• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

زمبابوے پر تقریباً چار دہائیوں تک حکومت کرنے والے 92سالہ رابرٹ موگابے 1960ء کے عشرے میں ایک حریت پسند مقبول قومی رہنما کے طور پر ابھرے تھے۔ 1980میں وہ اپنے ملک کے صدر منتخب ہوئے لیکن پھر اقتدار کا چسکا ایسالگا کہ 37سال بعد بھی حکومت سے الگ ہونے کو تیار نہ تھے۔ اپنے ہم وطنوں کے لیے پیر تسمہ پا بن جانے اور دھاندلی و بدعنوانی کے الزامات کے سبب لوگ ان سے بیزار ہوچکے تھے۔ موگابے نہ صرف زندگی کی آخری سانس تک اقتدار پر قابض رہنے کے خواہاںتھے بلکہ اپنے بعد بھی اقتدار اپنے خاندان کے اندر ہی رکھنے کے لیے اپنی51 سالہ بیوی کو اپنا جانشین بنانا چاہتے تھے۔ اس مقصد کیلئے انہوں نے چند ہفتے پہلے اپنے نائب صدر کو برطرف کردیا لیکن ان کا یہ اقدام اونٹ کی کمر میں آخری تنکا ثابت ہوا۔ ان حالات میں فوج نے ان کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے اقتدار پر قبضہ کرلیا تو عوامی سطح پر اس کا پرزور خیرمقدم کیا گیا لیکن موگابے اب بھی اقتدار چھوڑنے کو تیار نہ تھے۔ تاہم جب ان کے مواخذے کی کارروائی شروع ہوئی تو انہوں نے فوری طور پر مستعفی ہونے کا اعلان کردیا جس کے نتیجے میں مواخذے کی کارروائی روک دی گئی جبکہ لوگ جشن منانے کے لیے سڑکوں پر نکل آئے۔ ہوس اقتدار کا یہ رسواکن انجام ڈکٹیٹروں ہی کے لیے نہیں، ان تمام سیاستدانوں کے لیے بھی باعث عبرت ہونا چاہیے جو جمہوریت کے دعووں کے باوجود اپنی جماعتوں میں جمہوری روایات کو پروان چڑھانے کے بجائے اقتدار کو موروثی بنانے کے مصنوعی طریقے اختیار کرتے ہیں ۔ عشروں تک ایک ہی فرد یا ایک ہی خاندان کی حکمرانی سے کرپشن اور دولت کی غیرمنصفانہ تقسیم کو فروغ حاصل ہوتا ہے جس کے نتیجے میں آج نوبت یہ آپہنچی ہے کہ دنیا کی آدھی دولت صرف آٹھ افراد کے ہاتھوں میں سمٹ گئی ہے۔ یہ بے انصافی عالمی سطح پر جس بے چینی کا سبب بن رہی ہے وہ کسی بڑے تصادم کی شکل میں بدل سکتی ہے لہٰذا آمریت کی ہرشکل اور دولت کی غیر منصفانہ تقسیم کے خلاف عالمی برادری کو موثر حکمت عملی اختیار کرنا ہوگی۔

تازہ ترین