• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان میں ایک اچھا کام بھی ہوا ہے۔ اجڑے،ویران پڑے اور تباہ حال جہانگیر پارک کو بنا سنوار کر ایسے نکھار دیا گیا ہے جیسے کوئی معمار اسے ابھی ابھی مکمل کر کے گیا ہے۔ کراچی کے بے حد بارونق علاقے میںجو صدر کہلاتا ہے، یہ ایک سو تیس سال سے زیادہ پرانا باغ گزرے ہوئے کتنے ہی زمانوں کا گواہ ہے۔ اس نے آتے جاتے وقت کو قریب سے دیکھا ہے۔ سنہ اٹھارہ سو اسّی کے اوائل میں کوئی خدا کا نیک بندہ رہا ہوگا: خان بہادر بہرام جی جہانگیر راج کوٹ والا جس نے علاقے کی انتظامیہ کو یہ زمین بطور عطیہ دی تھی۔یہی زمین آج جس کی مالیت گز یا میڑ کے حساب سے نہیں، بالشت کے حساب سے لگائی جائے تو بات کروڑوں تک جائے۔ سندھ سبھا نے یہاں باغ لگا کر اس کا نام بہرام جی باغ رکھا اور1883میں نوروز کے مبارک موقع پر اس کا افتتاح ہوا۔ چاروں طرف درخت لگائے گئے اور درمیان میں میدان چھوڑ دیا گیا ۔ وہاں کرکٹ کھیلنے کے لئے1920ء میں پویلین بنائی گئی جہاں مقامی کلب کھیلا کرتے تھے۔ پچھواڑے ہی صدر کا شور شرابہ، آتی جاتی ٹراموں کی گھنٹیاں، سودے والوں کی صدائیں، وہیں طعام خانے اور ایرانی ہوٹل جن میں ملنے والی چھ پیسے کی گاڑھی چائے کی آدھی بھری ہوئی پیالی جس سے پہلے پانی بھرا گلاس سنگ مرمر کی میز پر زور سے رکھا جاتا، یہ سب مل کر ذہن میں جہانگیر پارک کی تصویر میں رنگ بھرتے ہیں۔ جب پاکستان قائم ہوا اور کراچی ملک کا صدر مقام ٹھہرا تو اس وقت بھی یہ پارک نہ صرف پوری طرح سلامت تھابلکہ اسے غیر معمولی اہمیت حاصل ہوگئی کیونکہ ہر سال 14اگست کو یوم پاکستان کا بڑا جلسہ عام جہانگیر پارک ہی میں ہوا کرتا تھا۔ میں نے سنہ اکیاون میں پہلی بار اس پارک میں قدم رکھا۔ میں دو سڑکیں چھوڑ کر جیکب لائنز کے ایک کوارٹر میں رہتا تھا۔ میرے ہم عمر دوست جو سب سائیکلوں پر سوار ہوتے تھے، وہیں آجاتے تھے اور ہم سب جہانگیر پارک جاکر سبزہ زاروں پر بیٹھا کرتے تھے اور وہی نو عمری کے خواب دیکھا کرتے تھے۔ میں نے شاید دو مرتبہ وہاں یوم پاکستان کے جلسوں میں وزیر اعظم لیاقت علی خاں کی تقریریں سنیں۔ وہ اردو بولتے تھے اور وہ بھی زبانی اوربہت دلچسپ۔ ان کے بعد شاید دوسال خواجہ ناظم الدین کی تقریریں سنیں۔ وہ انگریزی میں لکھی ہوئی تقریر پڑھتے تھے۔ وطن کی محبت میں سرشار لوگ بڑے صبر و تحمل سے تقریر سنتے تھے حالانکہ صاف ظاہر تھا کہ ان کی سمجھ میں مشکل ہی سے کچھ آتا ہوگا۔ اس جلسے میں عوام کے لئے نہ تو کرسیاں لگتی تھیں اور نہ دریاں بچھائی جاتی تھیں۔ پورا مجمع کھڑے ہوکر تقریر سنتا تھا۔ میںنو عمر لڑکا تھا اور عرض کروں کہ اکثر کھوے سے کھوا چھلتا تھا۔ غرض یہ کہ یہ سلسلہ یوں ہی چلتا رہا۔ جہاں گیر پارک میں کبھی کوئی درخت نہیں کاٹا گیا، سال کے سال نئے پھول لگائے گئے، پرانے ریڈنگ روم میں تمام بڑے اخبار آتے رہے جنہیں اکثر معمر لوگ غور سے پڑھا کرتے تھے۔ بعد میں وہاں ہر طرف لاؤڈاسپیکر لگا کر پویلین کی عمارت میں چھوٹا سے ریڈیو اسٹیشن قائم کردیا گیا جس میں مقامی فنکار اپنا شوق پورا کیا کرتے تھے۔ اسی دوران پارک پر زوال آنا شروع ہوا۔ سب سے پہلے تو ہماری نظروں کے سامنے پارک کے ایک کونے میں دس بیس اینٹیں لگاکر ایک عمارت تراشی گئی۔پھر ہر رات کے اندھیرے میں ان اینٹوں کی تعداد بڑھتی گئی۔ پارک میں مالشیوں او رکان کا میل نکالنے والوں نے ڈیرے جما لئے۔ شام جس وقت علاقے کے شرفا اپنے اہل خانہ کے ہمراہ باغ میں آیا کرتے تھے اُس وقت اوباش لوگوں کی ٹولیاں آنے لگیں، جوا کھیلا جانے لگا اور فضا میں چرس کی بو بھرنے لگی۔ پھر درخت کٹے، نا جائز عمارتیں بننی شروع ہوئیں، کیاریاں اجڑیں۔میدان کھد گیا۔
نشے کے عادی لوگ چاروں طرف لگے ہوئے لوہے کے کٹہرے کو اکھاڑ اکھاڑ کر بیچنے اور چرس خریدنے لگے۔ شرفا نے ادھر جانا چھوڑ دیا۔ ہم نے پھر کبھی جھانک کر بھی نہیں دیکھا ۔ آنکھیں بھینچ کر بند کرلیں کہ شاید اس طرح وہ پرانے منظر محفوظ رہیں۔ وقت گزرتا گیا کہ ایک روز انٹرنیٹ پر کیا دیکھتے ہیں کہ کسی نے آج کے جہانگیر پارک کی دلکش تصویر لگادی جس میں وہی اجڑا ہوا باغ کچھ یوں نظر آیا کہ دل باغ باغ ہوگیا۔ہوا یہ بلکہ سنتے ہیں کہ ایک روز سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ صدر کے علاقے کا دورہ کرتے ہوئے کسی طرح جہانگیر پارک میں چلے گئے۔ اس وقت پارک کے بخئے ادھڑے ہوئے تھے۔ وزیر اعلیٰ دنگ رہ گئے۔ عام طور پر یوں کم ہی ہوتا ہے لیکن اس روز ہوا اور وزیر اعلیٰ نے وہیں کھڑے کھڑے حکم دیا کہ اس باغ کی تقدیر بدلی جائے۔ اس سے بڑا کمال یہ ہوا کہ فوراً ہی حکم پر عمل درآمد شروع ہوگیا اور چند مہینے بعد دنیا نے وہ منظر دیکھا کہ جسے بس دیکھا ہی کیجئے۔ جہانگیر پارک کو ایسا سنوارا گیا اور اس کا اصل حسن اتنے اہتمام سے بحال کیا گیا کہ مجھے جو بات سوچ سوچ کر اپنی سوچ پر رشک آرہا ہے وہ یہ کہ اور کوئی ہو یا نہ ہو، اس موقع پر بہرام جی جہانگیر کی روح کتنی سرشار ہوگی۔ میں بھی یوں سرشار ہوں کہ پارک میں نئی روح پھونکنے والوں نے کچھ بڑے کام کی تدبیریں کی ہیں۔اس کا چہرہ مسخ نہ ہونے پائے، اس خیال سے حکم ہوا ہے کہ پارک میں اکیلے دوکیلے مٹرگشت کرنے والوں کا داخلہ بند ہوگا۔ جو لوگ اپنے بال بچّوں اور کنبے کے دوسرے افراد کے ساتھ آئیں گے ان کا خیر مقدم کیا جائے گا البتہ ان سے ٹکٹ کے نام پر چھوٹی سے رقم لی جائے گی۔ آوارہ گردوں کے لئے اب اس پارک میں کوئی جگہ نہیں۔ مگرجی ایک بات سے ڈرتا ہے۔ وقت گزرنے کے ساتھ پار ک کی قدرکم نہ ہوجائے، ابھی تو یہ نیا نکور ہے، کہیں اس کا حلیہ بگڑنے نہ لگے۔ حاکم بدل جائے تو یہ نہ ہو کہ نیا حاکم اسے دوبارہ خاک میں ملا دے۔شہر کراچی میں دو چار نہیں، بے شمار یادگاریں ہیں جن کی قدر ہونی چاہئے اور جن کو بڑے پیار اور دلار سے سنوارا اور نکھارا جانا چاہئے۔ حاکم با شعور ہے، کیا عجب کہ اس کے جی میں یہ نیکی بھی آجائے۔

تازہ ترین