• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی کی ایک مشہور شاہراہ کے کنارے آباد 600سال پرانا قبرستان رات کے اندھیرے میں ڈوبا ہوا تھا۔ فضاء نے خاموشی کی گہری چادر اوڑھی ہوئی تھی۔ ہوا کی سرسراہٹ اور نومبر کی کچی سردیوں کی ٹھنڈی ہوا ہولے ہولے جسم سے ٹکراتی تو میں کانپ اٹھتا۔ ہلکا ہلکا اندیکھا خوف میرے ذہن پر طاری تھا لیکن میں ساری توانائی یکجا کرکے آگے بڑھتا رہا۔

میری منزل وہی صدیوں پرانا ’چوکنڈی قبرستان‘ تھا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ پر اسرار اور آسیب زدہ ہے۔ رات کو یہاں چیخیں سنائی دیتی ہیں اور جانور کے چیخنے کی عجیب عجیب آوازیں اطراف کے رہائشیوں کو ڈرا تی رہتی ہیں اور اندھیرا ہوتے ہی وہ گھروں تک محدود ہوجاتے ہیں۔ میں اس ’راز ‘کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا خواہشمند تھا اور یہ میری فطرت میں شامل ہے۔

قبیلے کے سردار کی آخری آرام گاہ

بانس والوں کی دکانوں کے درمیان سے نکلتی چوڑی سی بغلی پگڈنڈی سے ہوتا ہوا میں قبرستان کے داخلی دروازے کے اندر بنے پارکنگ اسپیس پر جاکر کھڑا ہوگیا۔ دور دور تک نظر دوڑائی ۔ 15صدی 18صدی تک کی درمیانی مدت میں بنی قبریں اپنی جگہ استادہ تھیں ۔۔۔مگر پر اسرار انداز میں۔ یہ پر اسرار شاید میرا وہمہ تھالیکن مجھے یہ اعتراف کرنے میں کوئی عار نہیں کہ اندر سے میں بھی کچھ ڈرا ڈرا سا تھا۔

سند ھ دھرتی کا تاریخی ورثہ قرار پانے والے’ چوکنڈی قبرستان ‘میں رات کے دوسرے پہر سے صبح کی پوپھوٹنے تک میں پورا قبرستان دیکھ چکا تھا اور جب وہاں بنی کئی کئی فٹ بلند قبروں کی آڑ سے سورج کی روپہلی کرنوں سے جھانکنا شروع کیا تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ اس منظر کو کیمرے کی آنکھ میں بند کرلیا جائے۔

جنگجو کی قبر پر کندہ خنجر

یہاں یہ راز بھی میں افشاں کرتا چلوں کہ میرے ایک دوست ناصر جمال بھی صبح ہوتے ہی وہاں پہنچ گئے اور چونکہ وہ قبرستان کی ویڈیو بنانے کے متمنی تھے لہذا انہوں نے آتے ہی کیمرہ سنبھال لیا۔

کراچی کے جنوب میں لانڈھی، رزاق آباد پولیس ٹریننگ سینٹر کے عقب میں واقع سندھ کے قدیم ورثے ’چوکنڈی قبرستان‘ سے خود کراچی کے شہر ی بہت کم واقف ہیں ۔ حد تو یہ ہے کہ سندھ کے تاریخی شہر ٹھٹھہ کے سب سے مشہور آثار قدیمہ میں شمار کیے جانے والے ’مکلی قبرستان‘ سے ہر پاکستانی واقف ہے مگر کراچی شہر میں بھی اس سے مشابہت رکھنے والا ایک قدیمی قبرستان ہے، اس کا علم کم لوگوں کو ہی ہے۔

قبیلے کے نمایاں رتبہ رکھنے والوں کی چند قبریں

محکمہ آثار قدیمہ کے مطابق چوکنڈی کی قبریں دو قبیلوں ’جوکھیوں‘ اور ’بلوچوں‘ سے منسوب کی جاتی ہیں۔چوکنڈی کے لغوی معنی ’چار کونوں‘ کے ہیں۔ چونکہ یہاں موجود تمام قبروں کے چار کونے ہیں غالباً اسی وجہ سے اسے ’چوکنڈی قبرستان‘ کا نام ملا ہے۔

یہاں تمام قبریں جنگ شاہی پتھر سے تعمیر کی گئی ہیں جو تیز پیلے اور قریب قریب زرد رنگ سے ملتا جلتا ہے۔ جنگ شاہی میں یہ پتھر آج بھی اسی رنگ میں ملتا اور استعمال ہوتا ہے۔

سنگ مرمر کی طرح اس پر بھی کسی قسم کی سفیدی یا رنگ و روغن کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 6 صدی قبل بنی چوکنڈی کی یہ قبریں موسموں کی انگنت سختیاں جھیلنے کے باوجود قائم و دائم ہیں۔

ایک قبر کے اوپری حصہ میں موجود’ کلمہ‘ 

چوکنڈی میں موجود یہ تاریخی مستطیل نما قبریں عموماً ڈھائی فٹ چوڑی، پانچ فٹ لمبی اور چار سے چھ فٹ تک اونچی ہیں۔جو دیکھنے سے تعلق رکھتی ہیں۔

قبروں پر باقاعدہ نقاشی کی گئی ہے۔ نقاشی میں پھول بوٹے، مختلف ڈیزائن، مصری بادشاہوں کے تاج سے ملتے جلتے سرہانےاور جالیاں تعمیر کی گئی ہیں۔ کچھ قبروں پر بلندوبالا گنبد بھی تعمیر کئے گئے ہیں جو اس بات کی جانب اشارہ ہیں کہ ان قبروں میں عام لوگ مدفن نہیں۔ یقیناً یہ کوئی عہدہ یا اعلیٰ مقام رکھتے ہوں گے۔

ہم نے یہاں ایسی قبریں بھی دیکھیں جن پر تلوار بازی، گھڑ سواری اور تلوار، خنجر و غیرہ کے نقوش بھی پائے جاتے ہیں جبکہ خواتین کی قبروں پر خوبصورت زیورات کنندہ کئے گئے ہیں۔بعض قبریں چبوترے پر بنائی گئی تھیں جبکہ بعض کے نیچے ایک طرح کے طاق بنائے گئے ہیں جن کے آر پار دیکھا جاسکتا ہے۔

قبروں پر موجود زیورات خواتین کی قبروں کی نشاندہی کرتے ہیں

یہاں کی ایک دلچسپ بات یہ بھی ہے کہ کچھ خواتین کی قبروں پر ڈولی اور جنازے کی علامت گہوارے سے مشابہہ نقوش بھی موجود تھے جن کا مطلب تھا کہ یہ قبریں شادی شدہ رئیس خواتین کی ہیں ۔

یہ قبریں اس دور کے فن تعمیرات کا اعلیٰ نمونہ ہیں لیکن افسوس ان کی مناسب دیکھ بھال نہیں کی جارہی جس سے یہ تاریخی ورثہ ضائع ہو رہا ہے۔ بیشتر قبریں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جبکہ لینڈ مافیا رفتہ رفتہ قبروں کو ختم کرکے اراضی پر قبضہ کرتا جا رہا ہے۔

اکا دکا کتابوں کے علاوہ جدید دور کی کتابوں میں چوکنڈی قبرستان کا ذکر تک نہیں ملتا اس لئے نوجوان نسل اپنے ہی تاریخی اور قدیمی ورثے سے لاعلم ہے۔

مردوں کی قبروں کے سرہانے پگ یا پگڑی کا ڈیزائن

ریسرچر یا مورخین کا یہاں آنا تو محال دکھائی دیتا ہے تاہم نوجوانوں کے لئے اس قبرستان کی اب صرف فوٹوگرافی کی حد تک اہمیت رہ گئی ہے جبکہ بعض افراد اسے ملبوسات اور دیگر اشیا کی ماڈلنگ کے لئے محض ایک ’اچھے مقام‘ سے زیادہ کچھ نہیں سمجھتے۔

نیشنل ہائی وے پر ایک چھوٹا سا بورڈ اس قبرستان کی موجودگی کا احساس دلاتا ہے ، تاہم اس چھوٹے سے بورڈ پر بھی تشہیری پوسٹرز کی بھرمار سے ایسا گمان ہوتا ہے کہ یہ بورڈ قبرستان کی نشاندہی کے بجائے پبلسٹی کے لئے آویزاں کیا گیا ہے۔

قبروں کی ترتیب اور بناوٹ کے شاہکار

قبرستان کے ایک رکھوالے نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ’جنگ‘ کے نمائندے کو بتایا ’ یہاں قبروں کا معیار اس قبر میں موجود میت کے سماجی رتبے اور مال و دولت سے کیا جاتا ہے۔ جوقبر جتنی اونچی ہے ، مرنے والے شخص کا دنیاوی رتبہ اور مال و دولت بھی اسی معیار کی رہی ہوگی البتہ جو قبریں کچی ہیں وہ لوگ غریب اور کم رتبہ رکھنے والوں کی ہیں۔

قبرستان کے پر اسرار اور آسیب زدہ ہونے کے سوال پر انہوں نے ہنس کر جواب دیا ’ میں 5 سال سے یہاں رہ رہا ہوں ،پوری فیملی یہیں رہتی ہے ،میں نے آج تک یہاں کوئی ایسی غیر معمولی بات یا واقعہ نہیں دیکھا۔ مجھ سے پہلے میرے والد بھی یہیں ہواکرتے تھے مگر انھوں نے بھی کبھی ایسا کوئی تذکرہ نہیں کیا۔ یہ محض پھیلائی ہوئی من گھڑت باتیں ہیں جن میں کسی قسم کی کوئی صداقت نہیں۔

جب ہم دونوں دوست ، میں اور ناصر ،قبرستان سے باہر نکلے تو یہ خیال آتے ہی ہم زیر لب مسکرا اٹھے کہ سنی سنائی باتوں پر یقین کرکے ہم رات کے وقت کتنا ڈر گئے تھے حد تو یہ تھی کہ ناصر جمال جنہیں اپنی بہادری پر ’ناز ‘ ہواکرتا تھا وہ ان باتوں پر اس حد تک اعتماد کربیٹھے کہ رات کو میرے ساتھ آنے تک سے انکار کردیا اور صبح کے وقت مجھے جوائن کیا۔۔۔اس کے باوجود خدا گواہ ہے کہ ناصر نہ ہوتے تو شاید میں یہ اسائنمنٹ اتنی اچھی طرح مکمل نہ کرپاتا ۔ ۔۔۔تھینک یو۔۔ناصر ۔۔۔تھینک یو سو مچ ۔۔۔

 

تازہ ترین