو ایم پاکستان کے ساتھ الحاق کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے کردار سے متعلق پی ایس پی کے سربراہ مصطفی کمال کا انکشاف کسی بھی پاکستانی سیاست دان کی جانب سے سیاسی معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کے عمل دخل پر پہلی بار ایک بے باک بیان کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اِس بیان کے بعد ہی بلاول بھٹو، سعد رفیق، قمر زمان کائرہ، مریم نواز اور دیگر سیاست دانوں کی جانب سے اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار پر بنیادی نوعیت کے سوال اٹھائے گئے ہیں۔ اِس تناظر میں پی ایس پی کے رہ نما یقیناََ دادِ تحسین کے مستحق ہیں کیوں کہ اس خاص معاملے میں سیاست دانوں کی روایاتی خاموشی کی برف اب اِن کے اِس دو ٹوک بیان کی بدولت تیزی سے پگھلتی ہوئی محسوس ہو رہی ہے ۔اُدھر موجودہ ڈی جی رینجرز سندھ میجر جرنل محمد سعید نے بھی کامران خان کے 13نومبر کو پیش کئے جانے والے شو میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو کراچی کے امن میں اسٹیک ہولڈرز قرار دیکر مصطفی کمال کی بات کو بڑی حد تک اپنے الفاظ میں تسلیم کرلیا ہے۔
جہاں مصطفی کمال کے مذکورہ بیان پر مختلف سیاسی حلقوں کی جانب سے انتہائی سنجیدہ رد عمل سامنے آیا وہیں ڈاکٹر فاروق ستار کے ساتھ اِن کی پہلی مشترکہ پریس کانفرنس میں اِن کا طویل خطاب، چند ہی گھنٹوں بعد ایم کیو ایم پاکستان سے اِن کی دوری کا سبب بن گیا۔ تاثر ہے کہ مصطفی کمال اگر اِس تقریر میں ایم کیو ایم کا نام ونشان مٹا دینے اور مہاجر نعرے کے خلاف اپنے تاثرات کا اظہار نہ کرتے تو الحاق کا معاملہ آگے بڑھ سکتا تھا۔صورتحال کے محفوظ تجزئیے کے تحت کہا جاسکتا ہے کہ ماضی میںبھلا دی جانے والی مہاجر قوم پرستی ایک بار پھر کراچی اور شہری سندھ کی سیاست میں فیصلہ کن قوت بن کرسامنے آئی ہے۔ ساتھ ہی ساتھ سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے عمل دخل پر اپنے مذکورہ انکشاف اور مہاجر نعرے کے خلاف اپنے خیالات کے اِس بے باک اظہار کے بدلے مصطفی کمال نے بظاہرشہر کراچی میں اپنی روایتی مقبولیت کی قربانی دی ہے۔یعنی فی الحال شہر کے سیاسی ماحول پر ’’نعرہ ِمہاجر ‘‘ تلے ایم کیو ایم پاکستان کی بالادستی تیزی سے قائم ہوتی نظر آ رہی ہے ۔
یہ سچ ہے کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں ملک کے منتخب ایوانوں میں ایم کیو ایم کو برسوں انتہائی طاقتور اور موثر نمائندگی حاصل رہی۔ اِس کے باجود شہری سندھ سے منتخب زیادہ تر نمائندوں کی ناقص کارکردگی کے سبب یہ مہاجر نعرہ خود بخود پس منظر میں چلا گیا تھا۔ لیکن سال 2008کے عام انتخابات میں مرکز اور صوبے میں پیپلز پارٹی کی کامیابی کے پہلے ہی سال میں سیاسی منظر نامہ ایک بار پھر مہاجر قوم پرستی کی جانب سرکتا ہوا محسوس ہوا۔ بلدیاتی انتخابات میں ایم کیو ایم کی کامیابی کے باوجود کراچی اور حیدر آباد میں لوکل گورنمنٹس کے قیام میں مرکزی اور صوبائی حکومتوںکی عدم دلچسپی، سال 2015میں نائن زیرو پر چھاپے، ناظم کے اختیارات میں مضحکہ خیز حد تک کمی، اہم اداروں کی بلدیہ سے صوبائی حکومت منتقلی اور شہری سندھ خاص طور پر کراچی میں ترقیاتی منصوبوں سے متعلق مستقل بے حسی نے اوپر تلے جلتی پر تیلی کا کردار ادا کیا ۔سو یوں تاریخ میں مہاجر نعرے کے دوسرے دور کا آغاز ہوتا ہے ۔
گزشتہ ہفتے پی ایس پی اور ایم کیو ایم پاکستان کے الحاق سے متعلق مشترکہ پریس کانفرنس سے قبل ڈاکٹر فاروق ستار کواِس نظرئیے پر بظاہر قائل کرلیا گیا تھا کہ بانی ایم کیو ایم کو بڑا سیاست دان بنانے والی قوتوں نے جس طرح پلک جھپکتے میں اِن کی آواز بند کردی اِسی طرح اَب مہاجر نعرے کو ہمیشہ کے لئے خیرباد کہنے کا وقت آن پہنچا ہے ۔لہٰذا وہ اِس نظرئیے کے زیر اَثر پی ایس پی کے ساتھ الحاق پر آمادہ تھے۔لیکن جب پریس کانفرنس کے دوران مصطفی کمال نے مہاجر نعرے اور مہاجر مینڈیٹ سے متعلق اپنے رد عمل کا اظہار کیا تو گویا راتوں رات مہاجر قوم پرستی کا جن بوتل سے باہر آ گیا! برسوں سے سکون کی نیندسوئی قوم پرستی پھر سے جاگ اُٹھی، چند ہی گھنٹوں میں اردو بولنے والوں کے مخصوص محلوں، گلی کوچوں، فٹ پاتھوں اور پان کی دکانوںکے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر اس معاہدے کے خلاف شدید رد عمل سامنے آنے لگا۔خلاصہ ایک ہی تھا کہ ایم کیو ایم کے نام اور مہاجر نعرے پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ فاروق ستار پر الزام لگایا گیا کہ انہوں نے مہاجر قوم اور مہاجر نام پر سودا کرلیا ہے۔
اِ ن پیغامات کا حجم اور شدت یقیناً فاروق ستار کے لئے بھی حیرت کا باعث رہی ہوگی کیوں کہ وہ تو شایدقائل تھے کہ مہاجر نعرہ اورقوم پرستی ماضی کی کسی سیاسی انجینئرنگ کا نتیجہ تھی۔ سیاست کے جدید تقاضوں کے تحت اِس تاریخی حقیقت کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ ’سیاسی انجینئر نگ‘ کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اِس کا استعمال ہمیشہ سیاسی تجاوزات کو جنم دیتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ عوامی اور فلاحی سیاست کو جنم اور فروغ دینے کے معاملے میں انجینئرنگ کا یہ اَچھوتا اوزار ہمیشہ ناکارہ ثابت ہوا ہے۔
عام تاثر ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار کو بغیر کچھ کہے بہت کچھ کہہ جانے پر کمال مہارت حاصل ہے۔ لہٰذا یہ شدید اور حیران کن عوامی رد عمل دیکھ کرانہوںنے ایک نیا فیصلہ کیا اور اگلے ہی دن اپنی رہائش گاہ پر انہوں نے واضح طور پر کچھ کہے بغیر میڈیا، شہر کراچی اور ملک بھر کے عوام اور متعلقہ حلقوں تک اپنا یہ پیغام کامیابی کے ساتھ پہنچا دیاکہ ایک طرف ایم کیو ایم کے نام اور مہاجرکے نعرے پر سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا اور دوسری طرف بانی ایم کیو ایم کے خلاف مزید مغلظات کے استعمال سے گریز کیا جائے گا۔انہوں نے مذکورہ خطاب کے دوران ایک سے زیادہ بار بانی ایم کیو ایم کے نام کے بعد انتہائی احترام کے ساتھ ’صاحب ‘ کا لفظ استعمال کیااور یہ بھی دہرایا کہ ایم کیو ایم ختم ہوئی تھی اور نہ ہی ہوسکتی ہے ۔
فاروق ستار کے اِس پیغام کے ٹارگٹ آڈینس (Target Audience)کی تعداد اور اِن کی اقسام شاید اِن دنوں ملک کے کسی بھی سیاست دان کے کسی بھی بیان کے ٹارگٹ آڈینس سے کہیں زیادہ ہیں۔ اِس خطاب میں اِن کی جماعت کے نئے اور پرانے ہمدردوں، کارکنوں اور سمجھنے والوں کے لئے بہت بڑا اور بہت واضح پیغام موجودہے جواَب بظاہر شہر میں اِن کے سیاسی قد اور مقبولیت میں اضافے کا باعث بنتا دکھائی دے رہا ہے ۔

تازہ ترین