• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

معاملات کی حساسیت انہیں حزم و احتیاط سے حل کرنے کی متقاضی ہوا کرتی ہے۔اگر کوئی معاملہ مذہبی یا نظریاتی نوعیت کا ہو تو تدبر و تحمل کی احتیاج دوچند ہو جاتی ہے۔ایسی صورت میں فہم وفراست کو بروئے کار لاتے ہوئے حکمت عملی کے تحت اصلاح احوال کی کوشش ہی بہترین راہ عمل ہے۔وفاقی دارالحکومت کے علاقے فیض آباد میں تحریک لبیک یا رسول اللہ اور سنی تحریک پچھلے ایک عشرے سے دھرنا دیئے بیٹھی ہیں۔دھرنا دینے والی جماعتوں کا موقف ہے کہ انتخابی اصلاحات کے بل میں حلف نامے کے بارے میں جو ترمیم کی گئی تھی وہ ختم نبوت کے منافی تھی۔اگرچہ حکومت نے حلف نامے کو من وعن بحال کر دیا ہے لیکن مظاہرین وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے پر مصر ہیں۔دریں اثناء دھرنا دینے والی تحریک لبیک یا رسول اللہ معاملہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں لے گئی،چیف جسٹس اسلام آباد ہائیکورٹ جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے درخواست کی سماعت کی تاہم درخواست گزار کے وکیل سے کہا کہ آپ کی درخواست بعد میں سنی جائے گی پہلے دھرنا ختم کریں۔عدلیہ نے تحریری حکم نامہ بھی جاری کیا کہ دھرنے کے باعث سڑکیں بند ہونے سے عوام کو مشکلات ہیں لہٰذا مظاہرین قانون کا احترام کرتے ہوئے دھرنا ختم کر دیں۔حکومت بجا طور پر محتاط رویہ اپنائے ہوئے ہے کہ حکومت ہی کیا پاکستان بھی اس وقت کسی نئے بحران کا متحمل نہیں ہوسکتا۔دھرنا دینے والی جماعتوں کو عوامی مسائل اورعدلیہ کی بات پر دھیان دینا چاہئے کہ انہوں نے خود عدلیہ سے رجوع کیا تھا۔ یہ امر سب کے پیش نظر رہنا چاہئے کہ معاملات کتنے ہی پیچیدہ ہوں، آخر کار گفت وشنید ہی سے حل ہوتے ہیں۔دھرنا دینے و الی جماعتوں کو عدلیہ کے احکامات اور عوامی مشکلات کا ادراک کرنا چاہئےان کے احتجاج کا پورے ملک نے گہرا اثر لیا ہے لیکن بقول فاضل جج نیک مقصد کے لئے کام کو غلط طریقے سے کرنا غلط ہے۔ اس لئے اب اس احتجاج کو پُرامن طور پر ختم ہو جانا چاہئے۔

تازہ ترین