• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جا بجا کھڑے کنٹینر،بند راستے، بارش سے بچتے یا دھوپ میں سستاتے ڈنڈا بردار اہلکار، مرکزی گزرگاہ پر دندناتے مظاہرین، شہر کی شہ رگ جیسی شاہراہ پر قائم خیمہ بستی میں مورچہ بند مظاہرین، ارد گرد بکھرا کوڑا کرکٹ، فضا میں پھیلی ناگوار بو، اپنے ہی گھروں میں نظر بند اہل علاقہ، خوف زدہ انتظامیہ ، منت سماجت پر مبنی بیانات دیتے حکومتی وزراء، بدترین ٹریفک جام میں پھنسی ایمبولینس کے سائرن کی بے اثر آوازیں ، سسکیاں لے کر دم توڑتے بچے کے دہائیاں دیتے لاچار والدین، کچی پکی متبادل سڑکوں،فٹ پاتھوں اور پگڈنڈیوں سے منزل تک پہنچنے کیلئے خوار ہوتے بے بس عوام، یہ ہے دنیا کی ساتویں ایٹمی قوت پاکستان کا دارلحکومت اسلام آباد جسے دو ہفتے تک چند ہزار مظاہرین نے یرغمال بنائے رکھا، جہاں زندگی مفلوج رہی۔ ریاست کا وجود ڈھونڈنے سے نظر نہیں آیا،حکومت کنٹینروں کے پیچھے پناہ لے کر اپنے فرائض ادا کر چکی، اسلام آباد ہائی کورٹ کاحکم بے توقیر کیا جا چکا، وفاقی وزیر داخلہ کی چوبیس گھنٹوں میں قوم کو خوشخبری دینے کا معرکہ سر انجام کرنے کے اعلان کے بعد غالب امکان ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک وفاقی دارلحکومت میں داخل ہونیو الے مرکزی راستے کو ان مظاہرین سے واگزار کرا لیا گیا ہوگا جو وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے، وہ انہیں اس جرم کی سزا دینے پر بضد تھے جس کے ان سے سرزد ہونے کے بارے میں کوئی ٹھوس شواہد نہیں ملے تھے۔ پارلیمان سے جو اجتماعی غلطی ہوئی تھی تمام سیاسی جماعتوں نے الیکشن ایکٹ 2017 میں ترمیم کر کے اس کی تلافی بھی کر دی ،ختم نبوت کا قانون اردو اور انگریزی کے حلف ناموں سمیت پوری طرح بحال ہو چکا اس لئے میرا موضوع یہ نہیں کہ وہ سب کیوں کیسے اور کس نے کیا بلکہ میں تو اس عام شہری کا مقدمہ لڑنے کی سعی کر رہا ہوں جسے مذہبی استحصال کے ذریعے چودہ دن اسکے بنیادی حقوق سے محروم کیا گیا، اس بچے کے لہو کو کسی کے ہاتھ پر تلاش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں جس کے کان میں یہ گواہی دی گئی تھی کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم، اللہ کے نبی ہیں جنہوں نے فرمایا تھا کہ ایک انسان کا قتل پوری انسانیت کا قتل ہے، اس ماں کی اکھڑتی سانسوں کا حساب چاہتا ہوں جس کے قدموں میں جنت ڈھونڈنے کاحکم دیا گیا،اس مزدور کے بجھائے جانیو الے چولہے کی راکھ کریدنا مقصد ہے جسے اللہ کا دوست کہا گیا، اس طالب علم کی بے حرمتی کا قصیدہ لکھنا مطمع نظر ہے جس کیلئے حصول علم کی راہ میں مارے جانے پرشہادت کے رتبے کا ذکر کیا گیا، اس مریض کی بے کسی پر ماتم کرنا حرف تمنا ہے جس کی تیمارداری کو اجر عظیم قرار دیا گیا، اس بزرگ کی محتاجی کو الفاظ دینے ہیں جس سے ادب سے بات کرنے اور اس کا سہارا بننے کا حکم دیا گیا اوروہیل چیئرگھسیٹتی اس خاتون کے مصائب کا احساس دلانا ہے جس سے بھلائی کرنے اور حسن سلوک سے پیش آنے کا حکم دیا گیا۔ مٹھی بھر افراد کی طرف سے لاکھوں لوگوں کے حقوق کو سلب کرنے اور وفاقی دارالحکومت کو یرغمال بنانے کا یہ تماشا پہلی بار نہیں ہوا بلکہ موجودہ حکومت کے ساتھ ہر تھوڑے عرصے بعد ہاتھ ہو جاتا ہے جس کے بارے میں حکمراں ’خفیہ ہاتھ‘ کا تاثر دے کر اپنی نا اہلی کو چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ملکی معاملات سے نمٹنے کی اہلیت اور امور حکومت چلانے کی استعداد کار میں کمی کا آسان فارمولا یہ نکالا گیا ہے کہ سارا ملبہ دوسروں پر ڈال دیا جائے، آن رکارڈ تمام ریاستی اداروں میں مکمل ہم آہنگی کے دعوے کئے جائیں جبکہ آف دی ریکارڈ گفتگو میں ہر خرابی کا ذمہ دار خفیہ ہاتھ کوقرار دیا جائے۔ ہر معاملے کو بند گلی میں پہنچانے کا ہنر کوئی اس حکومت سے سیکھے جسے اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جج نے بھی کرکٹ کے تماشائی سے تشبیہ دی ہے۔ ریاستی رٹ کو مذاق بنا دینے والی حکومت ایسے مضحکہ خیز عذر بیان کرتی ہے کہ واقعی سر دھننے کو جی چاہتا ہے ،وفاقی وزارت داخلہ کے کرتا دھرتا فرماتے ہیں کہ لاہور سے اسلام آباد پہنچ کر وفاقی دارلحکومت کی ناکہ بندی کرنے والے مظاہرین نے وعدہ خلافی کی ہے ،مظاہرین نے لاہور سے روانگی سے قبل اتفاق کیا تھا کہ وہ سڑکوں کو بند نہیں کریں گے، اسی طرح کے وعدے کی پاداش میں بطور سزا ایک سو چھبیس دن کا طویل دھرنا بھگتنے والی حکومت اب بھی اگر ایسے وعدوں پر اعتبار کرے تو پھر اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا۔ یہ بھی کسی لطیفے سے کم نہیں کہ جس وفاقی وزیر داخلہ کے دور میں قوم نے چار ماہ سے زیادہ عذاب بھگتا وہ اب اپنی ہی حکومت کو بھاشن دے رہے ہیں کہ مظاہرین کو ایسی لاقانونیت کیا اجازت ہرگز نہ دی جائے اور راستے خالی کرائے جائیں( اب اتنے حساس ہونے کی وجہ شاید اس لئے کہ یہی راستہ محترم سابق وفاقی وزیر داخلہ کے گھر کو بھی جاتا ہے)۔
ویسے آفرین ہے کہ مظاہرین صوبائی دارلحکومت سے وفاقی دارالحکومت پہنچ کر مرکزی شاہراہ پرقابض ہو گئے اور حکومت سوئی رہی، اپنے قتدار کی علامت عمارتوں کو کنٹینروں سے محفوظ بنا کرجڑواں شہروں اور عوام کو مظاہرین کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیا۔ مظاہرین میں اسلحہ بردار شر پسند عناصر کی موجودگی اور ماڈل ٹاون جیسے سانحے کے خدشے کو جواز بنا کر عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ سے دست برداری اختیار کر لی گئی لیکن یہاں کچھ سوالات جنم لیتے ہیں اور پاکستان کے بے بس عوام مفلوج حکومت سے ان کے جوابات جاننا چاہتے ہیں۔ ایک ایسے رہنما کی قیادت میں تحریک لبیک پاکستان کی بطور سیاسی جماعت الیکشن کمیشن میں رجسٹریشن کی اجازت کس نے دی جسکے تشدد پسند نظریات کے باعث اس کیخلاف متعدد مقدمات درج ہیں، جس رہنما کا نام فورتھ شیڈول میں درج ہے جسے گھر سے باہر نکلنے کیلئے بھی پولیس کو اطلاع دینی ضرروی ہے اس کو لاہور سے مظاہرین کی قیادت کر کے سینکڑوں میل کا سفر کرنے کی اجازت کیسے دی گئی۔ تحریک کے جن کارکنوں کو اب پانی سر سے گزرنے کے بعد پنجاب بھر میں گھروں میں نظر بند کیا جا رہا یا حراست میں لیا جا رہا ہے ان کو اسلام آباد کی طرف بڑھنے سے پہلے ہی حفاظتی تحویل میں کیوں نہیں لیا گیا۔ حکومت کا انٹیلی جنس نظام پیشگی اطلاعات دینے میں کیوں ناکام رہا کہ وفاقی دارالحکومت کی طرف جانے والے مظاہرین کے عزائم کیا ہیں۔ پنجاب حکومت بالخصوص وزیر قانون جن کے ایسی تنظیموں سے تعلقات کی خبریں عام ہیں انہوں نے مظاہرین کو انتہائی قدم نہ اٹھانے پر کیوں قائل نہیں کیا۔ پنجاب حکومت نے اپنی حدود میں ان مظاہرین کو روکنے کیلئے موثر اقدامات کیوں نہیں کئے، وفاقی اور پنجاب حکومت میں رابطے کا فقدان کیوں رہا کہ وہ اپنی حدود کے تعین میں الجھے رہے اور مظاہرین اسلام آباد کو پنجاب اور دیگر علاقوں سے ملانے والے فیض آباد انٹرچینج پر قابض ہو گئے۔ وفاقی حکومت نے صورتحال کو خراب ہونے سے بچانے کیلئے علماءو مشائخ کی بر وقت مدد کیوں حاصل نہیں کی۔ مظاہرین کی قیادت سے فوری بات چیت کیوں شروع نہیں کی گئی اور انہیں متبادل جگہ پر دھرنا دینے پر قائل کرنے کی کوششیں کیوں نہیں کی گئیں۔ آخر میں اگرموجودہ حکومت کو یاد ہو کہ ایک قومی ایکشن پلان بنایا گیا تھا جس کا تیسرا نکتہ یہ تھا کہ ملک میں کالعدم تنظیموں اور مسلح گروہوں پرمکمل پابندی ہو گی، عملی طور پر متروک ہوئے اس مسودے کا پانچواں نکتہ یہ تھا کہ نفرت انگیز تقاریر اور انتہا پسندانہ مواد پر پابندی عائد ہو گی،لاوڈ اسپیکر کے غلط استعمال کی ہرگز اجازت نہیں ہو گی، یاداشت بحال کریں تو ادراک ہو گا کہ اسی قومی ایکشن پلان کا نواں نکتہ طے پایا تھا کہ مذہبی بنیادوں پر استحصال کو مکمل ختم کیا جائے گا،چودھویں نکتے میں عزم ظاہر کیا گیا تھا کہ پنجاب میں انتہا پسندی کا مکمل خاتمہ کیا جائے گا اور اٹھارویں نکتے میں فرقہ واریت پر قابو پانے کے اقدامات کا ذکر کیا گیا تھا۔ حکومت مذکورہ سوالات کے جوابات دینے کے ساتھ گرد جھاڑ کر قومی ایکشن پلان کے ان نکات کو ایک بار پڑھ لے تو اسے اپنے مفلوج اورعوام کے بے بس ہونے کی وجہ بھی سمجھ میں آ جائیگی، اگر یہ بھی بار گراں تو پھر کنٹینروں کو پڑا رہنے دیں،جلد دوبارہ ضرورت پڑ سکتی ہے۔

تازہ ترین