• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میر مرتضیٰ بھٹو کو کس نے قتل کیا ... بسلسلہ میں تے منو بھائی

سابق صدر آصف علی زرداری پر یہ غلط اور بےبنیاد الزام ہے کہ میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل میں ان کا کوئی ہاتھ پایا جاتا ہے۔ میر مرتضیٰ بھٹو جب وزیر اعظم بینظیر سے ملنے آئے تو میں وزیر اعظم کے صحافیوں اور صدر ذوالفقار علی بھٹو کے پریس سیکرٹری بشیر ریاض، اوورسیز پاکستانیوں کے ادارے کے انچارج شاہد نواز اور حامد میر کے پاس قیام پذیر تھا۔ ہم نے ایک محفل میں میر مرتضیٰ سے پوچھا کہ آپ کا قدرتی تعاون کس کے ساتھ ہوسکتا ہے؟ انہوں نے بتایا اگرچہ میں زرداری کو پسند نہیں کرتا مگر اپنی بہن بینظیر کو بھیڑیوں کے نرغے میں نہیں چھوڑ سکتا۔ اس سے اگلے روز انہوں نے پشاور میں اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے ملاقات کرنی تھی،غالباً انہوں نے یہی بات وہاں بھی دہرائی ہوگی۔ ان لوگوں میں یقیناً پارٹی اور میر مرتضیٰ کے دشمن بھی جاسوس کے طور پر موجود ہوں گے۔ وزیر اعظم بینظیر اور میر مرتضیٰ بھٹو کے تعاون کے اندیشے کے تحت میر مرتضیٰ کو قتل کیا گیا۔ اس قتل کے حقائق تک پہنچنے کے اندیشے کے تحت انکوائری ضروری نہیں سمجھی گئی۔ یہ عناصر صدر زرداری کے عہد حکومت میں بھی نازک اور محتاط عہدے رکھتے تھے، چنانچہ یہ مشت خاک نذر خاک کی گئی اور آصف علی زرداری بھی عوام الناس اور پارٹی کے جیالوں کو اصل حقائق سے روشناس نہ کرسکے۔اسی طرح وزیر اعظم بینظیر کے قتل کے واضح حقائق کو عوام الناس سے روشناس ہونے نہیں دیا گیا، کیونکہ اس میں حکمرانوں کا ہاتھ دیکھا جاسکتا تھا۔ حکمرانوں کے اقتدار کا تخت الٹائے جانے کے بعد بھی بینظیر کے قتل کے اصل ذمہ دار اور ان کے پیچھے اقتدار کی موجودگی کو چھپایا گیا اور پاکستان ایک بینظیر سیاستدان، ایک محب وطن لیڈر اور بھٹو کی بیٹی سے محروم ہوگیا۔ یہ ملک بینظیر کے بھائیوں میر مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو سے محروم ہوگیا۔ یہ یقینی طور پر پاکستان پیپلز پارٹی کو ختم کرنے کے لئے کیا گیا۔سب سے زیادہ ہمدردی کی مستحق بینظیر کی اولاد اور والدہ نصرت بھٹو تھیں، جو میر مرتضیٰ کے قتل کے بعد ڈامینشیا کے مرض میں چلی گئی تھیں اور اسی حالت میں وفات پاگئیں، مگر دکھائی دے رہا ہے کہ پاکستان میں بھٹو ازم کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ میں نے بلاول سے اپنی تازہ ملاقات میں یہی بات کہی ہے جو میری عیادت کے لئے میرے گھر تشریف لائے تھے۔

تازہ ترین