• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیض انٹر نیشنل فیسٹیول میں اداکار جاوید شیخ اور ماہرہ خان کی شمولیت سے اس ادبی میلے کی ’’باکس آفس پوزیشن ‘‘ مضبوط ہوگئی ہے ۔
ماہر ہ خان کو فیض سے اتنی ہی رغبت ہوگی جتنی کیفی اعظمیٰ کی بیٹی اور بالی وڈ کی ورسٹائل اداکارہ شبانہ اعظمی کو اپنے چچا فیض کی شاعری سے رہی ہے۔شبانہ اعظمیٰ سے لاہور اور ممبئی میں میری کئی بار ملاقاتیںہوئیں چند سال قبل جوہو میں ان سے لمبی نشست ہوئی تھی جس میں فیض صاحب کا تذکرہ بھی ہوا انہوں نے بتایا کہ ممبئی میں کئی بار ایسا ہوا کہ امی ابا کے ساتھ میں بھی مشاعرے میں گئی تومیری جگہ فیض صاحب کی گود ہوا کرتی تھی۔فیض صاحب مجھے گود میں بیٹھا کر اپنے دھیمے لہجے میں شاعری سنایاکرتے تھے۔ایکٹریس بننے کے بعد میری ان سے ماسکو فیسٹیول کے موقع پر ملاقات ہوئی ۔میں ہوٹل میں انکے کمرے میں گئی تو بڑی شفقت سے پیش آئے ۔مجھے یادہے کاغذکا ٹکڑا میری طرف بڑھاتے ہوئے کہنے لگے یہ شعر آج ہی ہوئے ہیں ذرا پڑھ لو،شبانہ اعظمیٰ نے معذرت خواہانہ اندازمیں کہاکہ مجھے اردو پڑھنا نہیں آتی،اس پر فیض صاحب مجھ سمیت امی ابا پر بھی ناراض ہوئے کہ انہوں نے بچوں کو اردونہیں سکھائی ۔شبانہ بتاتی ہیں کہ میں نے سبکی سے بچنے کے لئے فیض صاحب سے کہاکہ میں صرف اردو لکھ پڑھ نہیں سکتی لیکن مجھے آپ کاساراکلام ازبر ہے جیسا کہ ۔۔دیکھ تو دل کہ جاں سے اٹھتاہے ،یہ دھواں سا کہاں سے اٹھتاہے۔۔اس پر فیض صاحب نے کہاکہ ۔۔بھئی یہ تو میرتقی میر کا کلام ہے۔۔ شبانہ نے جلدی سے اگلاشعرسناتے ہوئے کہاکہ آپ کی یہ شاعری کتنی عمدہ ہے ۔۔بات کرنی مجھے مشکل کبھی ایسی تو نہ تھی۔۔شبانہ بتاتی ہیں اس بار فیض صاحب نے کہاکہ۔۔بھئی! میر تک تو ٹھیک تھا لیکن بہادر شاہ ظفر کو تو ہم شاعرنہیں مانتے۔ماہرہ خان کی فیض صاحب سے شبانہ اعظمیٰ جیسی قربت تو نہیں رہی لیکن یقیناًوہ انکے فلسفہ زندگی اور سیاست سے واقف ہوں گی ۔فیض صاحب نے چاندچہروںکے لئے کہاتھا کہ ۔۔تراجمال نگاہوں میں لے کے اٹھا ہوں ،نکھر گئی ہے فضا تیرے پیرہن کی سی ،نسیم تیرے شبستان سے ہوکے آئی ہے ،مری سحر میں مہک ہے ترے بدن کی سی ۔۔
فیض صاحب جیسے بڑے شاعر اور ادیب کے فنی محاسن بیان کرنے کے لئے ہزارداستان چھوٹی پڑسکتی ہے۔اتنے عظیم شاعرکی فنی رفعتوں کو کالم میں بیان کرنا ایسے ہی ہے جیسے غالب کو اپنے افکار واحساسات کو بیان کرنے کے لئے نثر ،شاعری اور غزل جیسے واسطے تنگ لگتے تھے ۔غزل کے لئے تو غالب نے تنگ نائے غزل کی ترکیب بھی استعمال کی تھی۔ یوسفی صاحب فیض کے لئے لکھتے ہیں کہ فیض صاحب کی طبیعت میں صبر وتحمل ، قوتِ برداشت اور بردباری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔بلکہ بلحاظ مقدار ایسا لگتاتھاکہ کوٹ کوٹ کر نہیں ،سالم بھر دی گئی ہے۔ لوگ اس کو کاہلی اور الکسی پرمحمول کرتے تھے۔ اس کے بھی لطیفے مشہور ہیں ۔مثلاََ ایک نوجوان نے پوچھا ’’فیض صاحب ! انتظار کرتے کرتے اتنے دن ہوگئے ۔انقلاب کب آئیگا؟ ارشاد فرمایا بھی ی ی ی ۔۔آجائے گا۔ابھی آپ کی عمر ہی کیاہے۔بعض باتیں ایسی ہی جو فیض صاحب کے مزاج اور مسلک کے خلاف تھیں ۔مثلاََ انہیں کبھی روپے کا ذکر کرتے نہیں سنا۔اپنی کسی ضرورت کا ذکرتے ہوئے نہیں سنا ۔زمانے کی شکایت یا اپنے سیاسی مسلک کے بارے میں نثر میں کبھی گفتگو کرتے ہوئے نہیں سنا۔۔۔اے خاک نشینو اٹھ بیٹھو،و ہ وقت قریب آپہنچا ہے،جب تخت گرائے جائیں گے جب تاج اچھالے جائیں گے۔۔فیض اسپیشل سنگرز نے لگ بھگ ’’نسخہ ہائے وفا‘‘کوریکارڈ، کیسٹ ،سی ڈیز اور دوسرے میڈیمز میں محفوظ کردیا ہے۔فیض صاحب کو گانے والوں میں یوں تو درجنوں سنگرز شامل ہیںجنہوں نے گاتے ہوئے ان کی شاعری سے انصاف کیا لیکن مہدی حسن کی گائی غزل ’’گلوں میں رنگ بھرے ‘‘ اورملکہ ترنم نورجہاں کی گائی نظم ’’مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ‘‘کا معیاراور مقام کچھ اورہی ہے۔بلاشبہ مذکورہ غزل اور نظم شاعری کے اعتبار سے اپنے اندر کلاسیکل روایت کے ساتھ جدید آہنگ بھی سموئے ہوئے ہے لیکن دونوں کی دھنوں اور گائیکی نے انہیں خواص کے ساتھ ساتھ عوامی سطح پر بھی قبول عام بخشا۔فیض کو گانے والوں میں فریدہ خانم ، اقبال بانو، غلام علی ، استاد نصرت فتح علی خاں، نیرہ نوراسدامانت علیخاں، شوکت علی ،عابدہ پروین ، فہیم مظہر، بھارتی غزل گائیک جگ جیت اور ٹیناثانی سمیت دیگر شامل رہے ہیں۔
فیض صاحب موسیقی کے اسرار ورموز سے اچھی طرح واقف تھے وگرنہ بہت سے شاعر اس فطری میلان سے لطف اندوز ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ایک مرتبہ لاہور میں احمد فراز کے ساتھ شب بسری کا موقع میسر آیااس ملاقات میں ،میں نے ان سے دریافت کیاکہ آپ کو مہدی حسن اور غلام علی جیسے سکہ بند غزل گائیکوں نے گایاہے آپ کی شاعری کے ساتھ کس نے زیادہ انصاف کیاہے؟ فرازصاحب کے جواب سے معاملہ میری سمجھ میں آگیاتھاکہ وہ ’’ آڈیو سے زیادہ وڈیو‘‘ پردھیان دیتے رہے۔فراز صاحب نے کہاتھاکہ مہدی حسن نے تو میرے کلام کے ساتھ قدرے انصاف کیاہے لیکن غلام علی سے تو میں سخت ناراض ہوں ،وہ مجھے کہیں مل گیا تو اس کی خبر گیری کروں گا۔فراز صاحب نے اپنی پسند بتاتے ہوئے کہاتھاکہ میری شاعری کو سلمیٰ آغا اور طاہرہ سید نے بہترین انداز سے گایاہے۔ حالانکہ ان کے گانے والیوں میں نورجہاں ، آشابھوسلے ،رونا لیلیٰ اور مہناز بھی شامل رہی ہیں۔بھارتی شاعر گلزار، احمدندیم قاسمی کی تیمارداری کرنے لاہور آئے تو باتوں باتوں میں قاسمی صاحب نے گلزار سے کہاکہ نورجہاں بڑی دبنگ عورت تھیں ایک ملاقات میں مجھ سے کہنے لگیں ’’تسی بڑے نگھے بندے او، ایدھر آو جھپی پاون توں بغیرجان نئیں دیاں گی‘‘(آپ بڑے گہرے انسان ہو ،یہاں آئیے بغل گیر ہوئے بغیر جانے نہیں دوں گی) قاسمی صاحب نے بتایا کہ نورجہاں ،فیض کے بہت قریب تھیں اور فیض خواتین کی صحبت میں خوش رہتے تھے۔ جبکہ یوسفی صاحب فیض کے بارے میں لکھتے ہیں کہ’’ ہمیں تو وہ بے نیاز سے لگے ۔ہم نے پارٹیوں میں یہی دیکھاکہ اگر کوئی شاہی ٹکڑا خود چل کر ان کے پہلوتک پہنچ گیاتو فیض صاحب نے ہمارے حصے میں آئے ہوئے بیگن کے بھرتے کو آنکھ اٹھاکر نہ دیکھا‘‘۔
ابتدائی زندگی میں فیض صاحب کوشاعر بننے کا خیال نہیں تھا ان کے قریبی دوست ڈاکٹر ایوب مرزا لکھتے ہیں کہ خواجہ خورشید انور کے کے والد خواجہ فیروز الدین کی بیٹھک میں فیض نے جب استاد توکل خاں ، استاد عبدالوحیدخاں،استاد عاشق علی خاں اور استاد چھوٹے غلام علی خاں کوسنا تو انہوں نے اس سے یک گونہ لطف اٹھایا۔اعلیٰ فنکاروں اور سریلی موسیقی نے فیض کے اندر کے عظیم اور منفرد شاعر کو جگایا اور اپنے منفرد لہجے اور حسین آہنگ سے ادب کی دنیا پر چھاء گئے۔فیض کو یہ فیضان خواجہ خورشید انور کی نسبت سے نصیب ہوا جو گورنمنٹ کالج میں ان کے قریبی دوست تھے۔ بڑے شاعرکا یہ امتیاز ہوتاہے کہ زندگی ،معاشرے ، ریاست اور سیاست کے بارے میں اس کے خیالات میں سچائی ہوتی ہے ۔وہ جو دیکھتااور محسوس کرتاہے صفحہ قرطاس پر منتقل کردیتاہے چاہے وہ ’’داغ داغ اجالاہو‘‘یا’’چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھاکے چلے ‘‘۔فیض کا کرنٹ افیئرکو عنوان دیتا ایک شعر ملاحظہ ہو
محتسب کی خیر، اونچا ہے اُسی کے فیض سے
رندکا، ساقی کا، مے کا، خُم کا ، پیمانے کا نام

تازہ ترین