• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خیبرپختونخوا کے شہر ڈیرہ اسمٰعیل خان کے ایک گاؤں میں چند مردوں کے ایک چھوٹے سے گروہ نے ایک نوجوان لڑکی کو سرعام برہنہ کرکے اسے زبردستی گلیوں میں گھمایا۔ اس انتہائی افسوس ناک اور دل خراش سانحے کا پس منظر یا محرک یہ ہے کہ تقریباً تین سال پہلے گاؤں کے ایک لڑکے کی دوستی ایک لڑکی سے ہوئی۔ یہ دونوں آپس میں موبائل فون پر بھی باتیں کرنے لگے۔ کہا جاتا ہے کہ لڑکی کو موبائل اس لڑکے نے ہی لاکر دیا تھا۔ بہرحال، یہ بات جب لڑکی کے گھر والوں کو پتہ چلی تو انہوں نے لڑکی کو تو جو کچھ کہا ہوگا وہ اپنی جگہ۔ اس لڑکے کو ملزم قرار دے کر معاملہ علاقے کی پنچایت تک پہنچا دیا ۔ پنچایت نے اس لڑکے کو حکم دیا کہ لڑکی والوں کو تین لاکھ روپے جرمانہ ادا کیا جائے۔ پنچایت کا حکم تسلیم کرتے ہوئے اس لڑکے نے یہ جرمانہ ادا کردیا۔ اس طرح گاؤں والوں کی نظروں میں یہ قضیہ طے پاگیا۔ جرمانہ وصول کرلینے کے باوجود اس لڑکی کے بھائی یہ سمجھتے تھے کہ اس لڑکے کو قرار واقعی سزا نہیں دی گئی ہے۔ ان بھائیوں نے یہ مفروضہ قرار واقعی سزا اس لڑکے کی سولہ سالہ معصوم بہن پر زبردستی غلبہ پا کر اس حالت میں گلیوں میں گھما کر دے دی۔ جمعہ 27 اکتوبر کو پیش آنے والے اس سانحہ کا ایک اور دردناک پہلو یہ ہے کہ معصوم لڑکی گلیوں میں گھمانے کے دوران گاؤں کے مردوں اور عورتوں نے کوئی مداخلت یا مزاحمت نہیں کی۔
چند ماہ قبل جولائی 2017ء میں ایک دل دہلا دینے والا واقعہ صوبہ پنجاب کے شہر ملتان کے علاقے مظفرآباد میں ہوا۔ 16جولائی کو گھاس کاٹنے کے لئے جانے والی ایک بارہ سالہ لڑکی کے ساتھ اس کے خاندان کے ایک لڑکے نے زیادتی کی۔ لڑکی نے گھر آکر یہ بات اپنے والدین کو بتائی۔ اس معاملے پر دونوں گھرانوں کی باہمی مشاورت سے (بتایا جاتا ہے کہ اس مشاورت میں خواتین بھی شامل تھیں) یہ طے پایا کہ اس زیادتی کی سزا میں بدلے کے طور پر متاثرہ لڑکی کے رشتہ دار کسی مرد کی جانب سے زیادتی کرنے والے لڑکے کی بہن کے ساتھ زیادتی کی جائے گی۔ اس پرعمل بھی کیا گیا ۔ سندھ اور بلوچستان میں بھی پنچایت یابرادری کے بعض فیصلوں کے ذریعے عورت کی تذلیل کے واقعات سامنے آتے رہتے ہیں۔
ہمارے معاشرے میں ایسے واقعات نئے نہیں ہیں۔ یہ اس دھرتی پر صدیوں سے جاری روایات کا تسلسل ہیں۔ایسی روایات نے زیادہ تر زرعی معاشروں کے قبائلی یا جاگیردارانہ نظام میں نمو پائی۔ ان روایات کے سر چشمے عورتوں کو حقیر اور برائیوں کا سبب سمجھنے ، طاقت ور کی بالا دستی، کم زور کی توہین کرنا اپنا حق سمجھنے اور دیگر کئی منفی اعتقادات میں ہیں۔ ہندوستانی معاشرے میں ان اعتقادات پر مذہبی تصدیق اور سماجی تائید کی چھتریاں بھی سایہ فگن رہیں۔ شوہر کی موت پر اس کی بیوہ کے خود بھی جل مرنے یعنی ستی ہوجانے کو عورت کے اپنے شوہر کے ساتھ دلی تعلق اور وفا کی علامت بنا دیا گیا۔ کسی مرد یا کسی عورت نے یہ نہیں پوچھا کہ عورت کی موت پر اس کا شوہر اپنے تعلق اور وفاؤں کا ثبوت خود جل کے مر کر کیوں پیش نہیں کرتا۔ اپنے مرد کی صحت و سلامتی کے لئے برت عورت ہی کیوں رکھتی ہے۔ عورت ہی اپنے شوہر کی سلامتی کے لئے عبادتیں اور دعائیں کیوں کرتی ہے۔ مرد کو اپنی بیوی کی صحت، سلامتی کے لئے خصوصی عبادات کے اہتمام کا پابند کیوں نہیں بنایا گیا۔ صرف عورت کے لئے سدا سہاگن کی دعائیں کیوں مانگی جاتی ہیں۔ مرد کے لئے یہ دعا کیوں نہیں کی جاتی کہ اس کی بیوی سدا صحت مند اور سکھی رہے۔ رخصتی کے وقت صرف دلہن کو یہ نصیحتیں کیوں کی جاتی ہیں کہ تمہیں اپنے سسرال میں سب کی خدمت کرکے ان کا دل جیتنا ہے۔ دلہا کو بھی یہ تلقین کیوں نہیں کی جاتی کہ تمہیں اپنی دلہن کے والدین کا احترام کرنا ہے، اپنے والدین کے ساتھ ساتھ اپنی بیوی کے والدین کی خدمت کے لئے بھی تیار رہنا ہے۔ برصغیر کے معاشروں میں سسرال میں داماد کا مقام برتر اور سربلند ہے۔ چلیں یہ اچھی بات ہے لیکن کئی گھرانوں میں بہو کو سسرال میں کمتر اور پیر کی جوتی کیوں سمجھا جاتا ہے۔ شوہر سر کا تاج، بیوی کے پیر کی جوتی۔ یہ ہے صنفی امتیاز کی ایک جھلک ۔ اس امتیاز کو رسوم اور روایات کے نام پر سماجی تحفظات بھی دئیے گئے ہیں۔ برصغیر میں یہ روایات، رسوم یا رواج صدیوں سے قائم ہیں۔ 1947ء میں اکثریت کے سیاسی غلبے سے بچنے اور اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے مسلمانوں نے ایک نیا ملک پاکستان تو حاصل کرلیا لیکن اس نئے ملک کا سماجی ڈھانچہ صدیوں پرانی کئی خراب روایات پر ہی استوار رہا۔
بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح آئین کی پاس داری اور قانون کی سربلندی پر یقین رکھتے تھے۔ وہ چند برس اور زندہ رہتے تو مملکت پاکستان کو ایک آئین دے جاتے ۔لیکن اگر آئین بروقت بن بھی جاتا تو سماجی ڈھانچے کی کئی خرابیاں از خود کیسے ٹھیک ہوجاتیں۔ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان کو 1973ء میں ایک متفقہ آئین دے دیا تھا ، اس آئین کی موجودگی میں بھی سماج میں صدیوں پرانی کئی خرابیاں پوری شدت کے ساتھ موجود ہیں۔
پنچایت یا پھر برادریوں میں کئی ایسے فیصلے کئے جاتے ہیں جو پاکستان کے آئین اور قوانین سے متصادم ہیں لیکن متعلقہ برادریوں کے لوگ پنچایت یا خاندانی بڑوں کے ان فیصلوں کو صحیح سمجھتے ہوئے ان پر عمل کرتے ہیں۔ قصور کسی مرد کا ہو، ظالمانہ روایات کے تحت بننے والے کئی ضابطوں میں اس کا تاوان عورت کو ہی ادا کرنا پڑتا ہے۔ اس تاوان کا سب سے عام ذریعہ یہ ہے عورت کی بے حرمتی کردی جائے یا اسے فریق مخالف کے ہاں کسی کے ساتھ زبردستی نکاح میں دے دیا جائے۔ ان مسائل یا مصائب سے نجات کا طریقہ یہ تجویز کیا گیا ہے کہ عورتوں میں تعلیم کا فروغ اور معاشی معاملات میں ان کی زیادہ سے زیادہ شمولیت ہو۔ آج پاکستانی خواتین کی بہت بڑی تعداد حصول علم میں مصروف ہے۔ تعلیم، طب، قانون، تجارت، بینکنگ اوردیگر کئی شعبوں کے ساتھ ساتھ اب خواتین آرمی، نیوی اور ائیر فورس میں بھی شامل ہورہی ہیں لیکن کیا پاکستان میں آج بھی جگہ جگہ 1947ء سے پہلے کے سماجی ڈھانچے کے تحت صدیوں پرانی کئی منفی روایات کا تحفظ نہیں ہورہا؟ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ عورت کے انسانی حقوق کے لئے ابھی کئی منزلیں سر کرنی ہیں۔ لازم ہے کہ اس جدوجہد میں مرد اور عورت دونوں شامل ہوں ۔
ڈاکٹر قبلہ ایاز ۔ نئی ذمہ داریاں ، مزید توقعات
معروف ماہر تعلیم، پشاور یونیورسٹی اور اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں وائس چانسلر کے عہدوں پر فائز رہنے والے استاذ ڈاکٹر قبلہ ایاز کو اسلامی نظریاتی کونسل کا نیا چیئرمین مقرر کیا گیا ہے۔ نئی نسل کو علم کی ترسیل اور علوم کے فروغ میں دہائیوں سے منسلک ڈاکٹر قبلہ ایاز کا ایک تعارف بین المذاہب اور بین المسالک ہم آہنگی کو فروغ دینے والی شخصیت کا بھی ہے۔ اسلامی نظریاتی کونسل کوئی قانون ساز ادارہ نہیں بلکہ حکومت کے لئے ایک مشاورتی ادارہ ہے۔ توقع ہے کہ ڈاکٹر قبلہ ایاز کی سربراہی میں یہ کونسل دور حاضر کے تقاضوں کے مطابق اسلامی تعلیمات کے فروغ اور نفاذ کے لئے قابلِ عمل، بہتر اور مؤثر تجاویز پیش کرے گی۔

تازہ ترین