• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

’’صعر‘‘ عربی زبان میں اُس بیماری کو کہتے ہیں جو اُونٹ کی گردن میں پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے اُونٹ دونوں اطراف اپنی گردن نہیں پھیر سکتا بلکہ اِس بیماری کی وجہ سے اُس کی گردن ایک طرف ہی رہتی ہے۔ اِسی بیماری سے محاورہ پیدا ہوا تھا ’’کہ فلاں شخص نے اُونٹ کی طرح اپنا کلہ پھیر لیا‘‘ یعنی تکبر کے ساتھ پیش آیا، اِس حوالے سے حضرت لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا تھا کہ بیٹا کبھی اپنے سے کم حیثیت والے شخص سے منہ پھیر کر بات مت کرنا یہ تکبر کی نشانی ہے اور تکبر اللہ تعالیٰ کو سب سے زیادہ نا پسند ہے۔ حضرت لقمان نے مزید کہا کہ تکبر انسان کی کمزوری ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ جب انسان کو عہدہ و منصب یا مال و دولت دیتا ہے تو وہ غریبوں اور ماتحتوں سے منہ پھیر کر اور تکبر سے بات کرتا ہے، میرے بیٹے تم ایسا نہ کرنا۔ پھر نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ زمین پر اکڑ کر مت چلنا اور انکساری سے زندگی بسر کرنا۔ سورہ بنی اسرائیل میں بھی انسان کو تکبر اور غرور سے منع کرکے عاجزی اور انکساری کا درس دیا گیا ہے۔ انسان جب اللہ کی پکڑ میں آتا ہے تو وہ سمجھتا ہے کہ میں کسی دوسرے راستے سے نکل جاؤں گا اور مصیبت سے چھٹکارا حاصل ہو جائے گا لیکن یہ اُس کی خام خیالی اور بھول ہوتی ہے۔ مصیبت انسان پرایک سمت سے نہیں بلکہ چاروں اطراف سے حملہ کرتی ہے اور انسان اپنے تکبر اور غرور کی وجہ سے مصائب کے شکنجے میں جکڑا جاتا ہے۔ پاکستان میں جاری سیاسی اُتار چڑھاؤ، عدالتوں کے فیصلے، زہریلی اسموگ، سیاسی پارٹیوں کے کیچڑ آلود بیانات، تحریک لبیک یا رسول اللہ کا دھرنا، قومی اسمبلی میں ختم نبوت بل میں تبدیلی کرنے والوں کو سامنے لانے کی باتیں، وفاقی وزیر قانون زاہد حامدسے استعفیٰ کا مطالبہ، اسحاق ڈار کا استعفیٰ دینے اور پھر نہ دینے کا اعلان، مریم صفدر اوراُن کے شوہر ریٹائرڈ کیپٹن صفدر کی عدالتی تاریخیں، سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف کا عدالت سے نا اہل ہوکر سڑکوں پر آجانا، ایبٹ آباد جلسے میں اذان کی اطلاع دینے والے پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے میاں نواز شریف کا کہنا کہ میں بھی سُن رہا ہوں یار مجھے بات کرنے دو، میاں برادران کا تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھنا، قومی و صوبائی اسمبلی کے مسلم لیگی ممبرز کی میاں برادران تک رسائی نہ ہونا، یہ ’’صعر‘‘ نہیں تو اور کیا ہے؟ یہ وہ عوامل ہیں جنہوں نے میاں برادران کا اقتدارہوتے ہوئے بھی انہیں اپنے لئے انصاف مانگنے پر مجبور کر دیا اور نا اہل وزیراعظم کہ کل تک جس سے ملاقات کرنا دشوار تھا اُسے ملاقات کے منتظر عوام میں لا کھڑا کیا اور کہنے پر مجبور کر دیا کہ میں اپنا کیس عوام کے سامنے رکھوں گا، میرا فیصلہ یہ کریں گے، اِسے مکافاتِ عمل کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا۔ میاں برادران اِس وقت چاروں اطراف سے مصائب کی زد میں ہیں، عمران خان اور طاہر القادری کا دھرنا ختم ہوتا ہے تو دہشت گردانہ حملوں سے پاکستان لرز اُٹھتا ہے، دہشت گردی پر قابو پایا جاتا ہے تو پاناما لیکس اسکینڈل سامنے آ جاتا ہے، پاناما لیکس کی طرف سے دھیان ہٹتا ہے تو ’’اقامہ‘‘ کی سزا سنا دی جاتی ہے، ابھی اِس سزا کے احتجاج میں سابق وزیراعظم سڑکوں پر انصاف مانگ ہی رہے ہیں کہ میاں برادران کے آپس کے جھگڑے اور گھریلو ناچاقی سامنے آجاتی ہے، مستقبل میں حمزہ شریف وزیراعظم پاکستان ہو گا یا مریم نواز؟ اس بات کی تکرار مسلم لیگی دھڑوں میں بھونچال لے آتی ہے۔ سابق وزیر داخلہ چوہدری نثار کو بار بار منا کر مسلم لیگ ن کو ٹوٹنے سے بچانے کی کوششیں کی جاتی ہیں، یعنی میاں برادران ایک مصیبت سےنکلتے نہیں کہ دوسری اُن کا استقبال کرنے کے لئے تیار کھڑی ہوتی ہے، اگر دیکھا جائے تو اِس کی ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے میاں برادران کا اپنے ملک کے غریب عوام کے مسائل کے حل کی طرف توجہ نہ دینا ،بنیادی سہولتوں کی بجائے نظر آنے والے پروجیکٹس پر کام کر کے بے کسوں کی بد دعائیں لینا، اُن بے کسوں کی جو دو وقت کی روٹی کو ترس رہے ہیں اور اربوں روپیہ اورنج ٹرین پر لگا دیا جاتا ہے، ابھی یہ مصائب میاں برادران کے ساتھ دست و گریباں ہیں کہ اسلام آباد میں تحریک لبیک یا رسول اللہ کے دھرنے نے پوری ملکی مشینری کو ہلا کر رکھ دیا ہے، مذاکرات کے کئی دور ہو چکے لیکن کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا، دھرنے والے وفاقی وزیر قانون کا استعفیٰ مانگ رہے ہیں، وفاقی وزیر زاہد حامد استعفیٰ دینے کو تیار ہیں لیکن مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ وہ استعفیٰ کیوں دیں اُن کا کیا قصور ہے؟ دھرنے والے کہتے ہیں کہ عقیدہ ختم نبوت ہماری اساس ہے اس میں کسی قسم کی لغزش، کوتاہی یا غلطی کی کوئی گنجائش نہیں، اگر وفاقی وزیر قانون کا کوئی قصور نہیں تو اُن کرداروں کو سامنے لایا جائے جنہوں نے ختم نبوت بل میں تبدیلی جیسا جرم کیا، ختم نبوت بل میں تبدیلی کے حوالے سے حکومت کا موقف تھا کہ ایسا کچھ نہیں کیا گیا، اب کہا جا رہا ہے کہ ہم نے جو تبدیلی کی تھی وہ ٹھیک کر دی ہے، اِسی غلط بیانی کی پاداش میں وزیر قانون زاہد حامد کو بیان دینا پڑا ہے کہ میں ’’احمدی ــ‘‘ نہیں ہوں ۔پاکستان کی سا لمیت اور وقار کے لئے بہتر ہے کہ تحریک لبیک یا رسول اللہ کے عہدیداران سے معاملہ مذاکرات کے ذریعے حل کر لیا جائے کیونکہ حکومت نے اگر طاقت کا استعمال کیا تو ممکن ہے کہ پورا پاکستان اُن دھرنے والوں کے ساتھ کھڑا ہو جائے اور اُس کے بعد رسول اللہ کے نام پر اپنا سب کچھ قربان کردینے والوں کے ٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندر کو روکنا کسی سیکورٹی ادارے یا حکومت کے بس کی بات نہیں ہو گی۔ موجودہ حکومت نے ختم نبوت بل میں تبدیلی کے حوالے سے جو جھوٹ بولے تھے وہ سب پکڑے جا چکے ہیں ،مرزائیوں کو پاکستان کے قانون کے مطابق دائرہ اسلام سے خارج کر دیا گیا ہے اس کے باوجودپاکستان میں مرزائیوں کا تعلیمی، طبی اور دوسرے اداروں میں فنڈنگ کرنا اور پاکستانی نوجوانوں کو اپنے عقیدے کی جانب راغب کرنا، موجودہ حکومت کی ایسے ناقابل برداشت معاملات پر چشم پوشی سمجھ سے بالا تر ہے؟اللہ تعالیٰ انسان کو وہی دیتا ہے جس کی وہ سعی کرتا ہے وہ سعی اچھائی کے لئے ہو تو اچھا صلہ اور اگر بُرائی کے لئے ہو تو سزا ضرور ملتی ہے۔ میاں برادران کومزید کتنا اقتدار اور کتنی دولت چاہئے، اِس جہان میں ہمیشہ کے لئے تھوڑی رہنا ہے، اب عوام میں آکر یہ پوچھنا کہ میرا قصور کیا تھا؟ مجھے کیوں نکالاگیا، نواز شریف ایک نظریئے کا نام ہے، میں دلوں کا وزیراعظم ہوں، میں اپنا کیس عوام کے سامنے رکھوں گا وغیرہ وغیرہ، سابق وزیر اعظم جی بہت ہو گیا اب بھی وقت ہے سمجھ جائیں کیونکہ عوام اب بلا کے سمجھ دار ہو کرآپ سےکہہ رہےہیں۔
اُونچے اُونچے درباروں سے کیا لینا
ننگے بُھوکے بے چاروں سے کیا لینا
اپنا مالک اپنا خالق افضل ہے
آتی جاتی سرکاروں سے کیا لینا

تازہ ترین