• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جب ملک میں سیگریٹ کی آدھی ڈبی، سیونٹی موٹر سائیکل اور ’’انقلابی تحریکوں‘‘ کے دن تھے تو کچھ سیانے کہتے تھے کہ اگر تہران اور فلپائن کی طرح ملک پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد کے بجائے کراچی اور لاہور ہوتے تو ’’انقلاب‘‘ کب کا آ چکا ہوتا۔ لیکن لگتا ہے کہ ان سیانوں سے ایوب خان زیادہ سیانا تھا جو کراچی سے ملک کا دارالحکومت راولپنڈی کے قریب نئے تعمیر کیے شہر ’’اسلام آ باد‘‘ لے آیا۔ لیکن کسی نے کہا ہے کہ ایوب خان کے کراچی سے اسلام آباد دارالحکومت منتقل کرنے کی وجہ یہ تھی کہ ایوب خان کی صحت کو کراچی کا پانی راس نہیں آتا تھا۔ اور پھر راولپنڈی اسکے گائوں ریحانہ کے قریب تھا۔ تو وہ دن بھی تھے جب کراچی والے اس بات پر فخر کیا کرتے تھے کہ ڈکٹیٹروں کو کراچی کا پانی راس نہیں آتا۔ جب میں انقلاب کی بات کرتا ہوں تو اسکا مطلب ’’فوجی انقلاب‘‘ ہر گز نہیں جسے بعد میں ایوب خان نے ’’انقلاب‘‘ کا نام دیا تھا۔ اکتوبر انقلاب انیس سو اٹھاون۔ فوجی انقلابوں یا بغاوتوں کیلئے اسلام آباد جیسے شہر اس وقت کے پاکستان کے ڈکٹیٹروں کو موزوں لگے۔ اسی لیے تو ایوب خان سے لیکر ہر آمر نے یہ دہرایا اور بار بار دہرایا کہ ’’پاکستان جیسے ممالک کی آب و ہوا جمہوریت کیلئےموزوں نہیں‘‘ اس حوالے سے صرف ضیا ہی نہیں سارے آمر آرئین نکلے کہ ’’جمہوریت کی کھیتی کیلئے پاکستان کی زمین و آب و ہوا موزوں نہ تھی‘‘ ۔ لیکن اسلام آباد کی زمین کیسی زمین ہے کہ جہاں بقول لکھاری مظہر الاسلام کہ اسلام آباد میں درخت نہیں اگتے تو بندے کیسے اگیں گے۔
اسلام آباد کا نقشہ اس وقت بنا جب اس وقت کے آنیوالے دنوں کے ایوب خان کے بعد والے ڈکٹیٹر نئی بننے والی کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی یا سی ڈی اے کے سربراہ تھے۔ لیکن نقشے بازوں کا کہنا ہے کہ اسلام آباد کے نقشے کو دیکھو تو اسکی کوئی لکیر ٹیڑھی نہیں۔ اب اسلام آباد کے کرتا دھرتائوں پر ’’ٹیڑھی لکیر‘‘ لکھنے کو پھر کوئی عصمت چغتائی کہاں سے آئے؟ لیکن سندھی زبان کے افسانوں کے کرشن چندر امرجلیل نے ایک دفعہ لکھا تھا کہ اسلام آباد کے سیکٹروں کی طرح قبرستان بھی مرنے والوں کے گریڈوں میں بٹے ہوئے ہوتے ہیں ہر سیکٹر کے ملازموں کے اپنے اپنے قبرستان۔ اسلام آ باد جس کیلئے ایک دفعہ شیخ مجیب الرحمان نے کہا تھا ’’اسلام آباد کی سڑکوں کو دیکھ کر نہ جانے کیوں ان سے مشرقی پاکستان کی پٹ سن کی خوشبو آتی ہے ‘‘پھر کسے خبر تھی کہ اسلام آباد کو اپنی سرپرستی میں بنوانے والا یحییٰ خان اور اسکے حواری سیاستدان ڈھاکہ سمیت سابقہ مشرقی پاکستان کی سڑکوں کو خون میں نہلائیں گے۔’’ خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد‘‘پھر بتاتا چلوں کہ جب فیض صاحب کے یہ مصرعے میں نے بنگلہ دیش کے ایک صحافی کو سنائے تھے تو اس نے کہا تھا:’’حسن ! یہ خون کے دھبے نہیں دریا تھے دریا۔ ایسے نہیں دھلیں گے۔‘‘
لیکن آج کل اسلام آباد کی سڑکوں پر کیا ہو رہا ہے؟ دھرنا ہو رہا ہے۔ دھرنا ورنا۔ اور یہ بھی کیوں سننے میں آرہا ہے بار بار کہ ’’نواز شریف مجیب الرحمان بن رہا ہے‘‘’’نواز شریف کو مجیب الرحمان مت بنایا جائے‘‘ بس اتنا ہی کہوں گا کہ قومیں تاریخ میں بار بار خوش نصیب نہیں ہوتیں کہ وہ شیخ مجیب الرحمان کو جنم دیں اور اتنی بدنصیب نہیں ہونی چاہئیںکہ ہر دفعہ مجیب الرحمان کو مارڈالیں۔ اسی یحییٰ خان نے حمودالرحمان کمیشن کے سامنے اپنا خفیہ حلف نامہ داخل کروایا تھا جس میں اس نے کہا تھا کہ’’ پاکستان توڑنے کا جوابدہ شیخ مجیب نہیں بھٹو تھا۔‘‘ لیکن بھٹو کی منتخب حکومت کا دھڑن تختہ کرتے ہوئے اسے کس نے تختہ دار پر پہنچا کر میکاولی سے منصور میں بدل ڈالا؟ لگتا ہے کہ میکاولی کی کتاب ’’دی پرنس‘‘ پاکستان کے ہر سول و غیر سول حکمران اور اسٹیبلشمنٹ نے ازبر کی ہوئی ہے۔
وہ دن گئے جب منتخب حکومتوں کو (اب کل ہی کی بات ہے) ایک جیپ اور تین ٹرکوں سے ہٹایا جاتا تھا۔ اب اسکی بجائے کہ زیرو زیرو سیون یا کسی بھی تین ہندسوں والی جگہ سے منتخب حکومتوں پر لشکر کشی کے ذریعے شب خون مارا جائے اور کہا جائے پھر ’’عزیز ہموطنوالسلام علیکم‘‘ لیکن اب یہ کام دھرنوں ورنوں سے بھی لیا جاتا ہے۔ یا کوششیں بھرپور کی جاتی ہیں، یعنی کہ دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی میں دے دھرنے پہ دھرنا۔ دے دھرنا۔
لیکن یہ شاید نواز شریف کی حکومت (نہ جانے جمہوری کتنی ہے جمہوریتیں بھی اب ہم جیسے ملکوں میں پریڈ گرائونڈ میں مرغا بنی ملتی ہیں ) دھرنا پروف ضرور ثابت ہوئی ہے۔ جمہوری حکومت، پھر وہ زرداری کی تھی کہ نواز شریف کی یا مسلم لیگ نون کی اس لیے بھی میں مکمل جمہوری نہیں سمجھتا کہ جہاں خفیہ ادارے شہریوں پر گمشدگیوں کا نفاذ کرتے ہوں وہ کیسے جمہوری کہلائی جا سکتی ہیں ۔ لیکن اس بحث کو یہاں موقوف کرتا ہوں۔ لیکن پاکستان پیپلزپارٹی کے سینیٹر اور کسی زمانے میں اخبار ’’فرنٹیئر پوسٹ‘‘ کے مدیر فرحت اللہ بابر صد ہا آفرین کے مستحق ہیںکہ انہوں نے نہ فقط منتخب ایوان بالا یا سینیٹ میں یہ ماورائے آئین و قوانین مسئلہ اٹھایا بلکہ ایوان بالا کے بے عملی برتنے پر مستعفی بھی ہوگئے۔ حالانکہ فرحت اللہ بابر کی پارٹی کی سندھ حکومت بھی اپنے ووٹروں اور سندھ میں پاکستان کے شہریوں کی گمشدگیاں روکنے میں ناکام رہی ہیں۔ بلکہ لگتا ہے سندھ کے حکمران بھی شاید اس خوف میں ہوں کہ کہیں خدانخواستہ گمشدگیوں کے ’’نفاذ‘‘کا اطلاق ان پر نہ ہو۔ یا پھر لگتا ہے کہ سندھ میں صرف اب تک تین شہری غائب کردئیے گئے تھے اور وہ تھے زرداری کے کاروباری دست راست نواب لغاری، غلام قادر مری اور اشفاق لغاری۔ لیکن جمہوریتیں جیسی بھی ہیں وہ تو غائب نہیں ہونی چاہئیں۔ اگرحکومتیں نااہل اور کرپٹ ہیں تو وہ دھرنوں ورنوں میں نہیں، بھالے برچھی سے نہیں بلکہ پرچی یعنی ووٹوں سے ہٹنی چاہئیں۔ اس کا فیصلہ کرنے والے ساجھے ماجھے گامے ہونے چاہئیں الفا بیٹا چارلی نہیں یعنی مامے نہیں۔ پبلک سب سمجھتا ہے صاب!

تازہ ترین