• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد اور راولپنڈی کے سنگم فیض آباد چوک پر ایک مذہبی جماعت کے دھرنے سے لاکھوں شہریوں کی زندگی اجیرن ہو گئی۔ وقفے وقفے سے اس طرح کے واقعات رو پذیر ہوتے رہتے ہیں جس میں حکومت بے بس نظر آتی ہے۔ بظاہر حکومت اخلاقی اور قانونی جواز سے مبرا نظر آتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ حکمران طبقے اور عوام کے درمیان عمرانی معاہدہ معطل ہو چکا ہے: عوام کو پورے حکمران سیاسی طبقے پر اعتماد نہیں ہے جس کی وجہ سے ایک خلا پیدا ہو گیا ہے جس کو اکثر اوقات مذہبی جتھے اپنی محدود نظریاتی فکر سے پر کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ حکمران طبقے کے مختلف حصے بھی لوگوں کے مذہبی احساسات سے کھیلنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں جس کے نتیجے میں بعض مذہبی دھڑے سمجھتے ہیں کہ ان کے پاس ویٹو پاور ہے اور وہ جس وقت چاہیں اس کا استعمال کر سکتے ہیں۔ فیض آباد میں ہونے والا دھرنا اس کی ہی ایک مثال ہے جس میں پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف سے لے کر تمام سیاسی جماعتوں نے قانون میں ایک معمولی غلطی کو اچھال کر اپنی اپنی سیاست چمکانے کی کوشش کی۔اس سارے واقعہ سے یہ اخذ کرنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان کے سیاسی ادارے ابھی بلوغت کو نہیں پہنچے اور عارضی مفادات کے لئے ریاست کے دیر پا استحکام کو قربان کر دیتے ہیں۔
پاکستان میں سیاسی اداروں کے ارتقا میں ابتدا سے ہی بہت سے مسائل تھے۔ جب پاکستان معرض وجود میں آیا تو اس کی رہنمائی مسلم لیگ کے ہاتھوں میں تھی۔ مغربی پاکستان کی حد تک مسلم لیگ بڑے جاگیرداروں اور زمینداروں پر مشتمل تھی جبکہ مشرقی پاکستان میں درمیانہ طبقہ حاوی تھا۔ پورے پاکستان سے ہندوئوں اور سکھوں کی نقل مکانی کے بعد خواندہ شہری طبقہ ناپید ہو گیا تھا۔ معرض وجود میں آنے والے پاکستان میں زیادہ تر آبادی کسانوں کی تھی۔ شہروں میں بھی مسلمان مزدور اور دستکار طبقوں پر مشتمل تھے۔ غرضیکہ پاکستان میں وہ طبقات موجود نہیں تھے جو زمانہ جدید کے سیاسی تقاضوں کو سمجھتے ہوئے نظام حکومت چلا سکیں۔ اس وسیع تر سیاسی خلا میں فوج اور نوکر شاہی کو برتری حاصل ہو گئی۔ شروع میں نوکر شاہی کے کارندوں نے سیاسی خلا کو اپنی محلاتی سازشوں سے پر کرنے کی کوشش کی جو کہ کامیاب نہ ہو سکی اور فوج نے نظام حکومت اپنے ہاتھوں میں لے لیا۔جنرل ایوب خان کی سربراہی میںکنونشن لیگ کی شکل میں ایک بناوٹی سیاسی جماعت تشکیل دی گئی جو کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی عوامی تحریک کے سامنے ریت کی دیوار کی طرح ڈھیر ہو گئی۔
قطع نظر تمام تر خامیوں کے پیپلز پارٹی کی تحریک کے نتیجے میں پہلی مرتبہ ایک جمہوری عمرانی معاہدہ تشکیل ہونے کے امکانات روشن ہو ئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کی زیر قیادت چلنے والی پیپلز پارٹی کی تحریک ایک جامع سیاسی، معاشی اور سماجی پروگرام پر مبنی تھی۔ یہ امر حادثہ نہیں ہے کہ اسی پارٹی کے دور حکومت میں 1973میں پاکستان کا آئین منظور کیا گیا جس پر تمام پارٹیوں کا اتفاق ہے۔ پیپلز پارٹی کی تحریک میں پہلی مرتبہ درمیانے طبقے کے پڑھے لکھے لوگ اسمبلیوں تک پہنچے۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد یہ پہلا موقع تھا کہ پائیدار سیاسی ادارے کی بنیاد رکھی گئی۔ لیکن جنرل ضیاء الحق کے مارشل لا کے نتیجے میں سیاسی اداروں کے ارتقا کے عمل کو روک دیا گیا اور پیدا ہونیوالے خلا کو مذہبی نظریاتی ادارے سے پر کیا گیا۔
جنرل ضیاء الحق کے اسی دور میں سیاسی ادارے دہری مشکلات کا شکار ہو گئے۔ ایک طرف تو ضیاء الحق کی مذہبی بنیاد پرستی ستر کی دہائی میں تشکیل پانے والے عمرانی معاہدے کی نفی تھی تو دوسری طرف پاکستانی معاشرے میں بنیادی معاشی تبدیلیاں پیدا ہونا شروع ہو گئیں۔ گلو بلائزیشن کی طاقتوں کے زیر اثر ہزاروں سال سے قائم زرعی نظام تبدیل ہونے لگا اور انسانی محنت کی جگہ مشین نے لینا شروع کردی۔ اگلی آنے والی کئی دہائیوں میں زرعی نظام سکڑ کر قومی پیداوار کا بیس فیصد رہ گیا ہے اور اسی فیصد معیشت صنعتی، تجارتی اور سروسز کا مرکب بن گیا گیا ہے۔ اس نئے معاشرے کے لئے ایک نیا عمرانی معاہدہ درکار تھا جس کے بارے میں محترمہ بینظیر بھٹو شہید اشارے دیتی رہی ہیں۔ نئی سماجی ترتیب نئے سیاسی نظام کی متقاضی تھی لیکن جنرل ضیاء الحق کی مقرر کردہ حدوں کی وجہ سے نئے کاروباری طبقوں نے سیاست کی بساط پر قبضہ کر لیا۔ سابقہ وزیر اعظم میاں نواز شریف کی مسلم لیگ انہی طبقات کی نمائندگی کرتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مذکورہ کاروباری طبقات نے کبھی جامع سیاسی، معاشی اور سماجی پروگرام پیش نہیں کیا اس لئے یہ کبھی بھی نئے عمرانی معاہدے کی مضبوط بنیادیں فراہم نہیں کر سکی۔ پیپلز پارٹی کی عوام میں جڑیں موجود تھیں لیکن اس نے بھی 1988 میں حکومت سنبھالنے کے بعد میاں نواز شریف ماڈل کو اپناتے ہوئے نئے امیر طبقے میں شامل ہونے کے لئے بھاگ دوڑ شروع کردی۔ نوے کی دہائی میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی حکومت میں باریاں لیتی رہیں لیکن دونوں پارٹیوں کے پاس نئے معاشرے کے مطابق کوئی نظریہ یا پروگرام نہیں تھا۔ یہ بھی ایک طرح سے سیاسی خلا کی کیفیت تھی جس کو حکمرانوں کے دو دھڑے پر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں پارٹیوں میں سے کوئی بھی بھٹو جیسی عوامی تحریک نہیں چلا سکا۔
اب میاں نواز شریف ایک سیاسی تحریک کے ذریعے نیا نظام قائم کرنا چاہتے ہیںجس کی کامیابی کے امکانات بہت محدود ہیں۔ نہ صرف یہ کہ ان کے پاس کوئی متبادل جامع سیاسی نظریہ نہیں ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ عوام کی اکثریت ان پر لگے ہوئے الزامات کو درست سمجھتی ہے۔ ان کے ہمدرد حلقوں کے پاس ان کے حق میں صرف ایک دلیل ہے کہ جمہوری نظام کو جاری رکھنے سے سیاسی ادارے مضبوط ہو سکتے ہیں۔ سندھ تک سکڑی ہوئی پیپلز پارٹی کے بارے میں بھی عوام سمجھتے ہیں کہ اس کا دور لوٹ مار سے بھرپور تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کسی حد تک نئے طبقات کی نمائندگی کر رہی ہے لیکن اس کے پاس بھی کوئی ایسا نظریہ نہیں ہے جو نئے عمرانی معاہدے کی بنیاد بن سکے۔ غرضیکہ ایک ایسا بنیادی سیاسی خلا موجود ہے جس کو موجود سیاسی پارٹیاں پر نہیں کر سکتیں۔ اگر یہ سیاسی خلا گہرا ہوتا گیا تو فیض آباد جیسی صورت حال پیدا ہوتی رہے گی۔

تازہ ترین