• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہادری جب حد سے بڑھ جائے تو بے وقوفی کی حد کو چھو نے لگتی ہے۔احساس کمتری بڑھ جائے تو احساس برتری میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ شجاعت کے پس منظر میں خوف کارفرما ہوتا ہے۔ کامیاب لوگوں کا سب سے بڑا خوف ناکامی ہوتی ہے۔ سب وقت وقت کی بات ہوتی ہے۔ کبھی دلیری حماقت کہلاتی ہے اور کبھی حماقت بہادری بن جاتی ہے۔یہ اسی طرح کی بات ہے جیسے کبھی تاریخ کے اوراق میں انقلاب کو بغاوت لکھا جاتا ہے اور کبھی بغاوت، انقلاب کے مفاہیم میں تحریر کی جاتی ہے۔
مصطفی کمال نے جو کچھ کہا وہ بظاہر بہادری بن گیا مگر اسے دانشمندی ہرگز نہیں کہا جا سکتا۔ انہوں نے اس نام کو سات پردوں میں سے وا کر دیا جس نام کے بار ے میں بات کرتے بڑے بڑوں کے پر جلتے ہیں۔ جو ملکی سیاست اور تاریخ کا شجر ممنوع ہے۔ نہ اس پر کوئی بات کرنے کی استطاعت رکھتا ہے نہ کسی کو یہ حوصلہ میسر ہے ا کہ س نام سے منسوب چیرہ دستیوں کو بیان کرے۔ نہ پہلے کسی نے یہ جرات کی ہے نہ آنے والے وقتوں میں یہ عیاشی کسی کو میسر ہونے کا کوئی امکان ہے۔ اتنی کھلی تہمت نہ پہلے کسی نے لگائی ہے اور نہ مستقبل میں ایسا کوئی امکان ہے۔
مبصروں کے تبصروں میں خفیہ ہاتھ کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ یہ وہ نام ہے جو سیاستدانوں کی چلتی زبانوں کو لگام دیتا ہے۔ یہ وہ نام ہے جو اینکروں کے تعارفوں میںنامعلوم افراد کہلاتا ہے۔ یہ وہ نام ہے جو کالم نگاروں کی تحریروں سے حذف ہو جاتا ہے۔ یہ وہ نام ہے جس کا ذکر لبوں پر آئے تو بد زبان ، تہذیب یافتہ ہوجاتے ہیں۔ کملے ، سیانے ہو جاتے ہیں۔ پگلے ، ہوشمند ہو جاتے ہیں۔ گھروں کی دیواروں میں بھی لوگ ادھر ادھر دیکھ کر اس نام کو زبان پر لاتے ہیں۔ سرکشوں کو انکے احباب انشا ء جی کے مصرعے کی زبان میں سمجھاتے ہیں۔ اجتناب اجتناب ، اجتناب انشاء جی۔
یہ وہی نام ہے جو کبھی فاطمہ جناح کی زبان پر نہیں آیا۔ ایک ڈکٹیٹر نے بانی پاکستان قائد اعظم کی بہن کو غدار وطن کہلوا دیا مگر انکی زبان بھی اجتناب اجتناب کے زیر اثر رہی۔ ملک بنانے والوں کے سامنے ملک ٹوٹتا رہا مگر انہوں نے کبھی اسٹیبلشمنٹ کالفظ منہ سے نہیں نکالا۔ بھٹو جمہوریت کے المیہ گیت گاتے جان سے گزر گئے۔ سولی چڑھ گئے۔مگر اتنے کھلے الفاظ میںیہ کہنے سے پرہیز کیا۔ بے نظیر اور نواز شریف دو، دو دفعہ اقدار کے سنگھاسن پر بٹھائے گئے پھر اسی مسند سے گرائے گئے مگر دونوں اس کی خوشنودی ہی چاہتے رہے۔ کسی میں اختلاف کی جرات نہیں ہوئی۔ زرداری اسی وجہ سے پانچ سال گزار گئے کہ انہوں نے عدم اختلاف کی پالیسی اپنائی۔ جس نے منہ پر تھپڑ مارا انہوں نے خوشی سے دوسرا گال پیش کر دیا۔ نواز شریف بھی تیسری دفعہ حکمراں بنے تو نگاہ نیچی رکھنے کا وعدہ کیا۔ آواز بلند نہ کرنے کا اعادہ کیا۔ لیکن پھر بھی دھواں اٹھتا نظر آگیا ۔مریم نواز کا سوشل میڈیا وجہ عناد بن گیا۔کیا ہوا؟ حکومت سے گئے۔ کرپشن کے کیس بنے۔ عدالتوں میں پیشیاں ہوئیں۔ بچوں کو پیش کیا۔ بیمار بیوی کو لندن چھوڑ کر عدالتوں کے چکر لگاتے رہے۔ جی روڈ کا اتنا جم غفیر جمع کیا۔ سارا راستہ لوگوں کو دلاسے دیتے رہے۔ کہتے رہے بتاتا ہوں، بتاتا ہوں کہ یہ کس کی کارستانی ہے۔ کون ہے جسے خفیہ ہاتھ کہتے ہیں۔ لیکن لاہور پہنچ کر جانے کیوں ہمت جواب دے گئی۔ مصطفیٰ کمال جیسی بہادری نہ دکھا پائے۔اب بھلے لوگوں کو کہتے رہیں کہ احتساب کہیں اور سے کنٹرول ہو رہا ہے۔ بلاشبہ نعرے لگائیں سزا دی نہیں جا رہی ،دلوائی جارہی ہے۔ بے شک اپنی مظلومیت میںہزار بار استفسار کر یں کہ مجھے کیوں نکالا ؟مجھے کیوں نکالا؟اب وار کارگر ہو چکا ہے۔اب سچ کی ٹرین لاہور اسٹیشن سے گزر چکی ہے۔
نواز شریف لوگوں کو نہ بھی بتائیں تو بھی لوگ جانتے ہیں۔ سب کو پتہ ہے کیا ہو رہا ہے۔ کیوں ہو رہا ہے۔ یہ قصہ آج کا تو نہیں ہے۔ جب سے یہ ملک بنا ہے یہاں پر یہی دستور چلا ہے۔اسٹیبلشمنٹ کا لفظ نہ کسی قانون کی کتاب میں ہے، نہ آئین اس کے بارے میں کوئی وضاحت دیتا ہے ، نہ دستور کی کتاب میں اس بارے میں کوئی اشارہ ہے۔نہ پولیس کے قوائد اس کی حد متعین کرتے ہیں نہ سول سوسائٹی اس بارے میںکچھ بتانے کی کوشش کرتی ہے نہ اسمبلی کی کارروائی میں کبھی اس کا ذکر ہوا ہے۔ نہ سینیٹ کے کسی اجلاس میں اس کا کبھی تذکرہ ہوا ہے نہ کسی اسٹینڈنگ کمیٹی میں کبھی اس کی طلبی ہوئی ہے۔نہ کسی ایم این اے یا ایم پی اے کو اس بارے میں کوئی استحقاق حاصل ہے اور تماشہ یہ ہے کہ نہ عوام کو اس بارے میں درست ادراک ہے۔ اس کے باوجودسب جانتے ہیں، سب مانتے ہیں کہ اس ملک میں دستور یہی ہے۔ قانون یہی ہے۔ قائدہ یہی ہے۔ اصول یہی ہے۔ ضابطہ یہی ہے۔آئین یہی ہے۔ عقیدہ یہی ہے۔
اس سب کے باوجود کوئی بھی اسٹیبلشمنٹ کی درست شکل نہیں جانتا نہ کسی نے اسکو دیکھا ہے نہ اس کا کوئی شناختی نشان کسی کارڈ پر لکھا ہے ۔ البتہ اس کو مثالوں سے واضح کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک ایسا مالی ہے جو بڑی توجہ سے کوئی پودا لگاتا ہے۔ جلدی جڑ پکڑنے کے لئے زیادہ پانی اور زیادہ خوراک اس نازک سے پودے کو دیتا ہے۔ دن رات اپنی نگرانی میں اسکو پروان چڑھاتا ہے۔ آندھی طوفان میں چھاتہ فراہم کرتا ہے، چلچلاتی دھوپ سے بچاتا ہے ۔ پھر پودا تناور درخت بننے لگتا ہے۔ سائے میں لوگ بیٹھنے لگتے ہیں تو مالی اس کا تنا کاٹ دیتا ہے ۔ اس کو جڑ سے اکھاڑ دیتا ہے۔ یا پھر اسے اس کسان سے موسوم کیا جا سکتا ہے جو دن رات ہل چلاتا ہے ۔فصل کا بیج ڈالتا ہے ۔ بارش کی دعا کرتا ہے۔ ایک ایک پودے کو سنوارتا ہے۔ نہری پانی دیتا ہے ۔ پھر جب فصل سنہری ہو جاتی ہے، دانہ پک جاتا ہے۔ پودوں کی جڑیں مضبوط ہو جاتیں ہیں تو ایسے میں کسان ساری فصل کو آگ لگا دیتا ہے۔سموگ اور سموک کی کسان کو پروا نہیں ہوتی ۔ وہ اپنی تخلیق کو تخریب میں بدل کر مسکراتا ہے۔ اپنی محنت کا پھل پاتا ہے۔
اس شاہین کی خواہش محض اختیار کی ہوتی ہے ۔اس کی نظر صرف غلبہ پر ہوتی ہے۔ غلبہ بھی ،ویرانوں پر، ایوانوں پر ، جسموں پر ، ذہنوں پر ، زمینوں پر،ا سکرینوں پر، چٹانوں پر، زمانوں پر۔
یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ جن کے پاس لٹانے کو کچھ ہوتا ہے وہ چپ ہو جاتے ہیں۔ مصلحت کو اپناتے ہیں اور جو سب کچھ داو پر لگا چکے ہوتے ہیں وہ زاد راہ بن جاتے ہیں۔وقتی طور پر جری کہلاتے ہیں۔ استعمال کے بعدتاریخ کے ڈسٹ بن میں پھینک دیئے جاتے ہیں۔ یہ بات نہ مصطفیٰ کمال کو سمجھ آئی ہے، نہ عمران خان کو اس کا ہوش ہے، نہ چند ٹی وی اینکرز اس کو سمجھ پائے ہیں۔ انصاف کی اس سماج میں حد مقرر ہے۔ گفتار کی اس ملک میں ایک حدمقرر ہے۔ اختلاف کی اس معاشرے میں ایک حد مقرر ہے۔ ڈریں اس وقت سے جب کسان فصل کو آگ لگا دے، جب پرندہ اپنی اولاد کو خوراک بنا لے، جب مالی اپنی ہی تخلیق کو جڑ سے اکھاڑ دے۔
یاد رکھیں ۔بہادری جب حد سے بڑھ جائے تو بے وقوفی کی حد کو چھو نے لگتی ہے۔احساس کمتری بڑھ جائے تو احساس برتری میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ شجاعت کے پس منظر میں خوف کارفرما ہوتا ہے۔ کامیاب لوگوں کا سب سے بڑا خوف ناکامی ہوتی ہے۔

تازہ ترین