• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کافی پہلے لکھا تھا، مکالمہ اشد ضروری ہے۔ نہیں ہوا، یا اگر ہوا تو اُس کے نتائج عوام کے علم میں آئے نہ اُن کے اثرات ملک پر پڑتے ہوئے محسوس ہوئے۔ حالات بہتر نہیں ہوئے، کبھی کبھی کیا، بلکہ اکثر لگتا ہے کہ حالات مزید خراب ہو گئے ہیں، ہوتے جا رہے ہیں۔ پچھلے دنوں یہ تک ہوا کہ کافی عرصے سے جو معاملات سات یا کچھ کم پردوں کے پیچھے چھپے تھے، جن پر صرف سرگوشیوں میں باتیں ہوتی تھیں، وہ عریاں ہو کر سامنے آگئے۔ کراچی میںپس پردہ قوتوں کا سیاسی معاملات میں ملوث ہونا، پھر اس پر کھل کر بحث مباحثہ ہونا، اور رینجرز کے سربراہ کا اس پر گفتگو کرنا، کسی بھی طرح آئین کی حدود میں نہیں آتا۔ پہلی بات تو یہی ہے کہ جن اداروں کا سیاست سے کوئی واسطہ نہیں، نہ آئین انہیں یہ ذمہ داری سونپتا ہے ، انہیں یہ سب کچھ نہیں کرنا چاہیے تھا۔ پھر جس طرح اس پر بات ہوئی اس کے اثرات اس ملک کے لئے مثبت نہیں ہو سکتے۔ اس سے ان خدشات کی تصدیق ہوئی کہ سیاسی معاملات کو اس طرح چلنے نہیں دیا جا رہا جس طرح کسی بھی جمہوری نظام میں وہ چلتے ہیں۔ کسی بھی ملک کو دیکھ لیں اس کی تاریخ پڑھ لیں، معلوم ہو جائے گا سیاسی معاملات کس طرح چلائے جاتے ہیں، کس طرح چلائے جانے چاہئیں۔ دوسری طرف دیکھیں تو حکومت اور دوسرے اداروں کے درمیان تلخی بڑھتی جا رہی ہے۔ حکومتی وزرا کی زبان د ن بدن تلخ ہوتی جارہی ہے، اور ان کا نشانہ صرف عدلیہ نہیں ہوتی۔ تبصروں میں کوئی خاص احتیاط روا نہیں رکھی جاتی ۔ اگر یہ کہا جاتا ہو کہ عدلیہ کسی کے کہنے پر اقدامات کررہی ہے تو نام چاہے نہ لیا جائے، اشارہ واضح ہوتا ہے۔ اور جب ایوب خان سے لے کر مشرف تک کا نام لیا جائے تو کچھ پوشیدہ نہیں رہتا۔
پچھلے کچھ عرصے کے حالات کا جائزہ لیا جائے تو دل دھڑکنے لگتا ہے۔ ماضی میں اس سے بہت کم پر ملک کے حالات یکسر تبدیل ہو گئے تھے۔ ممکن ہے اس بار اُس طرح نہیںہو۔ مگر یہ تو ظاہر ہے کہ ملک بہتری کی طرف نہیں جا رہا۔ جو سیاسی رہنما گفتگو میں محتاط رہتے تھے وہ بھی خدشات کا اظہار کرنے لگے ہیں۔ سینیٹ کے چیئرمین ، جناب رضا ربانی ایک نہایت معقول آدمی ہیں، انہوں نے پہلے بھی عظیم تر مکالمہ کی بات کی تھی، اب بھی وہ ملک کو لاحق خطرات کی بات کرتے ہیں۔ ان کی بات پر توجہ دی جائے، سنجیدگی سے، اور ان سب کی باتوں پر بھی جو اس ملک کے بہتر اور مستحکم مستقبل کے خواہاں ہیں۔
کچھ دن پہلے لکھا تھا ، اور اب بھی اس میں کچھ باتیں دہرانے کی ضرورت ہے :
’’ذمہ داری سب پر عائد ہوتی ہے، ملک کو مستحکم رکھنے کی۔ سیاستدانوں کی اولین، اور جو حکومت میں ہیں، ان کی سب سے زیادہ۔ جو دوسرے ادارے اور اسٹیک ہولڈر زہیں ان کا بھی فرض ہے کہ ملک میں استحکام برقرار رکھنے میں اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ بات یہیں تک محدود نہیں رہ سکتی، نہیں رکھی جاسکتی، کہ صرف استحکام رہے۔ بات دور تلک جائے، وہاں تک جہاں نہ صرف آج بلکہ آنے والے کل اور اس کے بعد مستقبل قریب اور بعیدمیں بھی معاملات درست سمت میں چلتے رہیں۔
’’کیا یہ ممکن ہے؟ ناممکن کچھ بھی نہیں۔ صرف یہ کہ آپ کو صحیح راہ کا تعین کرنا ہوگا۔ یہ کیسے متعین ہو کہ صحیح سمت کونسی ہے؟ دنیا میں اس کا ایک ہی طریقہ ہے اور اللہ جل شانہٗ نے اپنی کتاب میں صدیوں پہلے اس راستے کی نشاندہی کردی ہے، آپس میں مشورہ کرو۔ اس مشاورت کی ضرورت ہر سطح پر محسوس کی جارہی ہے، اور اس پر بات ہو رہی ہے۔ اس کی وجوہات ملک کی تاریخ میں پیوستہ ہیں۔ باہمی عدم اعتماد ان میں سے ایک ہے۔ بلا وجہ نہیں۔ ایک طرف یوں ہے کہ اٹھارہ وزرائے اعظم میں سے کسی کو اپنی مدت پوری نہیں کرنے دی گئی۔ دوسری طرف اگر حساب لگائیں تو فوجی آمر منتخب اداروں کو چار بار ہٹا کر ستّر میں سے پینتیس برس حکومت کرتے رہے۔ اس افسوسناک تاریخی پسِ منظر کی وجہ سے ہی با شعور اور سمجھدار طبقات کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ اگر مشاورت نہیں ہوئی، مکالمہ نہیں ہوا، وسیع تر سطح پر بات چیت نہیں ہوئی تو آنے والی راہ بہت کٹھن ہوگی۔ اس کے اپنے لوگوں کے بوئے ہوئے کانٹوں پر قوم کب تک چلے گی؟ ان کانٹوں کو چننا پڑے گا، اور آنے والی نسلوں کے لئے ایک بہتر مستقبل کی نہ صرف نوید بلکہ ایک ہموار اور بے خطر راستہ بھی فراہم کرنا ہوگا۔ یہ ذمہ داری آج کی قیادت پر ہے۔ اس میں سب شامل ہیں، وہ بھی جن کا تذکرہ کیا جاسکتا ہے اور وہ بھی جنہیں عرف عام میں مقدس گائے کا لقب دیا جاتا ہے۔گفتگو اور بات چیت، یا ایک نئے عمرانی معاہدے کی تجویز کی اہمیت، آس پاس ہونے والی تبدیلیوں کی وجہ سے مزید بڑھ گئی ہے۔
’’ ....پاکستان ہر طرف سے دبائو میں ہے۔ ایسے میں اس ملک کے سیاستدانوں، دانشوروں اور دیگر اسٹیک ہولڈرز کی ذمہ داری کیا ہونی چاہئے؟ کیا یہ کوئی ملین ڈالر سوال ہے؟ یہ تو سامنے کی بات ہے، ملک کو اندرونی استحکام کی ضرورت ہے تاکہ بیرونی دبائو کا مقابلہ کیا جا سکے۔ اس کے لئے آپس میں مذاکرات ہونے چاہئیں۔ سینیٹ کے چیئرمین جناب رضا ربّانی نے بالکل درست سمت میں اشارہ کیا ہے۔ اس بات کو اتنی ہی سنجیدگی سے لینا چاہئے جتنی سنجیدگی سے یہ کہی گئی ہے۔ رضا ربّانی ایک معتبر فرد ہیں۔ ان کی جماعت میں کم ہی لوگ ہیں جن کی دیانت شبہ سے بالاتر ہو۔ اور وہ ایک غور و فکر کرنے والے آدمی بھی ہیں۔ ان کی بات کو آگے بڑھایا جائے۔ اس پر عمل کے لئے راہ ہموار کی جائے۔ اب تو فوج کے ترجمان نے بھی کہا ہے کہ فوج گرینڈ ڈائیلاگ کا حصہ ہوگی۔ یہ بہت ضروری ہے اور خوش آئند بھی۔ یہ ڈائیلاگ جتنی جلد ہوجائیں اچھا ہے۔ اسکے لئے عمرانی معاہدے جیسی مشکل اصطلاح استعمال کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ویسے کوئی حرج بھی نہیں۔ اس پر بات چیت کی جائے۔ آسان الفاظ میںیہ کہ آئندہ کے لائحہ عمل کے لئے، ملک میں کئی دہائیوں سے جاری اکھاڑ پچھاڑ کو ختم کرنا ہوگا۔ حکومت چلانے اور اس کے مختلف اداروں کے درمیان ہم آہنگی اور مفاہمت پیدا کرنے کیلئے ایک موثر نظام تشکیل دینا ہوگا۔ ایسا نظام جو سب کیلئے قابل قبول ہو، جس میں تمام ادارے آئین کے مطابق اپنے اپنے دائرے میں رہ کر کام کرسکیں، کرتے رہیں۔ کسی کو کسی پر برتری حاصل نہ ہو، کوئی کسی پر اپنی برتری نہ جتائے۔
’’آئین اور قانون کی بالادستی ہو، اور قانون سب کے لئے یکساں ہو۔یہی اچھی حکمرانی ہے اور یہی عدل، جس کا تقاضا پاکستان اپنے لوگوں سے کرتا رہا ہے، اور کررہا ہے۔
یہ احتیاط کہ کوئی بھی آئین سے روگردانی نہ کرسکے اس نئے بندوبست کا لازمی حصہ ہو۔ اسی میں اِس ملک کی بقا ہے اور اِس کے عوام کی فلاح۔‘‘ ایک اہم بات یہ ہے کہ بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ سیاست میں مداخلت نہ کریں۔ آئین پر عمل کریں۔ اس کی اہمیت کو سمجھیں۔ جو لوگ آئین اور قانون کی پاسداری نہیں کرتے انہیں آئین اور قانون کی زبان میں کسی اور لفظ سے پکارا جاتا ہے۔ اگر آپ ماضی کی طرح سامنے آکر کام نہیں کرنا چاہتے تو یہ بہتر ہے۔ مگر اس سے بہتر یہ ہے، اس ملک کے لئے، کہ آپ اس سارے کام سے بالکل علیحدہ ہوجائیں۔ آپ پر پہلے ہی بہت ذمہ داریاںہیں۔ انہیں خوش اسلوبی سے انجام دیں گے تو قوم آپ کو پلکوں پر بٹھائیگی اور دل سے عزّت کرے گی۔ دوسری صورت قوم کو پسند نہیںہے ۔

تازہ ترین