• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی شخصیت یا ملک کی ترقی اگر آنکھوں کے سامنے ہوتو حیرانی بھی ہوتی ہے اور خوشی بھی، کل کی بات ہے کہ افغانستان میں شکست کے بعد روس جیسا طاقتور ملک ٹکڑے ٹکڑے ہوا اور پھر سنٹرل ایشیا کے ممالک کا نیا نقشہ1991ء میںسامنے آیا۔ اس وقت ازبکستان سے لے کر ماسکو تک ہرجگہ اور ہر نئے ملک میں معاشی تباہی اور معاشرتی بدحالی اور خرابیاں عام تھیں۔ غربت اور افلاس کی وجہ سے سنٹرل ایشیا کے ہر ملک کے حالات بڑے خراب تھے۔
اس وقت فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز کے ایک وفد کے ہمراہ دسمبر1991ءمیں ازبکستان جانے کا موقع ملا۔ ان دنوں تاشقند کی معاشی حالت یہ تھی کہ100ڈالر کے عوض 16ہزار روبل آتے تھے اور معاشرتی مسائل بےپناہ تھے۔ ہر ادارہ تباہ ہوچکا تھا اور کھانے پینے سے لے کر ہر چیز نایاب تھی۔پچھلے ہفتے اسی ٹوٹے پھوٹے اور بکھرے ہوئے ازبکستان جانے کے بعد معلوم ہوا کہ 26سال میں یہ ملک کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے۔ خواندگی کی شرح سے لے کر معاشی ترقی کی رفتار میںکمال ترقی تیزی نظر آئی۔ اب وہاں برائیاں اور مسائل سڑکوں سے نکل کر چندکلبوں اور علاقوں تکمحدود ہوگئے ہیں،سرکاری اداروں میں بھی کام ہورہا ہے اور گورننس کی بہتری واضع نظر آرہی تھی۔ اس دورے کا اہتمام اے پی این ا یس کے وفد کے لئے سنٹر فار گلوبل اینڈ اسٹرٹیجک ا سٹڈیز (CGSS) نے کیا تھا جس کے روح رواں کرنل (ر) خالد ترین نے ازبک حکومت اور اے پی این ایس وفد کی ملاقاتوں کا بڑی اچھی کوارڈینیشن سے کیا تھا۔ اس دورے میں ازبکستان کی معاشی ترقی اور دونوں ممالک کے درمیان تعلیم، اقتصادیات ازبک اور دیگر شعبوں میں باہمی تعاون بڑھانے اور دوطرفہ فضائی سروسز میں اضافہ کے امور بڑی تفصیل سے زیر بحث آئے۔
ازبکستان کے دورے کے دوران تاشقند ،سمر قند اور بخارا جیسے تاریخی مقامات پر بھی جانا ہوا، خاص کر سمرقند میں اقوام متحدہ کے زیر اہتمام سنٹرل ایشیا ءمیں سیکورٹی اور ترقی کے تسلسل کے موضوع پر بین الاقوامی کانفرنس کا انعقاد ہوا جس میں پاکستان سمیت32 ممالک کے اعلیٰ سطحی وفود نے شرکت کی جن میں پاکستان میں وزیر اعظم کے قومی سلامتی کے مشیر جنرل(ر) ناصر جنجوعہ، میجر جنرل حافظ مسرور، کرنل (ر)خالد ترین، اے پی این ایس کے سینئر نائب صدر قاضی اسد عابد کے علاوہ ایران اور افغانستان کے وزرائے خارجہ بھی خصوصی طور پر شریک ہوئے۔
اس کانفرنس میں امریکہ ، یورپی یونین ، چین، کوریا اور جاپان کے بھی اعلیٰ سطحی وفود نے شرکت کی۔ سمرقند کانفرنس میں ہونے والی تقاریر سے ایسے لگتا تھا کہ بین الاقوامی معاشی ترقی کا نیاہب یہاںبننے والا ہے اور معاشی ترقی کے ایک نئے باب کا آغاز ہونے والا ہے۔ پاکستانی وفد کے سربراہ جنرل ناصر جنجوعہ نے کانفرنس میں پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی اور اس کے نقصانات کا تفصیلی تذکرہ کیا اور کانفرنس کے شرکاء کو بتایا کہ پاکستان کو افغانستان میں قیام امن کے لئے اور سنٹرل ایشیاء کے ساتھ بہترین تعلقات کے قیام میں بین الاقوامی اور داخلی سطح پر کتنی مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔اسی طرح بھارتی اور افغان وزراء نے بھی اپنے اپنے انداز میں اظہار خیال کیا۔
کانفرنس میں ازبکستان کے صدر نے اپنے ملک کی ترقیاتی حکمت عملی کے حوالے سے تفصیلی خطاب کیا جبکہ کانفرنس کے اختتام پر وزیر خارجہ ازبکستان نے اس امید کا اظہار کیا کہ آنے والے عرصہ میں ان کا ملک ترقی اور خوشحالی کا سفر تیز کررہا ہے۔ ازبکستان میں اے پی این ایس کے وفد کو تاشقند، سمرقند اور بخارا ہر جگہ بڑی پذیرائی ملی۔ اس ملک کی آبادی3 کروڑ اور رقبہ بلوچستان کے برابر ہے۔ یہاں 60فیصد آبادی 25سال سے کم عمر ہے۔
یہی صورتحال پاکستان کی بھی ہے، مگر یہاں نوجوانوں کو کوئی روزگار نہیں مل رہا اور اس کے باعث وہ منفی سرگرمیوں میں ملوث ہوتے جارہے ہیں جبکہ وہاں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہر ادارے اور ہر کام میں بڑے فعال نظر آرہے ہیں۔ ازبکستان میں ہر ادارہ اور ہر شخص پاکستان سے محبت اور مختلف معاشی، تجارتی شعبوں میں تعاون بڑھانے کا خواہاں نظر آیا۔ خاص کر سیاحت اور مذہبی مقامات کے وزٹ پر زور دیتا رہا ،ا س سلسلہ میں کئی امور پر تعاون بڑھانے پر اتفاق رائے کیا گیا جس کے تحت سنٹر فار گلوبل اینڈ سٹرٹیجک سڈیز(CGSS)مختلف اداروں کے آنے والے دنوں میں مفاہمتی دستاویز(MOU)پر دستخط کا سلسلہ شروع ہوسکتا ہے۔ اس دورے سے خوشی یہ ہوئی کہ وہاں سوائے مواصلات کے شعبہ کے ہر شعبہ میں روس دور کی سختیاں اور خرابیاں ختم ہوتی جارہی ہیں اور ایسے لگ رہا ہے کہ ازبکستان سے لے کر پورا سنٹرل ایشیا2020 ءکے بعد عالمی افق پر ایک نئے اقتصادی باب میں اضافہ کا باعث بننے والا ہے۔

تازہ ترین