• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

احمد نورانی حملہ کیس: مجرموں تک جانے والے تمام راستے بند

کم و بیش تین ہفتے گزرنےکے باوجود احمد نورانی پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں کا سراغ نہیں لگایا جاسکا جس کے نتیجے میں تاثر یہ لیا جارہاہے کہ یا تو پولیس نالائق ہے یا پھر بے بس اور بے اختیار، اب تک حاصل ہونےو الی معلومات کے مطابق پولیس کی جانب سے مجرموں کے سراغ کے لئے اختیار کئے جانےو الے راستے یا تو غلط تھے یا پھر بند۔ بے سمت راستے منزل کی جانب نہیں جاتے۔ کیا پولیس جان بوجھ کر غلط راستے اختیار کررہی ہے؟ کیا پولیس دبائوکا شکار ہے؟ یا اس مقدمے کوعمومی جرم تصور کرکے تاخیری حربوں کے ذریعے اسے سرد خانے میں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ ان حالات کےتناظر میں کیا اس تاثر کودرست تسلیم کرلیا جائے کہ پولیس کی ڈوریں کہیں اور سے ہلائی جارہی ہیں یا پولیس از خود کسی خوف کے تحت اس کیس کودبانے کی کوششوں میں ہے۔ احمد نورانی پر قاتلانہ حملے کے فوراً بعد تمام حساس اور سول اداروں نے یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ مجرموں کا سراغ لگانے میں سول تحقیقاتی اداروں کے ساتھ تعاون اور تکنیکی مدد بھی کریں گے اور اس کے لئے تمام وسائل بروئے کار لائیں گے لیکن عملی طور پر اس حوالے سے کوئی قدم نہیں اٹھایا گیا۔ پولیس کی اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم (ایس آئی ٹی) نے تحقیقات کا آغازجیوفینسنگ (جی ایف) سے کیاجوانتہائی مشکل عمل ہے۔ جیو فینسنگ کے عمل کےد وران جائے وقوعہ کے قرب و جوار میں مخصوص وقت میں استعمال ہونے والے لاکھوں موبائل فونز کا ڈیٹا جمع کیا جاتا ہے اور مختلف مراحل میں مجرموں کی جانب سے استعمال کئے جانے والی کالز کو علیحدہ کیا جاتاہے، یہاں تک کہ ان افراد یا فرد کی کال پکڑی جاتی ہے جوجرم میںملوث ہوتے ہیں۔ اس واقعہ کی تحقیقات کے دوران جائے وقوعہ کی جیو فینسنگ کی گئی تو صرف ایک کال کو علیحدہ کرتے ہوئے مشکوک شخص کو شامل تفتیش کیا گیا جو عینکوں کے شیشوں کا کاروبار کرتا ہے اور اس روز بھی کاروبار کے سلسلے میں جائے وقوعہ سے اس کا گزر ہوا۔ اور کچھ دیر بعد اسی راستے سے گزرتا ہوا زیرو پوائنٹ کی طرف واپس چلا گیا۔ یہ شخص جس کانام ظاہر کرنا ضروری نہیں یہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوگیا کہ وہ واقعی کاروباری شخص ہے اور اس واقعہ سے اس کا کوئی تعلق نہیں۔ اگرچہ فی الوقت اس شخص کو مکمل طور پر کلیئرنہیں کیا گیاتاہم پولیس مطمئن ہےکہ یہ شخص بے گناہ ہے اور واقعہ میںملوث نہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہےکہ کیمروں سے حاصل کی گئی فوٹیج اور عینی شواہد کی روشنی میں یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حملہ آور جب واپس فرار ہوئے توانہوںنے وہی راستہ اختیار کیا جس سے وہ آئے تھے البتہ وہ زیرو پوائنٹ کے فلائی اوور سے کشمیر ہائی وے پرآگئے جبکہ جی ایف میں مارک ہونے والا شخص اسلام آباد ہائی وے پر ہی رہا۔ جیو فینسنگ سے حاصل ہونے والے نتائج میں زیرو پوائنٹ اور اس کےا رد گرد اس مخصوص وقت میں ان علاقوںمیں کوئی ایسا فون مارک نہیںہوا جو جائے وقوعہ سے کشمیر ہائی وے کی جانب گیا ہو۔ یہ اس بات کی تصدیق ہے کہ حملہ میں ملوث کسی شخص کے پاس موبائل فون تھا ہی نہیں۔ تجربہ کار اور تربیت یافتہ حملہ آور اس امر سے بے خبر نہیں تھے کہ وہ جی ایف کے ذریعے پکڑے جاسکتے ہیں اس لئے انہوں نے اپنے پاس موبائل فون رکھے ہی نہیں۔ واقعہ میں استعمال ہونے والے موٹر سائیکل کے حوالے سے ابتدائی رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ان میں سی ڈی 70 اور ہنڈا 125 شامل تھے لیکن کیمروں کی فوٹیج نے ایک یاماہا 125 کی نشاندہی بھی کی ہے جو 1989ء کے بعد مارکیٹ آنا بند ہوگئے تھے۔ موٹر سائیکلوں کا سراغ لگانے کے لئے کم و بیش دس ہزار کی فہرست حاصل کی گئی لیکن نتیجہ صفر۔ ایس آئی ٹی نے تفتیش کا آغاز راولپنڈی میں بینک کے اس آفیسر سے کیا جس نے ٹیلی فون کرکے احمد نورانی کو بلایاتھا اور واپسی پر یہ واقعہ پیش آگیا۔ تحقیقاتی ٹیم کو شبہ تھا کہ یہی ٹیلی فون کال حملہ کا سبب بنی جس کے ذ ریعے احمد نورانی کو گھر سےنکالا گیا جس نے کافی عرصہ سے اپنی نقل و حرکت محدود کر رکھی تھیں لیکن پولیس نے بجا طور پر بینک افیسر کو کلیئرکردیا۔ تمام اطراف سے مایوس لوٹنے کےبعد حملہ آوروں تک پہنچنے کے لئے مقامی اخبار میں شائع ہونےو الی ایک ایسی خبر کا سہارا لیا جس میں احمد نورانی کوکسی لڑکی سے جوڑ کر ’’انکشاف‘‘ کیا گیاتھا کہ اس لڑکی کے بھائی نورانی پر قاتلانہ حملہ کرنے میں ملوث ہیں۔ پولیس کا خیال ہےکہ اس خبر کے پس پردہ کرداروں کو شامل تفتیش کرکے بات کی تہہ تک پہنچا جاسکتا ہے۔ کیا چیف کمشنر اور انسپکٹر جنرل پولیس اسلام آباد کی سربراہی میں بننے والی اسپیشل انوسٹی گیشن ٹیم اس گتھی کو سلجھانے کی اہلیت رکھتی ہے؟ اس ٹیم نے بہر حال Face saving کے لئے FIR میں 337-F-III اور 337-A/II کا اضافہ کردیا ہے جوکسی طور پر مجرموں تک پہنچنے کا راستہ نہیں۔

تازہ ترین